سیلاب میں گِھری خواتین کے مسائل

سیلاب میں گِھری خواتین کے مسائل

سیلاب میں گِھری خواتین کے مسائل ’چاروں طرف کھلا علاقہ ہے، بے پردگی الگ مسئلہ ہے اور پانی میں بیٹھنا آسان نہیں ہے

آپ ہی بتاﺅ ہم کہاں جائیں؟‘ ظاہر ہے ہمارے پاس عائشہ کے اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔

’سرکار کے دیے ہوئے اس چھوٹے سے ٹینٹ میں دو دو خاندان رہتے ہیں۔ بس سمجھ لیں کہ سر چھپا نے کی جگہ ہے۔ بارش سے تھوڑا بہت بچاﺅ ہوجاتا ہے۔ مگر واش روم کے لیے کہاں جائیں۔‘

یہ لس بیلہ بلوچستان کے ایک چھوٹے سے گاﺅں محمودانی بھٹ کی عائشہ کی گفتگو تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’دور دور تک کھلا علاقہ ہے جس میں کئی فٹ گہرا پانی کھڑا ہے، حتی کہ کوئی گھنا درخت بھی موجود نہیں ہے جس کی آڑ میں بیٹھ جائیں۔ سرکار کوئی انتظام کیوں نہیں کرتی؟‘

یہ صرف عائشہ کا نہیں بلکہ ان لاکھوں خواتین کا سوال ہے جو سیلاب میں بے گھرہوکر کیمپوں میں یا کسی کھلے مقام پر جان بچا کر بیٹھی ہیں۔

سیلابی ریلا پورا گاؤں بہا لے گیا

اس سال پاکستان میں طویل مون سون سے ہونے والی کم وقت کی تیز بارشوں کے باعث پاکستان کے بیشتر علاقے سیلاب کی لپیٹ میں ہیں جن میں بلوچستان اور سندھ مکمل اور جنوبی پنجاب کے کچھ اضلاع شامل ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے 90 فیصد لوگ سیلاب سے مکمل یا جزوی طور پر متاثر ہیں۔ سڑکیں، پل اور مکانات سیلابی پانی میں بہہ چکے ہیں، ہزارکے قریب انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ لوگ بے گھر اور بے سروساماں اونچے مقامات اور کہیں کہیں انتظامیہ کے فراہم کردہ ٹینٹ میں بے یارومددگار بیٹھے ہیں۔

عائشہ لس بیلہ بلوچستان کے ایک چھوٹے سے گاﺅں محمودانی بھٹ کی رہائشی ہیں جو بارش اور سیلاب میں صفحہِ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس گاﺅں میں 30 کے قریب گھر تھے جنھیں سیلابی ریلا آناً فاناً بہا لے گیا۔ بڑی مشکل سے گاﺅں کے لوگوں نے اپنی جان بچائی اور ہم قریب ہی ایک اونچے مقام پر کھلے آسمان تلے آبیٹھے۔ دو دن تو اس عذاب میں گزرے کہ بارش مسلسل برس رہی تھی، بوندیں تھیں جو کسی گولی کی طرح بدن کو چھیدرہی تھیں۔ آسمان پر کڑکتی بجلی اور گرجتے بادل دل دھلارہے تھے۔ شدید ٹھنڈ لگ رہی تھی۔ پلاسٹک کی شیٹوں اور بڑی شاپرز سے لوگ خود کواور بچوں کو ڈھانپے بیٹھے تھے۔ دو دن بعد انتظامیہ نے ٹینٹ فراہم کردیے تھے۔

سیلاب

خواتین کے لیے بیت الخلا ایک بڑا مسئلہ

اب یہ خانماں برباد لوگ ایک نسبتاً اونچی جگہ پر حکومت کے فراہم کردہ ٹینٹ میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ایک ٹینٹ میں دو خاندان موجود ہیں۔

خوراک اور پانی کی حد تک حکومت اور رضاکاروں کی مدد سے یہ لوگ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے بیٹھے ہیں۔ دن میں ایک بار ہی سہی مگر کھانا اور پینے کو پانی مل ہی جاتا ہے، لیکن خوراک اور پانی کے علاوہ بھی کچھ اور ضروریات زندگی ہیں جن کے بغیر زندگی گزارنا ناممکن سا ہوتا ہے اور جن پر کوئی بات نہیں کرتا، وہ خواتین کے رفع حاجت اور سینیٹیشن کے مسائل ہیں۔ دور دور تک کھلا علاقہ اور چاروں جانب پانی بھی کھڑا ہے تو یہ خواتین جائیں تو جائیں کہاں؟

اس حوالے سے سندھ اور بلوچستان دونوں صوبوں میں خواتین کے مسائل ایک جیسے ہی ہیں۔

سندھ کی صورت حال بتاتے ھوے ایک رضاکار رشید جمالی نے بتایا کہ سندھ میں جوہی کی تین ، میہڑ کی ایک اور خیرپور ناتھن شاہ کی دویونین کونسل کے تقریبا 15,000 کے قریب سیلاب زدگان منچھر جھیل کے قریب زیرو پوائنٹ( ایف سی بند) پر موجود ہیں۔ یہ نسبتاً اونچا علاقہ ہے لیکن اس کے چاروں جانب سیلاب کے پانی میں گھرے ہوئے گاﺅں موجودہیں جن کے لٹے پٹے غریب لوگ اس بند پر موجود ہیں۔

سیلاب

یہاں موجود گوٹھ خان محمد ملاح کی عظیماں نے ہم سے رشید جمالی کے فون پر بڑی مشکل سے بات کی کیونکہ کسی مرد کے قریب ہوتے ہوئے اس موضوع پر گفتگو کسی خاتون کے لیے یقینا مشکل تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ’بڑی مشکل میں ہیں۔ کہاں جائیں ،چاروں طرف کھلا علاقہ اور پانی ہے۔ بے پردگی کا الگ مسئلہ ہے اور پانی میں بیٹھنا آسان نہیں ہے۔ ھم کچھ عورتیں مل کر دور جاکر ایک چارپائی کھڑی کرلیتے ہیں، اس کی آڑ میں بیٹھ جاتے ہیں۔ کچھ عورتیں ارد گرد کھڑی ہوجاتی ہیں تو چاروں طرف سے پردہ ہوجاتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’مگر پانی تو ہے نا، ڈرلگتا ہے کوئی سانپ بچھو ، کوئی کیڑانہ کاٹ لے۔ طہارت کے حوالے سے عظیماں نے بتایا کہ اسی گندے پانی سے خود کو صاف کرتے ہیں۔ نہانے اور طہارت کے لیے صاف پانی کہاں سے آئے۔‘

خیرپور ناتھن شاہ کی ایک یونین کونسل کی میٹرک کی طالبہ سرس بانو کا سوال ہے کہ عوام حکومت کی ذمے داری ہوتے ہیں تو کہاں ہے حکومت؟

’ووٹ لینے تو آجاتے ہیں اس مصبیت کی گھڑی میں بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہوں نا‘۔

بیت الخلا کے حوالے سے بانو کہتی ہیں’ ہمارے پاس ویسے ہی کھانا اور پانی نہیں ہے ، لوگ جو دے جاتے ہیں، ہم بس چند لقمے کھاتے ہیں وہ بھی جب بھوک برداشت نہیں ہوتی اور پورے دن میں دو گھونٹ پانی پیتے ہیں تاکہ اس سیلابی پانی میں رفع حاجت کی آزمائش سے نہ گزرنا پڑے۔ چاروں جانب گندا پانی کھڑا ہے، ہر گھر میں خصوصاً عورتیں اور بچے بیمار ہیں۔ ہمیں کیمپوں میں پھینک کر حکومت بھول گئی ہے۔‘

مہتاب سندھوجو ایک مقامی این جی اوزندگی ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن سے وابستہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت ہارڈ بورڈ کے عارضی لیٹرین بنا کر دے سکتی ہے، ان میں گہرا گڑھا کھودا جاتا ہے اور تمام گندگی گڑھے میں چلی جاتی ہے۔ اب اس طرح پانی میں یا کھلے مقامات پر رفع حاجت سے گندگی پھیل رہی ہے، لوگ بیمار ہورہے ہیں، ہر گھر یا کیمپ میں پیٹ کی بیماریوں کے مریض موجود ہیں۔ ڈر ہے کہ کوئی وبا نہ پھوٹ پڑے۔ ‘

انھوں نے مزید کہا کہ سیلابی پانی علاقے میں کئی ہفتوں سے کھڑے رہنے کے باعث مچھر، مکھیاں اور دوسرے جراثیم پھیل رہے ہیں۔جس سے بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

ضلع دادو کے ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر امجد حسین مستوئی کا کہنا ہے ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اس آفت میں خواتین زیادہ متاثر ہیں۔ جو لوگ سکول وغیرہ میں ٹھہرے ہوئے ہیں ان کو تو واش روم کی سہولت میسر ہے مگر جو کیمپوں یا ایف سی بند اور شیال بند پر بیٹھے ہیں ان کا حال برا ہے۔ دور دور تک ایسی کوئی سہولت نہیں ہے کہ یہ خواتین پردہ کرتے ہوئے اپنی ضرورت پوری کرلیں۔ حکومت نے کوشش کی تھی کہ چھوٹے چھوٹے عارضی واش روم مہیا کردیں مگر ممکن نہ ہوسکا۔‘

سیلاب

گندگی اور بیماریوں کے خدشات، ’خواتین نے کھانا پینا چھوڑ دیا‘

خواتین کے حوالے سے کام کرنے والی ایک رضاکار حمیداں نے بتایا کہ اگر کہیں لوگوں کو سکول وغیرہ میں ٹھہرایا گیا ہے تو وہاں کے واش روم بھی اتنے غلیظ ہوتے ہیں کہ خواتین جانے کے بجائے برداشت کرکے بیٹھی رہتی ہیں۔

رفع حاجت روکنے سے جو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں، ان کے حوالے سے ڈاکٹر امجد کہتے ہیں کہ ’خواتین بیمار ضرور ہیں مگران کی توجہ اپنی بیماری پر نہیں ہے، وہ ہم سے اپنی بیماری ڈسکس نہیں کرتی ہیں بلکہ کہتی ہیں کہ ہمیں دوا نہیں ،کھانا دو۔ راشن، خوراک اور پانی کی بہت کمی ہے۔‘

صحت کے سرکاری شعبے سے وابستہ ایک لیڈی ڈاکر سمعیہ( فرضی نام) کا کہنا ہے کہ انھیں ایک این جی او کے ساتھ کچھ کیمپوں میں جانے کاموقع ملا۔ واش روم نہ ہونے کے باعث خواتین نے کھانا پینا چھوڑ رکھا ہے۔

’یہ سب غریب خواتین پہلے ہی کم خوراکی کا شکار ہیں اس طرح مزید کم زور ہورہی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈر ہے کہ یہ گردوں کے مختلف امراض اور قبض میں مبتلا ہوسکتی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بہت سی خواتین کی علامات یہ بتارہی ہیں کہ وہ پیشاب کی نالی کی انفیکشن میں مبتلا ہوسکتی ہیں، انھیں باقاعدہ ٹیسٹ اور علاج کی ضرورت ہے۔ وہ یہ بیماریاں کسی مرد ڈاکٹر کو نہیں بتا سکتیں، حکومت کو چاہیے کہ ریلیف کے کاموں میں لیڈی ڈاکٹرز کو زیادہ سے زیادہ شامل کریں۔‘

سیلاب

گھروں میں موجود خواتین کے مسائل

خواتین کے لیے واش روم کی عدم سہولت صرف کیمپوں میں پناہ لینے والی خواتین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ان خواتین کا بھی مسئلہ ہے جو سیلاب سے کم متاثرہ ہیں یا جن کے گھر جزوی طور پر متاثر ہوئے ہوں۔

اس حوالے سے لس بیلہ کے ایک رضاکار خلیل رونجھو کا کہنا ہے کہ اس برسات میں جن لوگوں کے گھر نسبتاً پکے تھے اور وہ نہیں گرے، تب بھی ان گھروں کا بیت الخلا یا واش روم منہدم ہوگیا کیونکہ عموما لوگ گھر تو پکی اینٹوں کے بنالیتے ہیں مگر واش روم کو اتنی اہمیت نہ دیتے ہوئے واش روم کو کچی اینٹوں سے تعمیر کو ترجیح دیتے ہیں۔ واش روم گرنے سے خواتین براہ راست متاثر ہوتی ہیں کیونکہ مرد تو گھر سے باہر دور دراز علاقوں تک چلے جاتے ہیں مگر خواتین کا اس سیلاب میں دور جانا بڑا مسئلہ ہے۔

ایک بین الاقوامی تنظیم واٹر ایڈ پاکستان (WaterAid Pakistan جو پاکستان میں صحت و صفائی کے حوالے سے کام کرتی ہے ، اس کے کنٹری ڈائریکٹر عارف جبار خان نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ سیلاب میں پانی کے ذخائر آلودہ اور واش روم کی سہولیات تباہ ہوجاتی ہیں۔

’واش روم کی عدم سہولت خصوصا خواتین کے لیے بے پردگی، بے توقیری اور عدم تحفظ کا سبب بنتی ہے۔ خواتین رفع حاجت کے لیے اندھیرا ہونے کا انتظار کرتی ہیں تاکہ بے پردگی نہ ہو لیکن اس اندھیرے میں وہ کسی سانپ وغیرہ کے کاٹنے کا اور خصوصا ہراسمنٹ کا شکار ہوسکتی ہیں۔‘

عارف جبار خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ہماری روایات اور ثقافت ( خصوصا پردہ) کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت، ڈونرز اور امدادی اداروں کی ترجیح متاثرہ علاقوں میں ایسے محفوظ واش روم کی فراہمی جن میں لائٹ کا باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’خواتین اور لڑکیوں کو واش روم یا لیٹرین ڈیزائن کرنے کے حوالے سے فیصلہ سازی میں بھی شامل کرنا چاہیے کیونکہ اپنی ضروریات کے حوالے سے وہ زیادہ بہتر بتاسکتی ہیں۔‘

لس بیلہ ڈویژن کی سب ڈویژن بیلہ کے اسسٹنٹ کمشنر حمزہ انجم کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین کے لیے ہم نے پورا ٹینٹ سٹی بنایا تھا جس میں 1037 خاندان پناہ لیے ہوئے تھے اور 3300 کو راشن مہیا کیا گیا۔ چار مقامات پر بند باندھ کر شہر کو بھی بچایا۔ اس ٹینٹ سٹی میں ہم نے 16 واش روم بھی بنائے تھے اور دو مووایبل تھے تاکہ خواتین دور لے جا کر استعمال کرلیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہماری ڈویژن میں 7ریونیو حلقے ہیں اور ہر حلقے میں 27 سے 55 گاﺅں ہیں ۔ ہمارے پاس مکمل ڈیٹا موجود ہے اگر کوئی ڈونر یا ادارہ سیلاب متاثرہ افراد کے لیے فوری یا بعد از سیلاب گاﺅں میں واش روم کی تعمیرکے حوالے سے کام کرنا چاہے تو ہم سہولت کاری کے لیے تیار ہیں۔

دور دور تک گہرا پانی، سر پر کھلا آسمان ، چند لقمے چاول اور دو گھونٹ پانی پیتی یہ سیلاب متاثرہ خواتین اپنی زندگی کے بدترین دور سے گزر رہی ہیں، ان کی آنکھوں میں ایک ہی سوال ہے کہ ان کی ضروریات کا خیال کون کرے گا۔۔۔ریاست ؟ جو سیاست کے گندے پانی سے ابھرنے کی کوشش کررہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *