میٹا فیس بک کے نام میں تبدیلی ساکھ بچانے کی کوشش

میٹا فیس بک کے نام میں تبدیلی ساکھ بچانے کی کوشش

میٹا فیس بک کے نام میں تبدیلی ساکھ بچانے کی کوشش یا مستقبل کی دنیا میں قدم رکھنے کا اعلان؟

فیس بک نے ری برانڈنگ کرنے کی کوشش میں اپنا کارپوریٹ نام تبدیل کر کے میٹا رکھ دیا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ نام اس کی کاوشوں کا بہتر انداز میں ’احاطہ‘ کرے گا کیونکہ اب وہ سوشل میڈیا کے علاوہ ورچوئل ریئلٹی جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔

یہ تبدیلی انفرادی پلیٹ فارمز یعنی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک اور انسٹاگرام اور میسجنگ ایپ واٹس ایپ پر لاگو نہیں ہو گی اور اس کا اطلاق صرف اس کمپنی کے لیے ہو گا جو ان تمام پلیٹ فارمز کی مالک ہے۔

یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب فیس بک کے بارے میں متعدد منفی پریشان کن معلومات گردش کر رہی ہیں جو اس کے سابق اہلکاروں کی جانب سے لیک دستاویزات کے ذریعے سامنے آئی ہیں۔

فرانسز ہاگن نے کمپنی پر ’منافع کو تحفظ پر ترجیح دینے‘ کا الزام عائد کر رکھا ہے۔ سنہ 2015 میں گوگل نے بھی اپنی کمپنی کا ڈھانچہ تبدیل کرتے ہوئے اس کا نام ایلفابیٹ رکھا تھا لیکن یہ نام لوگوں میں مقبولیت حاصل نہیں کر پایا۔

فیس بک کے سربراہ مارک زکربرگ نے اس نئے نام کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ وہ ’میٹا ورس‘ کی تعمیر کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی آن لائن دنیا ہو گی جس میں لوگ ایک ورچوئل ماحول میں وی آر ہیڈ سیٹس کے ذریعے بات چیت، کام اور گیمنگ کر سکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ برانڈ ہماری ’موجودہ کاوشوں کا بھی احاطہ نہیں کر پا رہا، مستقبل میں کیسے کرے گا‘ اس لیے اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

انھوں نے ایک ورچوئل کانفرنس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وقت کے ساتھ مجھے امید ہے کہ ہمیں ایک ’میٹاورس‘ کمپنی کے طور پر دیکھا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب ہم اپنے کاروبار کو دو مختلف شعبوں میں تقسیم کر چکے ہیں، ایک ہے ہماری ایپس کی فیملی اور دوسرا ہمارے مستقبل کے پلیٹ فارمز۔‘

فیس بک

فیس بک کو خود کو میٹا کہلوانے میں مشکل کیوں ہو سکتی ہے؟

کسی کمپنی کا نام رکھنا یا تبدیل کرنا ایک مشکل عمل ہے۔ زکربرگ کا کہنا ہے کہ انھوں نے ’میٹا‘ کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ یونانی زبان میں اس کے معنی ’اس پار‘ کے ہیں۔ یہ میٹا ورس کے حساب سے بھی صحیح بیٹھتا ہے جو ایک ایسی آن لائن دنیا ہے جو زکربرگ تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔

تاہم خود کو ’میٹا‘ کہلوانا فیس بک کے لیے ایک مشکل عمل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ نام تبدیل کرنے کے وقت کے انتخاب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ری برانڈنگ کی ایک کوشش ہے تاکہ کمپنی کے بارے میں متعدد منفی کہانیوں سے توجہ ہٹائی جا سکے۔

ناقدین کا ماننا ہے کہ فیس بک نے یہ اس لیے کیا کیونکہ اب یہ برانڈ داغدار ہو چکا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ میٹاورس کا وجود نہیں ہے۔ زکربرگ اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ یہ طویل المدتی منصوبہ ہے۔ اس لیے فی الحال اپنی سب سے اہم پراڈکٹ سے مختلف نام رکھنا، عجیب سی بات ہے۔ فیس بک کی تمام آمدنی فیس بک اور انسٹاگرام کے اشتہارات سے آتی ہے۔

اور تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ باقی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی ری برانڈ کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ کوئی بھی گوگل کو ایلفابیٹ کہہ کر نہیں پکارتا، یہ نام سنہ 2015 میں ایسے ہی ری برانڈنگ کی کوشش کرتے ہوئے رکھا گیا تھا۔

جو بات واضح ہے وہ یہ کہ انسٹاگرام اور فیس بک چلانا اب زکربرگ کی دلچسپی کا محور نہیں۔ انھیں اب نئی آن لائن دنیا بنانے اور ورچوئل ریئلٹی میں دلچسپی ہے۔

اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو چلانے کے انداز پر کی جانی والی مسلسل تنقید ان کے لیے یقیناً خاصی تھکا دینے والی ہو گی۔ ڈھانچے کی تبدیلی سے شاید انھیں کمپنی کے ان شعبوں پر توجہ دینے کا موقع ملے گا جن میں ان کی دلچسپی ہے۔ اس لحاظ سے اس تبدیلی کی وجہ سمجھ آتی ہے تاہم کیا لوگ بھی اس تبدیلی سے متفق ہوں گے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

خاتون

میٹا ورس ہے کیا؟

ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کی طرف سے دوسری بڑی ایجاد میٹاورس ہو گا جو ابھی محض تصور کے طور پر موضوع بحث ہے۔

یہ تصور ٹیکنالوجی کے سب سے بڑے ناموں جیسے فیس بک کے مارک زکربرگ اور ایپک گیمز کے ٹم سوینی کی توجہ اور وسائل اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔

کچھ لوگوں کے خیال میں میٹاورس انٹرنیٹ کا مستقبل ہے جبکہ عام لوگوں کے لیے یہ محض ورچوئل ریئلٹی کے بہتر ورژن کی طرح کا ہو سکتا ہے۔

یہ ورچوئل ریئلٹی کے طور پر ہی دیکھا جا رہا ہے اور تصور ہے کہ یہ اتنا فرق پیدا کر سکتا ہے جتنا کہ سنہ 1980 کی دہائی کے کم درجے کے موبائل فون اور آج کے دور کے سمارٹ فون میں موجود فرق ہے۔

اس نئی ایجاد کے بعد کمپیوٹر استعمال کرنے کے بجائے میٹاورس کی ورچوئل دنیا میں جانے کے لیے آپ کو ایک ہیڈسیٹ استعمال کرنا ہو گا اور اس سے آپ تمام ڈیجیٹل انوائرنمنٹس سے رابطہ قائم رکھ سکیں گے۔

اس وقت زیادہ تر گیمنگ کے لیے استعمال ہونے والی ورچوئل ریئلٹی کے برعکس ورچوئل ورلڈ کسی بھی چیز مثلاً کام، کھیل، کنسرٹس، سنما اور باہر نکل کر گپ شپ کرنے کے لیے عملی طور پر استعمال کی جا سکے گی۔

زیادہ تر لوگوں کے خیال میں آپ تھری ڈی ایواٹار (تھری ڈی روپ) حاصل کر سکیں گے جو آپ کی نمائندگی کرے گا یعنی جس طرح آپ اسے استعمال کرنا چاہیں گے، کر سکیں گے۔

کیونکہ ابھی یہ محض ایک تصور ہی ہے اس لیے تاحال میٹاورس کی کسی ایک متفقہ تعریف پر اتفاق نہیں ہو سکا۔

فیس بک

لیک دستاویزات

کمپنی کو اپنی ساکھ پر متعدد حملوں کا سامنا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا ہے کہ فیس بک نے وبائی امراض کے دوران پالیسی سازوں کی جانب سے ویکسین کی غلط معلومات کے بارے میں اہم معلومات کو روکا۔

اس کے علاوہ کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انسٹاگرام نے نوعمروں کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچایا جبکہ کمپنی کو امریکہ سے باہر اپنے پلیٹ فارمز سے نفرت انگیز مواد کو ہٹانے کے لیے جدوجہد کا سامنا رہا۔

مسٹر زکربرگ نے ان رپورٹس کو ’کمپنی کی غلط تصویر کشی کے لیے لیک شدہ دستاویزات کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کی مربوط کوشش‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔

یہ اچانک کیسے ایک بڑی چیز بن گئی؟

ڈیجیٹل دنیا اور آگمینٹڈ ریئلٹی سے متعلق ہر چند برس بعد بات چیت ہوتی ہے مگر اس کے بعد یہ عموماً بغیر کسی نتیجے کے ہی اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔

مگر دولت مند سرمایہ کاروں اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں میٹاورس کے بارے میں بہت جوش و خروش ہے اور کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اگر یہ انٹرنیٹ کا مستقبل بن جائے تو وہ پیچھے رہ جائیں۔

اس کے علاوہ یہ بھی احساس ہے کہ پہلی مرتبہ ورچوئل ریئلٹی گیمنگ اور کنیکٹیویٹی شاید اس نقطے پر پہنچ رہی ہیں جس کی اس کے لیے ضرورت ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

فیس بک کے سربراہ مارک زکربرگ کی جانب سے کمپنی کے نئے نام کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر اس پر بحث شروع ہو گئی اور لوگ اس بارے میں اپنی رائے اور خدشات کا ذکر کرتے رہے۔

کسی نے نام تبدیلی کو فیس بک کی ساکھ بچانے کی کوشش اور کسی نے اسے مستقبل کی دنیا میں قدم رکھنے کا اعلان کے طور پر دیکھا۔

پاکستان اور انڈیا میں بھی بہت سے صارف اس بحث میں یہ سوال کرتے نظر آئے کہ کیا اب سوشل میڈیا ایپ فیس بک کو میٹا کہا جائے گا۔

ایک صارف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فیس بک کمپنی نے اپنا نام تبدیل کر کے میٹا رکھ لیا ہے لیکن گھبرائیں نہیں فیس بک(ایپ) صارفین کے لیے کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔

سینیٹر شیری رحمان نے لکھا: ’فیس بک نے ورچوئل رئیلٹی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے نام تبدیل کر دیا۔‘

انھوں نے مزید لکھا: ’میٹاورس ایک اصطلاح ہے جو 3 تین دہائی قبل ناول ’سنو کریش‘ میں سامنے آئی تھی۔ اس کا اشارہ ایک مشترکہ ورچوئل دنیا کی جانب ہے جہاں پر لوگ مختلف ڈیوائسز سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔‘

ٹویٹ

خراب عورت نامی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے لکھا گیا کہ ’میٹا کا نام دیکھ کر میرے دماغ میں جو پہلی چیز آئی وہ میٹا فزکس تھی۔ مجھے اس کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی لیکن اب کسی اور چیز کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا رہا۔‘

ٹویٹ

انھوں نے مزید لکھا: ’کمپنیاں اپنے نام کیوں تبدیل کرتی ہیں؟ نام کی بجائے انھیں اپنی پالیسیوں پر عمل کرنا چاہیے۔

سعید انیق حسن نامی صارف نے میٹا کا لوگو شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’یہ ایکس باکس کے کنٹرولر کی طرح دکھائی دیتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *