اترپردیش سب سے بڑی ریاست کی انتخابی ریلیوں میں

اترپردیش سب سے بڑی ریاست کی انتخابی ریلیوں میں

اترپردیش سب سے بڑی ریاست کی انتخابی ریلیوں میں پاکستان، جناح اور طالبان کا ذکر حاوی

انڈین ریاست اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں انتخابی تقاریر اور مباحثوں میں پاکستان، جناح اور طالبان لفظ بہت زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے انڈیا کی سب سے بڑی ریاست میں ملک کے مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔

اترپردیش کا پاکستان سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور نہ ہی اتر پردیش کی سرحد پاکستان سے ملتی ہے۔ لیکن پاکستان اور جناح اترپردیش کے انتخابی ماحول پر حاوی ہیں۔

حالیہ دنوں میں سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے سب سے پہلے اپنے بیان میں بانی پاکستان محمد علی جناح کا ذکر کیا اُس کے بعد جناح سیاسی اور انتخابی تقریروں اور مباحثوں کا مرکز بن گئے ہیں۔

ساتھ ہی ایک انٹرویو کے دوران اکھلیش یادو نے کہا کہ ‘ہمارا سب سے بڑا دشمن پاکستان نہیں، بی جے پی ہے.’ ان کا یہ بیان میڈیا پر چھا گیا۔

اکھلیش یادو کے اس بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے کہا کہ ‘جو جناح سے کرے پیار، وہ پاکستان سے کیسے کرے انکار’۔

اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی اکھلیش یادو کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘جو لوگ پاکستان کو دشمن نہیں سمجھتے، وہ جناح کو دوست سمجھتے ہیں’۔

یہی نہیں، بدھ کے روز اتر پردیش میں جاٹ برادری کے ایک سیاسی پروگرام میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ‘ آپ سے ہمارا رشتہ تو 650 سال پرانا ہے، آپ نے بھی مغلوں سے جنگ کی، ہم بھی لڑ رہے ہیں’۔

مظفر نگر سے بی جے پی کے ایم ایل اے اور امیدوار وکرم سنگھ سینی نے حال ہی میں ایک گاؤں میں ایک انتخابی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ‘پاکستان میں ہمت ہے کیا، پاکستان کی کیا ہمت ہے، جا کر پاکستان کو ٹھوکو، اگر تم پاکستان کو اس طرح ٹھوکنا چاہتے ہو اور جو غدار یہاں کی روٹی کھا رہے ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی پٹائی ہو، تو کنول کے پھول کا بٹن دباؤ‘۔

تاہم اقلیتوں کے خلاف دیے گئے اس بیان کے بعد گاؤں والوں نے وکرم سنگھ سینی کو گاؤں سے بھگا دیا اور بھیڑ میں گھیرے ہوئے وکرم سنگھ کو معافی مانگ کر بھاگنا پڑا۔

نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ محمد علی جناح
نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ محمد علی جناح

پاکستان، جناح اور مسلم پر بحث ہو رہی ہے

پاکستان، جناح، طالبان اور مغل جیسے الفاظ صرف سیاسی بیان بازی تک محدود نہیں ہیں بلکہ ٹی وی چینلز پر ہونے والے مباحثوں میں بھی یہ الفاظ خوب استعمال ہو رہے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا ایسی صورت حال میں حقیقی مسائل کو پیچھے چھوڑا جا سکتا ہے۔

سماج وادی پارٹی کے ترجمان عبدالحفیظ گاندھی کا کہنا ہے کہ ‘بی جے پی ترقی کے موضوع پر سیاست کرنے میں ناکام رہی ہے، وہ ریاست میں ترقی کا کوئی کام نہیں کر پائی، اسی لیے وہ تفریق پر مبنی سیاست کر رہی ہے’۔

بھارتیہ جنتا پارٹی ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ پارٹی کے ترجمان راکیش ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ تقاریر میں پاکستان کا نام اور جناح کی بات اکھلیش یادو نے کی ہے۔

وہ کہتے ہیں ‘سردار پٹیل کے یوم پیدائش کے دن پورا ملک ‘راشٹریہ ایکتا دیوس’ یعنی یومِ اتحاد منا رہا تھا اور اکھلیش یادو بغیر کسی سیاق و سباق کے جناح کی تعریف کر رہے تھے۔ اکھلیش پاکستان کا نام لے رہے ہیں، اکھلیش جناح کا نام لے رہے ہیں، ان کی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ شفیق الرحمان طالبان کو مجاہدینِ آزادی قرار دے رہے ہیں اور بی جے پی پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ ہم الیکشن میں پاکستان اور جناح کو لا رہے ہیں، ہم صرف ان کے بیانات پر ردعمل دے رہے ہیں’۔

وہ مزید کہتے ہیں ‘یہ صاف ہے کہ الیکشن میں پاکستان، طالبان اور جناح کا نام لیکر کون فائدہ اٹھانا چاہتا ہے’۔

اس کا جواب دیتے ہوئے سماج وادی پارٹی کے ترجمان عبدالحفیظ گاندھی کا کہنا ہے ‘جہاں تک سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کے بیان کا تعلق ہے، انہوں نے ڈاکٹر لوہیا کی شخصیت پر بات کی تھی، ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جا رہا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘انٹرویو میں ان سے چین کی سرمایہ کاری کے بارے میں بھی سوال پوچھا گیا تھا۔ سابق چیف آف ڈیفینس بپن راوت نے بھی کہا تھا کہ انڈیا کو سب سے بڑا خطرہ شمالی سرحد یعنی چین سے ہے۔ انہوں نے چین کو بڑا خطرہ بتایا تھا۔ اکھلیش یادو نے بھی ایسا ہی کہا تھا۔ بی جے پی اسے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کر رہی ہے‘۔

دوسری جانب اتر پردیش میں کانگریس کے اقلیتی امور کے صدر شاہنواز عالم کا کہنا ہے کہ صرف بی جے پی ہی انتخابات میں پاکستان اور جناح کو استعمال نہیں کر رہی۔

عالم کہتے ہیں ‘اگر تفریق ہوتی ہے تو اس کا فائدہ سماج وادی پارٹی کو بھی ہوگا۔ اگر صرف ایک پارٹی ایسا کرتی ہے تو تفریق نہیں ہوگی۔ اکھلیش نے جناح کا نام اسی دن لیا جس دن پرینکا گاندھی کی بڑی ریلی تھی۔ اکھلیش نے کہا کہ جناح ایک سیکولر اور اچھے انسان تھے۔اکھلیش نے جناح کو یاد کیا لیکن اپنی ہی پارٹی کے اعظم خان کو بھول گئے۔‘

امیت شاہ
بی جے پی صدر امیت شاہ نے جاٹو کو خطاب کرتے ہوئے مغلوں کا ذکر کیا

عالم کہتے ہیں’انتخابات کو عوام کے مسائل سے ہٹا کر پولرائز کرنے کی واضح کوشش نظر آ رہی ہے اور یہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی دونوں کر رہے ہیں۔ ایس پی اور بی جے پی اسے دو طرفہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ پولرائزیشن کی اس سیاست میں صرف بی جے پی ہی ملوث ہے۔

جس بیان پر ہوا تنازعہ

اکھلیش یادو نے ہردوئی شہر میں 31 اکتوبر کو سردار ولبھ بھائی پٹیل کی یوم پیدائش اور قومی اتحاد کے دن پر اپنے بیان میں جناح کا ذکر کیا تھا۔ یادو نے کہا تھا ‘سردار پٹیل، مہاتما گاندھی، بابائے قوم ہند، جواہر لعل نہرو اور جناح ایک ہی انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیرسٹر بنے۔ انہوں نے انڈیا کے لیے آزادی حاصل کی، وہ کسی بھی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ مردِ آہن سردار پٹیل نے آر ایس ایس کے نظریے پر پابندی لگا دی تھی’۔

اکھلیش یادو نے اپنے بیان میں جناح کا نام صرف ایک بار استعمال کیا تھا۔ لیکن اب یہ لفظ یوپی الیکشن میں لگاتار سنائی دے رہا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار سنیل یادو کا کہنا ہے کہ ‘اکھلیش یادو نے تحریک آزادی کی بات کرتے ہوئے اپنی تقریر میں جناح کا نام استعمال کیا تھا جس پر اب مسلسل بحث ہو رہی ہے۔ اس چھوٹی سی بات کو گھسیٹ کر بڑا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

مسلمان کیا سوچ رہے ہیں؟

ان بیانات پر زیادہ تر مسلم لیڈران خاموش ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے مسلم کمیونٹی کی جانب سے کوئی احتجاج یا ردعمل سامنے آیا ہے۔

سینئر صحافی وسیم اکرم تیاگی کا خیال ہے کہ مسلمان پولرائزیشن کی سیاست سے آگے بڑھ چکے ہیں۔

فائل فوٹو
سلم رہنما ایسے بیانات پر خاموش ہیں

وہ کہتے ہیں’ان انتخابات میں اتر پردیش کے مسلمان کسی بھی فرقہ وارانہ مسائل کو اہمیت نہیں دینے والے ہیں۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں ووٹوں کا پولرائزیشن اسی وقت ممکن ہے جب مسلمان اس پر ردعمل ظاہر کریں۔ موجودہ بیان بازی اکھلیش یادو کی جانب سے شروع ہوئی تھی ایسی صورت حال میں مسلمانوں پر یہ زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اس طوفان کو خاموشی سے گزرنے دیں’۔

لیکن جب دن رات مذہبی مسائل پر بحث ہوتی ہے تو کیا اس کا براہ راست اثر عوام پر نہیں پڑے گا؟

اس سوال پر سنیل یادو کہتے ہیں’ایسا لگتا ہے کہ لوگ اس الیکشن میں مذہب سے زیادہ ایشوز سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ذات پات کا اتحاد بھی مضبوط ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پچھلے الیکشن میں بی جے پی نے ذاتوں کے اتحاد سے الیکشن جیتا تھا۔ اسوقت اکھلیش یادو اسے اپنے حق میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کہیں نہ کہیں حکمراں پارٹی کو یہ محسوس ہو رہا ہو گا کہ اگر ہم ذات پات کی مساوات یا مسائل میں پیچھے رہ گئے تو اس کی کمی مذہبی پولرائزیشن سے پوری ہو سکتی ہے’۔

دوسری جانب کانگریس سے وابستہ شاہنواز عالم کا کہنا ہے کہ ‘سیاسی جماعتیں ایسا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، سماج کا ایک طبقہ بھی اس سے متاثر ہوتا ہے، میڈیا بھی انہیں زیادہ جگہ دیتا ہے، اس طرح کے بیانات سے ذہن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے،لیکن ہمیں لگتا ہے کہ زیادہ تر لوگ مسائل کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں’۔

کیا عوام کے اہم موضوع پیچھے رہ گئے ہیں؟

کورونا کی وبا، معاشی بحران، بے روزگاری، کسانوں کی تحریک – یہ کچھ ایسے مسائل ہیں جن پر بات ہوئی ہے۔ تو کیا پولرائزیشن کی سیاست نے عوام کے اصل مسائل کو دبا دیا ہے؟

سماج وادی پارٹی کے ترجمان حفیظ گاندھی کا کہنا ہے’بی جے پی بجلی کی بڑھتی ہوئی شرحوں کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی، نہ ہی وہ بے روزگاری کی خوفناک حالت اور سڑکوں کی خستہ حالی کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہے۔ وہ خواتین پر ہونے والے ظلم پر بھی بات نہیں کرنا چاہتی۔ بی جے پی کے پاس کوئی موضوع ہی نہیں ہے، اسی لیے وہ مذہبی پولرائزیشن کر رہی ہے’۔

ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے بی جے پی کے ترجمان راکیش ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ ‘اگر اکھلیش یادو جناح کا نام لیتے ہیں تو کیا ہم خاموش رہیں گے، ہم انہیں جواب دیں گے، وہ طالبان کا موازنہ انڈیا کے مجاہدینِ آزادی سے کریں گے اور ہم کوئی ردعمل بھی نہیں کریں گے’۔

ترپاٹھی مزید کہتے ہیں، ‘سماجوادی پارٹی کے لوگ جان بوجھ کر پاکستان اور جناح کا تذکرہ کرتے ہیں تاکہ ترقی سے متعلق مسائل کو توجہ ہٹائی جا سکے۔ بی جے پی نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ سماج وادی پارٹی نے اپنے دور حکومت میں قبرستانوں کی چاردیواری بنائی لیکن شمشان کے لیے کچھ نہیں کیا اب کیا ہمیں یہ بھی نہیں کہنا چاہیے؟’

ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ بی جے پی کا موضوع ترقی ہے، پولرائزیشن نہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ہم چیلنج کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن پارٹی ہمارے ساتھ بجلی کے مسئلہ پر، سڑکوں، صحت، تعلیم کے مسئلہ پر بحث کرے، ہم ہر بنیادی مسئلے پر بحث کرنا چاہتے ہیں لیکن سماج وادی پارٹی کا پول کھل گئی ہے کیونکہ ہم واضح فرق دکھا سکتے ہیں’۔

بی جے پی کے دور حکومت میں اقلیتوں کو نظر انداز کیے جانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ترپاٹھی کہتے ہیں،’ہم اعداد و شمار سے ثابت کر سکتے ہیں کہ اقلیتوں کے ساتھ کوئی امتیازی رویہ اختیار نہیں کیا گیا۔ ہمارے دور میں پرائم منسٹر ہاؤسز سکیم کے تحت 43 لاکھ گھر دیے گئے۔ ان میں سے 27 فیصد مسلمان ہیں۔یہ ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہیں۔ ہم نے اسکیموں کا فائدہ دینے میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ حصہ دیا ہے’۔

لیکن ماہرین بتاتے ہیں کہ یوپی کے مسلمانوں نے بی جے پی کی طرف جھکاؤ نہیں دکھایا ہے۔ بی جے پی اتحاد نے بھی اب تک صرف ایک مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے۔ وسیم اکرم تیاگی کا خیال ہے کہ اس ماحول نے مسلمانوں کو سماج وادی پارٹی کی طرف دھکیل دیا ہے۔

تیاگی کہتے ہیں،’ اکھلیش یادو انتخابات میں غلطیاں نہیں کر رہے ہیں، بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے بہت بڑی غلطیاں ہو رہی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *