پٹھان شاہ رخ خان کے لیے ان کی نئی فلم

پٹھان شاہ رخ خان کے لیے ان کی نئی فلم

پٹھان شاہ رخ خان کے لیے ان کی نئی فلم اتنی اہمیت کیوں رکھتی ہے؟

بالی ووڈ سپر سٹار شاہ رخ خان کی نئی فلم پٹھان، جو اگلے ہفتے ریلیز ہو رہی ہے، گزشتہ کئی ہفتوں سے انڈیا میں شہ سرخیوں میں ہے۔

اس میں یہ دلچسپی شاید اتنی حیران کن بات نہیں ہے۔ شاہ رخ خان کا شمار انڈیا کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے فلمی ستاروں میں ہوتا ہے۔ دلکش، مضحکہ خیز اور اندرون و بیرون ملک لاکھوں مداحوں کے ساتھ، انھیں اکثر بالی ووڈ کی ’سب سے اہم ثقافتی برآمد‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جن کی مقبولیت ان کی فلموں سے بھی زیادہ ہے۔ ان کے مداح انھیں پیار سے کنگ خان یا بالی ووڈ کا بادشاہ کہتے ہیں۔

چار سال کے وقفے کے بعد ان کی فلم پٹھان سنیما گھروں کی زینت بن رہی ہے۔

57 سالہ خان اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں آنے والے کئی دھچکوں کے بعد بڑی سکرین پر جلوہ افروز ہو رہے ہیں۔ ان مسائل میں گزشتہ سال ان کے بیٹے آریان خان کی منشیات رکھنے کے جھوٹے الزامات میں گرفتاری بھی شامل ہے۔ بالآخر ان کے بیٹے پر سے یہ الزامات واپس لے لیے گئے تھے۔ اسی طرح شاہ رخ خان کی کئی فلمیں بھی شائقین کی طرف سے اچھی پذیرائی نہ حاصل کر سکیں۔

چار سال کے وقفے نے خان کی واپسی میں مزید دلچسپی پیدا کر دی اور ساتھ ہی یہ دلچسپی فلم کی سخت جانچ پڑتال کا باعث بھی بنی۔ فلم میں بالی ووڈ کے دیگر مقبول ترین ستارے بھی شامل ہیں جن میں دیپیکا پڈوکون اور جان ابراہم سرِ فہرست ہیں۔

دسمبر میں جب فلم سازوں نے پٹھان کے گانوں کی پروموشنل ویڈیوز جاری کرنا شروع کیں تو سوشل میڈیا پر مسلسل چہ مگوئیوں شروع ہو گئیں۔ اور جب سے پچھلے ہفتے اس کا ٹریلر آیا ہے تو مداحوں کا جنون عروج پر پہنچ گیا ہے۔

اسے یوٹیوب پر چار کروڑ نوے لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ ہندی ٹریلر کے خان کے ٹویٹ کو تقریباً 40 لاکھ ویوز جبکہ تیلگو اور تامل ورژن کو اضافی پانچ پانچ لاکھ ویوز ملے ہیں۔

رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ، متحدہ عرب امارات، جرمنی اور آسٹریلیا میں ٹکٹوں کی فروخت پر ’غیر معمولی ردعمل‘ نظر آیا ہے۔

پٹھان

شائقین فلم کے پلاٹ کو جیمز بانڈ اور ’مشن امپوسیبل‘ فلموں کے درمیان ایک کراس اوور کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ ایک دہشت گرد گروہ انڈیا کو تباہ کرنے کے لیے ایک ایسا حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے  ’جس کے متعلق وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔‘ حکام ان سے لڑنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن وقت ختم ہو رہا ہے۔ ملک کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ لہذا، انھوں نے اپنے بہترین آدمی کی مدد تلاش کی۔

’اگر آپ پٹھان کے گھر پارٹی کرنے کی ہمت کرتے ہیں، تو مجھے آپ کے استقبال کے لیے آتش بازی کے ساتھ آنا پڑے گا۔‘ خان اپنی مخصوص آواز میں اینٹری ڈالتے ہیں۔

بکھرے ہوئے بالوں اور تراشے ہوئے بائسپس اور ایبس کے ساتھ ایک خوش اخلاق جاسوس آسانی سے دشمنوں کو زیر کرتا ہے، چلتی گاڑیوں سے کودتا ہے، فلک بوس عمارتوں سے عمودی طور پر نیچے اترتا ہے، خواتین کو پھنساتا ہے اور اپنی قوم کو شیطانی قوتوں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے، جن کی قیادت فلم میں جان ابراہم کر رہے ہیں۔ ان مناظر کے ساتھ ساتھ تھرکا دینے والی شاندار موسیقی بھی شامل ہے۔

ڈھائی منٹ کے ٹریلر نے شائقین اور ناقدین کو یکساں طور پر پرجوش کر دیا ہے۔ ایک پرستار نے کہا کہ فلم سے پورا ’پیسہ وسول‘ ہو جائے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ جیسے ہی فلم ریلیز ہو گی وہ اسےدیکھنے کی کوشش کریں گے۔

لیکن اس کے برعکس شروع سے ہی پٹھان فلم تنازعات میں گھری ہوئی ہے۔

خان کو ماضی میں بھی پریس اور ناقدین کے ساتھ کافی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ لیکن جب سے چند سال قبل بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم برداشت کے بارے میں ان کے تبصرے سامنے آئے ہیں، تب سے دائیں بازو کے سرگرم ہندو گروہوں کے حملوں کا سلسلہ زیادہ ذاتی اور مربوط ہو گیا ہے۔

مصنف اور فلمی نقاد سائبل چٹرجی کہتے ہیں کہ ’اس نے ایک واضح فرقہ وارانہ احساس پیدا کر دیا ہے، کیونکہ وہ اداکار کی تصویر کو ان کی مذہبی شناخت کے سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

پٹھان

وہ کہتے ہیں کہ چند سال پہلے تک، بالی ووڈ کو ایک ایسی جگہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا جو مذہبی اور سیاسی اختلافات سے بالاتر تھی اور ’تفریح ​​واحد چیز تھی جو اہمیت رکھتی تھی‘۔ لیکن، ان کے مطابق‘ صنعت اب تیزی سے پولرائزڈ ہو رہی ہے۔

’خان ان چند اداکاروں میں سے ایک ہیں جو اس ماضی کی نمائندگی کرتے ہیں جسے کچھ طبقے مکمل طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ انھیں برداشت نہیں کر سکتے۔‘

فلم کے نام پٹھان سے، جو ایک مسلم ٹائٹل سمجھا جاتا ہے، سخت گیر ہندو گروہ پہلے ہی ناراض تھے لیکن بعد میں انھوں نے اس کے ایک گانے ’بے شرم رنگ‘ پر تنازع کھڑا کردیا جس میں دیپیکا پڈوکون نے زعفرانی رنگ کی بکنی پہنی ہوئی تھی۔ زعفرانی رنگ پر ’بے شرم رنگ‘ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

انھوں نے خان پر ہندوؤں کی توہین کرنے کا الزام لگایا کیونکہ زعفران ہندوؤں کے مذہب سے جڑا ہوا رنگ ہے، حالانکہ پڈوکون نے گانے کے دوران کئی ملبوسات تبدیل کیے تھے۔

ہندو گروہوں نے گانے کو ہٹانے تک فلم پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا، مظاہرین نے فلم کے پوسٹرز پھاڑ دیے اور خان کے پتلے جلائے، عدالت میں درخواست دائر کی گئی جس میں کاسٹ پر ہندو برادری کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگایا گیا اور فلم پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ یہ عریانیت اور فحاشی کو فروغ دے رہی ہے۔

پٹھان کا بائیکاٹ کرنے کی مسلسل کالیں آتی رہی ہیں اور سوشل میڈیا پر اس کے خلاف نازیبا ہیش ٹیگ ٹرینڈ ہوتے رہے ہیں۔

لیکن جیسے ہی پٹھان کی ریلیز کی الٹی گنتی شروع ہوئی، خان اور فلم سازوں نے تنازعات کے متعلق سوچنے کی بجائے فلم کی تشہیر پر توجہ دینا شروع کر دی۔

فیفا ورلڈ کپ کے دوران برطانوی فٹبالر وین رونی شاح رخ خان کے ساتھ ایک مختصر پروموشنل ویڈیو میں نظر آئے، جس میں وہ خان کے الفاظ ان کے ساتھ ہندی میں دہراتے ہیں: ’اپنی سیٹ کی بیلٹ باندھ لو، موسم بگڑنے والا ہے ۔‘

اور اس ہفتے کے شروع میں، خان نے دبئی کا دورہ کیا جہاں برج خلیفہ پر پٹھان فلم کا ٹریلر پرجوش شائقین کے ایک بڑے ہجوم کے سامنے چلایا گیا۔

پٹھان

اداکار کی ساکھ کے ساتھ ساتھ فلم کا ڈھائی ارب (انڈین) روپے کا بجٹ بھی داؤ پر لگا ہوا ہے اور کچھ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا فلم کی منفی تشہیر اس کی کامیابی کو متاثر کر سکتی ہے۔

اس بات سے چٹرجی متفق نہیں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’خان صرف ایک اداکار نہیں ہیں، وہ ایک برانڈ ہیں، شاید ملک میں ہمارے پاس سب سے بڑا برانڈ، اور یقیناً بالی ووڈ میں تو ضرور۔‘

’ڈیسپریٹلی سیکنگ شاہ رخ خان‘ نامی کتاب کی مصنفہ شریانا بھٹاچاریہ کہتی ہیں کہ سٹار کے پرستار ’انھیں مذہب یا سیاسی حساب کتاب میں کبھی نہیں ڈالیں گے۔ وہ پٹھان کا پہلے دن کا پہلا شو دیکھیں گے کیونکہ انھوں نے اسے (خان کو) سکرین پر مس کیا ہے۔‘

لیکن کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا چار سال کے وقفے کے بعد خان کی بڑی سکرین پر واپسی کے لیے سپائی تھرلر کی صنف درست چوائس ہے؟

خان نے ایک رومانوی ہیرو کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنا نام بنایا ہے، ایک ایسے اداکار کے طور پر جس نے ایک پوری نسل کے لیے محبت کی تعریف، اس کی زبان، بے چینی اور اس کے ساتھ آنے والی پریشانیوں کے ساتھ کی۔ اور ہو سکتا ہے کہ خواتین، جو اس کے مداحوں کے گروہ کا ایک بڑا حصہ ہیں، اسے ایک ایکشن ہیرو کے طور پر دیکھنے میں دلچسپی نہ رکھتی ہوں۔

کچھ دن پہلے شاہ رخ خان نے کہا تھا کہ وہ ہمیشہ ایکشن ہیرو بننا چاہتے تھے اور اسی لیے پٹھان ’میرے لیے ایک خواب  کی تعبیر ہے۔‘

چٹرجی کہتے ہیں کہ انھیں فلم کے بارے میں ’چند تحفظات‘ ہیں، لیکن یہ ’ایک جرات مندانہ خیال‘ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ خان کئی برسوں سے مختلف قسم کے کردار نبھانے کا تجربہ کر رہے ہیں جیسا کہ ’مائی نیم از خان‘، ’چک دے انڈیا‘ اور ’لو یو زندگی‘ میں نبھائے گئے کردار۔

وہ کہتے ہیں کہ پٹھان کے ساتھ خان واضح طور پر سانچے سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’لیکن اپنے کیریئر کے اس موڑ پر، وہ ایسا کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ وہ نڈر ہیں اور وہ تجربہ کر رہے ہیں۔ ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس جوئے کا فاعدہ ہو یا نہ ہو، ایک بات یقینی ہے: ’آپ شاہ رخ خان کی فلم نہیں چھوڑیں گے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *