کیا ڈالر کی قدر کم ہونے سے گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی کمی آئے گی؟
حال ہی میں پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے بعد لوگوں کا ایک ہی سوال تھا کہ کیا اب ہم کبھی نئی گاڑی خرید پائیں گے؟
شفق آفتاب بطور فری لانسر کام کرتی ہیں اور کئی سالوں سے کوشش کر رہی ہیں کہ وہ اپنی ذاتی گاڑی خرید سکیں جس میں ابھی تک وہ کامیاب نہین ہو پائی ہیں۔ ان کے مطابق وہ ہر ماہ گاڑی کے لیے اپنی کمائی کا کچھ حصہ بچا کر رکھتی ہیں لیکن پھر بھی وہ اتنے پیسے نہیں جمع کر پاتیں کہ گاڑی خرید سکیں۔
’جب میں نے گاڑی خریدنے کا سوچا تھا تو اس وقت گاڑی کی قیمت دس لاکھ تھی۔ تاہم جتنے وقت میں نے وہ رقم جمع کی تو وہ قیمت بڑھ گئی۔‘
شفق آفتاب کہتی ہیں ‘پھر میں اپنا گول سیٹ کیا کہ میں گاڑی کے لیے 15 لاکھ جمع کروں گی۔ لیکن جب میں نے وہ جمع کیے وہی گاڑی مزید مہنگی ہو کر بیس لاکھ پر پہنچ گئی ہے۔ یہ خواب کب پورا ہوگا یہ تو نہیں جانتی لیکن ابھی بھی پیسے جمع کر رہی ہوں تاکہ گاڑی خرید سکوں۔‘
اسی طرح بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بہت سے عام شہریوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اب مڈل کلاس تو کیا امیر آدمی کے لیے بھی گاڑی خریدنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور نئی گاڑی تو کیا اب تو سیکنڈ ہینڈ گاڑی خریدنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔
اس بارے میں لاہور کی رہائشی عالیہ کا کہنا ہے کہ میں مڈل کلاس فیملی سے ہوں اور میرے تین بچے ہیں۔ ‘میں نے تو کبھی یہ بھی نہیں سوچا کہ میں نئی گاڑی لوں گی۔ میں تو سیکنڈ ہینڈ گاڑی لینا چاہتی تھی۔ لیکن اب تو کوئی اپنی گاڑی بیچنے کو تیار نہیں ہے اور اگر کوئی بیچ بھی رہا ہے تو اتنی زیادہ قیمتیں ہیں جو ہماری پہنچ سے دور ہیں۔‘
عالیہ کہتی ہیں کہ ‘ہم اب بچوں کو پالیں ان کے سکول کی فیس دیں یا پھر گاڑی خریدنے کے لیے پیسے جمع کریں۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے تو دن بدن زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔‘
شفق یا عالیہ وہ اکیلی خواتین نہیں جو اپنے لیے گاڑی خریدنا چاہتی ہیں۔ ان جیسی لاکھوں خواتین ہیں جو اپنی ذاتی سواری خریدنے کے حق میں ہیں اور اس کے لیے کوشش بھی کر رہی ہیں۔ یہاں کچھ لوگ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ اتنی رقم لگا کر گاڑی خریدنے سے بہتر یہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کر لیں۔
لیکن شفق اور عالیہ سمیت زیادہ تر خواتین پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے کو اپنے لیے محفوظ نہیں سمجھتی ہیں۔ اور نہ ہی پاکستان میں یہ نظام کوئی خاص اچھا ہے۔ اسی لیے ان کے خیال میں اپنی ذاتی گاڑی ہونا ضروری ہے۔
گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجوہات کیا ہیں؟
زیادہ تر صارفین کو گاڑی بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں یہ وضاحت یہ دی گئی ہے کہ کہ ڈالر مہنگا ہونے کے باعث قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں کوئی بھی ایسی کمپنی موجود نہیں جو سو فیصد گاڑی پاکستان میں تیار کرتی ہو۔
زیادہ تر کمپنیاں دیگر ممالک سے گاڑیوں کے پارٹس برآمد کرتے ہیں۔ کمپنیوں کے مطابق پارٹس کا بڑا حصہ بیرون ملک سے منگوایا جاتا ہے اور عدم دستیابی کی وجہ سے پیداواری سرگرمی متاثر ہو رہی ہے اور گاڑیوں کی تیاری ممکن نہیں جس کی وجہ سے صارفین کو گاڑیوں کی ڈیلیوری میں تاخیر ہو گی۔
انھی حالات کے پیش نظر بیشتر کمپنوں نے نئی گاڑیوں کی بکنگ لینی بھی بند کر دی ہے۔
حسنین کھوکھر نے چھ ماہ پہلے نئی گاڑی بک کروائی تھی۔ ‘میں نے جب گاڑی بک کروائی تھی تب ڈالر ایک سو نوے کے لگ بگ تھا۔اور مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ مجھے تین ماہ بعد ڈیلیور کر دیں گے لیکن اس بات کو چھ ماہ گزر چکے ہیں اور مجھے ابھی تک گاڑی نہیں ملی ہے۔ بلکہ الٹا مجھے کمپنی نے کہا کہ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے نو لاکھ روپے مزید دینے ہوں گے۔ میں وہ نو لاکھ اس وقت دیے تھے جب ڈالر دو سو چھتیس روپے کا تھا۔ اب ڈالر کی قیمت میں کمی ہوئی ہے تو کیا اب وہ میری پیسے واپس کریں گے؟میں تو ان کے خلاف درخواست دوں گا کہ میرے پیسے واپس کریں۔‘
کیا ڈالر کم ہونے سے گاڑی کی قمیت بھی کم ہو گی؟
اس سوال کے جواب میں آٹو انڈسٹری کے ماہر اور پاک ویلز کے مالک سنیل سرفراز منج کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں میں ہاتھ صرف کمپنیوں کا ہی نہیں ہے بلکہ یہاں ڈیلرز کا کردار بھی اہم ہے جو کئی لاکھ روپے منافع لیتے ہیں۔
‘اس میں خریدار بھی برابر کے قصور وار ہیں جو زیادہ پیسے دے کر گاڑی خریدتے ہیں۔ حالانکہ حکومت نے ٹیکس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اگر آپ دیکھیں تو ان کا منافع ٹیکس سے زیادہ ہے۔‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈالر مہنگا ہونے سے کاروں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اب ڈالر کی قیمت میں کمی کے بعد اصولی طورپر گاڑیوں کی قیمت میں کمی آنی چاہیے۔
آٹو انڈسٹری کے ماہر سنیل سرفراز کا صارفین کو مشورہ ہے۔ ‘ابھی تھوڑا رک جائیں اور انتظار کریں کہ قیمتیں کم ہوں تو اس وقت گاڑی کی خریداری کریں۔