کیا ٹرمپ کے خلاف تحقیقات انھیں 2024 کی

کیا ٹرمپ کے خلاف تحقیقات انھیں 2024 کی

کیا ٹرمپ کے خلاف تحقیقات انھیں 2024 کی صدارتی دوڑ میں حصہ لینے سے روک سکتی ہے؟

رواں ہفتے پیر کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ریاست فلوریڈا میں واقع گھر پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) کے ڈرامائی چھاپے سے ان کے خلاف جاری تحقیقات میں اچانک تیزی آگئی ہے، جس نے دوسرے قانونی سوالوں سمیت اس سوال کو بھی جنم دیا ہے کہ کیا – نظریے کی حد تک سہی – یہ تحقیقات امریکی صدارتی عمل کو بدل سکتی ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ان کے خلاف جاری انکوائری میں، جس میں مبینہ طور پر ٹرمپ کے خفیہ صدارتی دستاویزات کو حفاظت سے نہ رکھنے کی تحقیقات ہو رہی ہیں، انھیں مجرم ٹھہرایا جاتا ہے تو بعض ماہرین کے خیال میں وہ قانونی طور پر صدارتی انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے کے لیے اہل نہیں رہیں گے۔

اس معاملے پر ذرا گہری نظر ڈالتے ہیں۔ ٹرمپ کے خلاف ایف بی آئی کی تحقیقات میں کتنی پیش رفت ہوئی ہے، اور کیا انھیں واقعی 2024 کے انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جا سکتا ہے؟

Mar-a-Lago
ٹرمپ مارالاگو کو اپنا ’وِنٹر وائٹ ہاؤس‘ یعنی سرمائی ایوان صدر کہتے تھے

امریکی محکمۂ انصاف کے سابق پروسیکیوٹر (وکیلِ استغاثہ) جوزف مورنو کا کہنا ہے کہ ایف بی آئی نے جس طریقے سے پام بیچ کے تفریحی مقام مارالاگو میں واقع ٹرمپ کی رہائش گاہ کی تلاشی لی ہے اس سے لگتا ہے کہ ان کے خلاف تحقیقات ممکنہ طور پر ان پر فرد جرم عائد ہونے کی طرف بڑھ رہی ہیں۔

مورنو کہتے ہیں کہ ’ایف بی آئی میں بعض اہلکار اور ایک پروسیکیوٹر کا خیال ہے کہ پریزیڈنشیل ریکارڈز ایکٹ (جو صدر کو تمام دستاویزات اور ای میلوں کو نیشنل آرکائیو منتقل کرنے کا پابند بناتا ہے) یا خفیہ دستاویزات سے متعلق دوسرے قوانین کی مجرمانہ خلاف ورزی ہوئی ہے، اور یہ ہی وجہ ہے کہ انھوں نے اگلا قدم اٹھایا۔‘

چھاپے کے بعد زیادہ تر تجزیے، اور 2024 کے صدارتی انتخابات سے متعلق بنیادی عنصر، میں زیادہ تر توجہ ٹائٹل آف دا یونائٹڈ سٹیٹس کوڈ کی دفعہ 2071 کے نام سے ایک کم معروف فوجداری قانون پر رہی ہے۔

یہ قانون کہتا ہے کہ جس شخص کی تحویل میں بھی سرکاری کاغذات ہوں اور وہ انھیں ’جان بوجھ کر چھپائے، لے جائے، خراب کرے، تلف کرے، تباہ کرے ۔۔۔ وہ کسی بھی سرکاری آفس میں فائل یا جمع کروایا ریکارڈ، اجلاس کی کارروائی، نقشہ، کتاب، کاغذ، دستاویز یا کوئی اور شے ہو‘ ایسے شخص کو جرمانے یا تین برس قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

اس میں اہم بات یہ ہے کہ جس شخص کو بھی اس قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا تو کسی بھی وفاقی عہدے کے لیے ’نااہل قرار پائے گا‘۔

یہ سبب ہے کہ بعض لوگوں کے خیال میں اگر سابق صدر ٹرمپ کو مجرم پایا گیا تو ایوان صدر میں واپس آنے سے متلعق ان کی مبینہ امیدوں پر پانی پھِر جائے گا۔

ٹرمپ سپورٹر
ٹرمپ سپورٹر منگل کو مارالاگو کے باہر جمع ہوئے

ایم ایس این بی سی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے صدارتی مورخ مائیکل بیسکلوس کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک حقیقی قانون ہے، اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ اس قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے۔۔۔جس کی سزا بھی حقیقی ہے، جس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ کسی وفاقی عہدے پر کبھی خدمات انجام نہیں دے سکیں گے۔‘

تاہم بعض دوسرے ماہرین اصرار کرتے ہیں کہ مذکورہ قانون کا اطلاق یا تو کیا نہیں جائے گا یا پھر عدالت میں اپیل کے مرحلے پر ختم ہو جائے گا، کیونکہ صدارتی امیدواری کے لیے عائد پابندیوں کا تعلق صرف شہریت، رہائش اور عمر سے ہے۔

مشیگن یونیورسٹی میں قانونِ آئین کے پروفیسر برائن کالٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ قانون کسی بھی آئینی رِویو کے لیے اطمینان بخش نہیں ہو گا۔‘

قانونی اور آئینی ماہرین نے بی بی سی کو یہ بھی بتایاکہ سزا یافتہ مجرموں کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے پر کسی طرح کی عام پابندی نہیں ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال جارج ڈبلیو بش کی ہے، جنھیں نشے کی حالت میں گاڑی چلانے پر سزا ہوئی تھی، اگرچہ معمولی جرم ہے مگر انھیں سزا بھگتنا پڑی تھی۔

عہدہ صدارت کے لیے اہلیت کا معیار امریکی آئین میں دیا گیا ہے۔ اہلیت کی یہ شرائط سادہ سی ہیں: امیدوار کم سے کم عمر 35 سال ہو اور کم سے کم 14 سال سے امریکہ میں رہ رہا ہو۔

تو یہاں پر اس وفاقی قانون میں جس کے تحت کوئی سزا یافتہ مجرم عہدۂ صدارت کا اہل نہیں، اور آئین کے درمیان ایک واضح تضاد سامنے آتا ہے۔

کالٹ کہتے ہیں، ’قانونِ دستور کا بنیادی اصول یہ ہے کہ دستور کو (دوسرے قوانین پر) فوقیت حاصل ہے، اور آئین کے منافی ہر قانون باطل ہے۔‘

بعض قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کانگریس کسی بھی امیدوار کا مواخذہ کرکے اسے سرکاری عہدے کے لیے نا اہل قرار دے سکتی ہے، مگر کسی عام قانون کے تحت مجرم قرار پانے والے شخص پر امریکی دستور کوئی قدغن نہیں لگاتا۔

ٹرمپ حامی پرچم
ٹرمپ حامی ایک پرچم پر انھیں ایکشن سٹار ریمبو کے رومپ میں پیش کیا گیا ہے

محکمۂ انصاف کے سابق پراسیکیوٹر مورنو کہتے ہیں کہ ’ان انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کا ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ اگر کانگریس ان پر (مواخذہ کر کے) پابندی لگا دے، مگر یہ تو بہت ہی غیر معمولی اقدام ہو گا۔‘

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس طرح ٹرمپ پر فرد جرم لگائی گئی اور انھیں دفعہ 2071 کے تحت مجرم قرار دیدیا گیا تو استغاثہ کنزویٹیو اثر و نفوذ کی حامل سپریم کورٹ سے اہلیت کے سوال پر غور کرنے کی استدعا کر سکتی ہے۔

البتہ پروفیسر کالٹ کہتے ہیں کہ سابق صدر پر سرکاری عہدے سے دور رکھنے کے لیے کسی پابندی کا امکان کم ہے۔

کالٹ کہتے ہیں: ’اگر ڈونلڈ ٹرمپ مجھ سے مشورہ کریں، تو میں ان سے کہوں گا کہ آپ اس کی بالکل فکر نہ کریں۔ آپ بالکل ٹھیک رہیں گے۔‘

اگرچہ ماہرینِ قانون کے خیال میں ٹرمپ کو انتخاب لڑنے روکنے کے لیے دفعہ 2071 کے تحت پابندی لگوانا بہت دور کی بات ہے، مگر ایسی کوئی بھی کوشش ان کے انتخابی امکانات اور ان کے بارے میں رائے عامہ پر ضرور اثر انداز ہو گی۔

اسی نکتے کا حوالہ دیتے ہوئے ڈیموکریٹک پارٹی کے سرکردہ انتخابی وکیل مارک ای ایلیئس نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا: ’مجھے اس قانونی دشواری کا ادارک ہے جو ایک صدر پر اس قانون کا اطلاق کرنے سے پیدا ہوگی۔ مگر میرے نزدیک یہ خیال کہ کسی امیدوار کو انتخابی مہم کے دوران مقدمے بازی کرنا پڑے امریکی سیاست میں کسی دھماکے سے کم نہیں ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *