انڈیا نے انڈین نژاد امریکی صحافی کو ائیرپورٹ پر اترتے ہی ملک بدر کردیا
انڈین نژاد امریکی صحافی کے انڈین پنجاب میں مقیم اہل خانہ نے الزام لگایا ہے کہ بدھ کی رات دہلی میں اترنے کے فوراً بعد انہیں ایئر پورٹ سے ہی ملک بدر کرکے نیویارک واپس بھیج دیا گیا۔
ان کی والدہ گرمیت کور نے بتایا کہ انگد سنگھ، جو امریکہ کے ایک ویب نیوز پورٹیل وائس نیوز کے لیے دستاویزی فلمیں تیار کرتے ہیں، انڈیا نجی مقصد کے لیے گئے تھے۔
مسٹر انگد سنگھ، جنہوں نے انڈیا کے کووڈ بحران اور گزشتہ برس کسانوں کے احتجاجی مظاہروں پر دستاویزی فلمیں بنائیں، انہیں واپس بھیجنے کی سرکاری سطح پر تاحال کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔
بھارتی حکومت نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
انگد سنگھ کی ماں گورمیت کور نے بی بی سی پنجابی جی کی ارشدیپ کور کو بتایا کہ ‘ان کے بیٹے نے دہلی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد اپنے پہنچنے کا ایک پیغام بھیجا۔’
گورمیت کور نے مزید کہا کہ ‘تقریباً 15 منٹ بعد، اس نے ایک اور پیغام بھیجا کہ امیگریشن حکام نے اس کا پاسپورٹ ضبط کر لیا ہے۔ پھر، اسے ملک بدر کر دیا گیا’۔
انگد سنگھ کے خاندان کا کہنا ہے کہ ان کا کام مختلف ممالک میں لوگوں کی نقل و حرکت پر مرکوز ہے اور وہ سری لنکا، ہانگ کانگ، میانمار، انڈیا اور پاکستان سمیت کئی ممالک میں مظاہروں پر دستاویزی فلمیں بنا چکے ہیں۔
انڈیا میں انگد سنگھ نے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے مظاہروں پر بھی خبریں دی تھیں اور دستاویزی فلمیں بنائی تھیں – جسے بعد میں حکومت نے منسوخ کر دیا تھا – اور شاہین باغ پر ایک دستاویزی فلم بنائی، جو دہلی میں ایک مشہور احتجاجی مقام ہے جو ملک کی متنازع شہریت کے قانون کی ترمیم کے خلاف وسیع پیمانے پر ہونے والے احتجاج کی علامت بن گیا تھا۔
اس کے علاوہ انڈین میں کووڈ-19 کے بعد پیدا ہونے والی تباہی کی دوسری لہر کی ان کی کوریج نے انہیں ایمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
انگد سنگھ کی ماں گورمیت کور نے اپنے فیس بک کے اکاؤنٹ پر لکھا کہ ‘یہ اس کی ایوارڈ یافتہ صحافت ہے جو انہیں (حکام) خوفزدہ کرتی ہے۔’
‘یہ وہ کہانیاں ہیں جو اس نے لکھیں اور وہ کہانیاں جو وہ کرنے کے قابل ہیں۔ یہ اپنی مادر وطن سے محبت ہے کہ وہ برداشت نہیں کر سکتے۔’
گورمیت سنگھ نے کہا کہ اس کے بیٹے کو کمر کا درد ہے اور اُسے 18 گھنٹے کی مسسل پرواز کے بعد آرام کرنے کی ضرورت تھی، لیکن اُسے فوراً ہی ایک اور لمبی پرواز پر امریکہ بھیج دیا گی۔’
انھوں نے کہا کہ انڈیا میں ایک سکھ کے لیے زندگی آسان نہیں ہے۔ اپنے امریکی شہری بیٹے کو انھوں نے پنجابی میں دعا دیتے ہوئے ‘چڑ دی کلا’ کہا جس کے معنی ہیں تیرے حوصلے بلند رہیں۔