انڈین شہر گجرات کا کینیڈا میں لاپتہ ہونے والا خاندان

انڈین شہر گجرات کا کینیڈا میں لاپتہ ہونے والا خاندان

انڈین شہر گجرات کا کینیڈا میں لاپتہ ہونے والا خاندان اور ان کے خواب

گجرات میں گاندھی نگر کی کلول تحصیل کے ڈنگوچا گاؤں میں داخل ہوتے ہی سنسان پڑے بند گیٹ والے ایک ویران بنگلے پر نظر جاتی ہے۔ یہ بنگلہ وہاں ایک قطار میں بنائے گئے ایک ہی طرح کے کئی گھروں میں سے ایک ہے۔

گذشتہ چند دنوں سے یہ گھر میڈیا کی سرخیوں میں ہے۔ یہ وہی گھر ہے جہاں رہنے والے ایک خاندان کے چار افراد چند دن پہلے کینیڈا سے لاپتہ ہوئے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ منفی 35 ڈگری کے برفانی طوفان کا سامنا کرتے ہوئے شاید ہلاک ہو گئے ہیں۔

جگدیش پٹیل،ان کی اہلیہ ویشالی پٹیل، ان کی بیٹی اور ان کا تین سالہ بیٹا لاپتہ ہونے والے افراد میں شامل ہیں۔ تاہم انڈیا کی حکومت یا کینیڈا میں انڈین سفارت خانے یا گجرات حکومت کی جانب سے اس خاندان کی موت کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

والد بلدیو بھائی کا کیا کہنا ہے؟

جب بی بی سی کی ٹیم اس گاؤں میں پہنچی تو دیکھا کہ گاؤں والے اس خاندان کے لیے پریشان ہیں۔ گذشتہ دنوں بہت سے صحافی اس گاؤں میں اس خاندان کے بارے میں جاننے کے لیے آ چکے ہیں۔ بی بی سی نے اس واقعے کے بارے میں مزید جاننے کے لیے جگدیش پٹیل کے والد بلدیو بھائی سے بات کی۔

بلدیو بھائی پٹیل کہتے ہیں کہ ’میرا بیٹا 10 دن پہلے اپنی بیوی، بیٹی اور بیٹے کے ساتھ کینیڈا گیا تھا۔ اس نے مجھے فون پر بتایا تھا کہ اسے کینیڈا کا ویزا مل گیا ہے۔ جگدیش نے یہ بھی بتایا کہ وہ کینیڈا پہنچ کر مجھ سے تفصیل سے بات کریں گے، لیکن ہم نے پچھلے چار دنوں سے جگدیش سے بات نہیں کی ہے۔ ہم اپنے رشتہ داروں کے ذریعے جگدیش کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

گھر
جگدیش پٹیل کا سنسان گھر

بلدیو بھائی ایک کسان ہیں جن کے پاس 20 بیگھہ زمین ہے۔ جگدیش، جو اپنے والد بلدیو بھائی کی کھیتی باڑی میں مدد کرتے تھے اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے کلول شہر میں آباد ہو گئے تھے۔ جگدیش کی کلول میں بجلی کے سامان کی دکان تھی۔

بلدیو بھائی کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ جگدیش اور ان کے خاندان نے کینیڈا کے ویزے کے لیے کب درخواست دی تھی۔

گاؤں والوں کے مطابق یہ خاندان 10 روز قبل وزیٹر یعنی سیاحتی ویزے پر کینیڈا گیا تھا لیکن گزشتہ پانچ دنوں سے یہاں ان کے گھر والوں کو ان کے بارے میں کوئی خیر خبر نہیں۔ ڈنگوچا گرام پنچایت کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب گھر والے جگدیش سے بات نہیں کر سکے تو انھوں نے سرکاری سطح پر ڈاک کے ذریعے وزارت خارجہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا اور خط بھیج دیا۔

انھوں نے کہا ’ہم نے سوچا کہ اس سے ہمیں مدد ملے گی کیونکہ یہاں ہر کوئی خوفزدہ تھا کہ کہیں وہ مصیبت میں نہ پھنس گئے ہوں اس لیے ہم نے وزارت خارجہ کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کلول میں جگدیش کا اپنا گھر ہے جو ڈنگوچہ گاؤں سے تقریباً 12 کلومیٹر دور ہے۔ اپنے والد کی کھیتی باڑی میں مدد کرنے کے علاوہ، وہ تہواروں کے دوران کپڑے بیچتے تھے۔ کلول میں وہ کفن کے کپڑے کا تھوک کا کاروبار کرتے تھے۔

بی بی سی گجراتی نے گاؤں کے کچھ دوسرے لوگوں سے بھی بات کی۔

ایک اور شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ’اس گاؤں کے ہر خاندان کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی قریبی رشتہ دار بیرون ملک ہو۔ ایسی مثالیں بھی ہیں جب شادی کی عمر کے لڑکے کو صرف اس وجہ سے لڑکی نہیں مل سکی کہ لڑکے کا کوئی قریبی رشتہ دار بیرون ملک نہیں تھا۔

بی بی سی نے کچھ دوسرے لوگوں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہاں کے خاندانوں پر گھر کے کسی نہ کسی رکن کو بیرون ملک رکھنے کا دباؤ کیوں ہے۔ یہاں ہر شخص امریکی ویزا سے متعلق قوانین سے واقف ہے۔ ان کے پاس ویزا کی مختلف معلومات ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کون سا ویزا گرین کارڈ یا امریکی شہریت دلوائے گا۔

امرِت پٹیل
امرت پٹیل 1988 میں امریکہ گئے تھے اب ریٹائرڈ ہیں

ایسے ہی ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ گاؤں میں صرف وہی شخص رہ جاتا ہے جو بیرون ملک جانے کے لیے چندہ اکٹھا نہیں کر پاتا۔ مزدوروں کے ٹھیکیدار کے ایل پٹیل نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ گاؤں میں ایک قبرستان بنا رہے ہیں، جس کے لیے گاؤں کے بیرون ملک مقیم افراد نے رقم دی ہے۔

پٹیل کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے ایک مندر بھی تعمیر کیا جا رہا ہے۔

امریکہ تک کیسے پہنچے؟

جب بی بی سی نے ڈنگوچا گاؤں کی پنچایت کے نمائندے سے پوچھا کہ ’وہ امریکہ کیسے پہنچے‘ تو انھوں نے کہا کہ یہاں کا ہر بچہ بیرون ملک جانے کا خواب لے کر پیدا ہوتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’یہاں ہر کوئی ایجنٹ کو دینے کے لیے پیسے جمع کرتا ہے تاکہ وہ امریکہ جا سکے۔ یہاں سے پہلے بہت سے لوگ مناسب دستاویزات کے بغیر امریکہ گئے تھے اور ان میں سے زیادہ تر لوگ اچھے کام کر رہے ہیں۔‘

امرت پٹیل 1988 میں امریکہ گئے تھے اور اب وہ وہاں کے شہری ہیں۔ انھیں دو سال کے اندر گرین کارڈ مل گیا تھا بعد میں انھوں نے اپنے گھر والوں کو وہاں بلا لیا تھا۔ ان کا خاندان بھی اب امریکی شہری ہے۔ پٹیل وہاں کھانے کا کاروبار چلا رہے ہیں۔ اب وہ ریٹائر ہو چکے ہیں اور کم از کم پانچ ماہ سے اپنے گاؤں میں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہاں سے جو بھی امریکہ جاتا ہے اسے ابتدائی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم وہاں اس کی مدد کرتے ہیں۔

جیئش چوہدری
تحصیلدار جیش چودھری

امرت پٹیل کا کہنا ہے کہ ’یہاں سے امریکہ جانے کے بعد شروع میں لوگ مختلف دکانوں میں کام کرتے ہیں اور غیر ہنر مند مزدور کے طور پر بھی کام کرتے ہیں لیکن بعد میں تربیت لینا شروع کر دیتے ہیں۔ ہر کوئی غیر قانونی طور پر امریکہ نہیں جاتا۔ ایسے لوگوں کی بھی بڑی تعداد ہے جو درست دستاویزات لے کر گئے ہیں۔‘

پٹیل خاندان کے بارے میں معلومات ؟

اس واقعے کے بعد گاؤں کے لوگ لاپتہ خاندان کے بارے میں حکومت ہند کی جانب سے سرکاری تصدیق کا انتظار کر رہے ہیں۔ جگدیش پٹیل کے والدین اپنا گاؤں چھوڑ کر احمد آباد میں رشتہ داروں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

ڈنگوچا گاؤں کے تحصیلدار جیش چودھری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بین الاقوامی میڈیا میں چار لاشوں کے بارے میں رپورٹس شائع ہوئی ہیں۔ جس میں بتایا جا رہا ہے کہ چار افراد کینیڈا گئے تھے اور گزشتہ کچھ دنوں سے لاپتہ ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *