ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان بمقابلہ افغانستان ’میچ کو کھیل

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان بمقابلہ افغانستان ’میچ کو کھیل

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان بمقابلہ افغانستان ’میچ کو کھیل کے طور پر سمجھیں اور پرسکون رہیں‘

افغانستان کے لیگ سپنر راشد خان نے شائقین سے درخواست کی ہے کہ وہ جمعے کے روز پاکستان کے ساتھ ہونے والے میچ کے موقعے پر پرسکون رہیں اور اس میچ کو صرف میچ کے طور پر سمجھیں اور کھیل سے لطف اندوز ہوں۔

راشد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہمیشہ اچھے میچز رہے ہیں جیسا کہ 2018 کے ایشیا کپ اور 2019 کے عالمی کپ کے مقابلے تھے۔ یہ بات انھوں نے پاکستان اور افغانستان کے میچ سے قبل جمعرات کے روز ہونے والی پریس کانفرنس میں کہی ہے۔

مگر راشد خان کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

راشد خان نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ 2019 کے عالمی کپ میں دونوں ٹیموں کے میچ کے موقعے پر کچھ ناخوشگوار واقعات پیش آئے تھے۔

راشد خان نے اسی میچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ʹہم نے دیکھا تھا کہ اس میچ کے بعد کچھ ایسے واقعات اور چیزیں ہوئی تھیں جو نہیں ہونی چاہئیں تھیں۔ʹ

راشد خان کو امید ہے کہ شائقین اپنی توجہ کھیل پر مرکوز رکھیں گے اور جو بھی ٹیم اچھا کھیلے گی وہ جیتے گی اور وہ اچھی ٹیم کو سپورٹ کریں گے۔ ‘اس کھیل کا مطلب ہی اس سے لطف اندوز ہونا اور اقوام کو متحد رکھنا ہے۔‘

راشد خان کے اس بیان کو سوشل میڈیا پر نمایاں اہمیت دی گئی ہے اور اسے ایک مثبت سوچ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

روئٹرز افغانستان کی ٹوئٹ میں راشد خان کی اسی پریس کانفرنس کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا افغانستان کے کرکٹرز اس بات سے پریشان نہیں ہیں کہ مستقبل میں ٹیم کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے، فی الحال ہمارے سامنے اہم بات یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچا جائے۔

ایک صارف نے لکھا ہے کہ ‘ایک وہ وقت تھا جب بین الاقوامی ٹیمیں ہم سے کھیلنے کے لیے تیار نہیں تھیں، اس وقت بھی جب میچز شیڈول ہوتے تھے۔ وہ ہماری ٹیم کو حقارت کی نظر سے دیکھتی تھیں لیکن آج حریف کے طور راشد خان نے ٹیم کو یہ مقام دیا ہے۔‘

اس کے ساتھ انہوں نے راشد خان کی ایک تصویر پوسٹ کی ہے جس میں افغانستان کا سکور 70 رنز بغیرکسی نقصان کے دیکھا جاسکتا ہے۔

افغانستان کی ٹیم سخت جاں حریف

پاکستان اور افغانستان کے درمیان اب تک چار ون ڈے انٹرنیشنل اور ایک ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلے جا چکے ہیں اور ان تمام میچوں میں پاکستان کی جیت کا ریکارڈ سو فیصد ہے لیکن آخری دو میچوں پر اگر نظر ڈالیں تو پاکستان کی کامیابی اتنی آسان نہیں تھی۔

2018 کے ایشیا کپ میں ابوظہبی میں ہونے والے میچ میں پاکستان نے سخت مقابلے کے بعد صرف تین وکٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ پاکستان کو جیتنے کے لیے 258 رنز کا ہدف ملا تھا اور اگرچہ امام الحق نے 80 اور بابراعظم نے 66 رنز کی اچھی اننگز کھیلی تھیں لیکن راشد خان کی تین وکٹوں اور مجیب الرحمن کی دو وکٹوں نے پاکستانی بیٹسمینوں کے لیے صورتحال مشکل کردی تھی۔ اس موقع پر شعیب ملک کی ناقابل شکست نصف سنچری نے پاکستان کو آخری اوور میں جیت سے ہمکنار کیا تھا۔

2019 کے عالمی کپ میں ہیڈنگلے میں کھیلا گیا میچ بھی بھلا کون بھول سکتا ہے جب پاکستان کو کامیابی کے لیے صرف 228 رنز بنانے تھے لیکن 206 کے سکور پر اس کی سات وکٹیں گرچکی تھیں۔ اس صورتحال میں عماد وسیم اور وہاب ریاض نے اعتماد سے بیٹنگ کرتے ہوئے ٹیم کو جیت سے ہمکنار کیا تھا۔ عماد وسیم 49 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے تھے جبکہ وہاب ریاض نے انگلی میں فریکچر ہونے کے باوجود راشد خان کی بولنگ پر ایک چھکا اور ایک چوکا لگایا تھا۔

حالیہ برسوں میں افغانستان کی ٹیم جس طرح ایک متوازن اور سخت حریف کے طور پر سامنے آئی ہے اسے دیکھتے ہوئے جمعہ کے روز ہونے والے میچ کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ یہ ایک دلچسپ میچ ہوگا اور اسے پاکستانی بیٹسمینوں کا سخت امتحان کہا جارہا ہے کیونکہ ان کا سامنا دو ورلڈ کلاس سپنرز راشد خان اور مجیب الرحمن سے ہے جو ماضی میں بھی پاکستانی بیٹسمینوں کے لیے مشکلات پیدا کرچکے ہیں۔

کرکٹ

پاکستان کے سابق کپتان انضمام الحق کا بھی یہی کہنا ہے کہ افغانستان کی ٹیم کو آسان نہیں سمجھا جاسکتا۔ انضمام الحق ماضی میں افغانستان کے ہیڈ کوچ رہ چکے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک صارف سارنگ بھلیراؤ نے راشد خان اور بابر اعظم کے بارے میں دلچسپ بات بتائی کی ہے کہ متحدہ عرب امارات میں یہ دونوں کھلاڑی ناقابل شکست رہے ہیں۔

راشد خان نے متحدہ عرب امارات میں 15 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلے ہیں اور یہ تمام میچز افغانستان جیتا ہے۔ اسی طرح بابر نے اعظم 13 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ متحدہ عرب امارات میں کھیلے ہیں اور تمام جیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے میچ میں ان میں سے کوئی ایک پہلی بار ہارے گا۔

کیا افغانستان بھی روایتی حریف؟

کرکٹ ہو یا ہاکی پاکستان اور انڈیا ہمیشہ ایک دوسرے کے روایتی حریف سمجھے جاتے رہے ہیں۔

اس کی وجہ سب جانتے ہیں لیکن یہ بات بڑی حیرانی سے دیکھی جاتی رہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان بھی جب جب کرکٹ کے میدان میں آمنے سامنے آئے ہیں، معاملہ ہمیشہ گرم رہا ہے۔

اس کا سبب بھی دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی تعلقات ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میدان میں تو کرکٹرز ایک دوسرے سے ہارنے کے لیے کسی طور تیار نہیں دکھائی دیتے لیکن میدان کے باہر بھی دونوں طرف کے شائقین غیرمعمولی طور پر جذباتی دکھائی دیتے ہیں۔

افغانستان کی کرکٹ کی کہانی اس وقت شروع ہوئی تھی جب چند نوجوان کرکٹرز نے پاکستان میں پناہ گزیں کیمپوں میں رہتے ہوئے کرکٹ کھیلنی شروع کی۔

افغانستان کے متعدد کرکٹرز جن میں راشد خان بھی شامل ہیں، پاکستان میں رہ کر تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ ان کرکٹرز کی فمیلیز پاکستان میں کاروبار بھی کرتی رہی ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے افغانستان میں کرکٹ کے فروغ میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کے متعدد سابق کرکٹرز افغانستان کی ٹیم کی کوچنگ بھی کرچکے ہیں تاہم اس کے بعد کچھ ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ افغانستان کی کرکٹ پاکستان سے دور اور انڈیا کے قریب ہوتی گئی۔

لیکن حالیہ دنوں میں جس طرح راشد خان، محمد نبی اور دوسرے کرکٹرز پاکستان آکر پاکستان سپر لیگ کھیلے ہیں، اس کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے برف پگھل رہی ہے۔ افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے پہلے پاکستان کا دورہ بھی کرنا تھا لیکن افغانستان کی بدلتی صورتحال کی وجہ سے یہ دورہ مؤخر کرنا پڑا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *