نیٹو کو خفیہ فوجی معلومات اور میزائل

نیٹو کو خفیہ فوجی معلومات اور میزائل کمپنی کا ڈیٹا چوری کرنے والے ہیکرز کی تلاش

مغربی ممالک کے عسکری اتحاد نیٹو، اُن خفیہ فوجی معلومات اور ڈیٹا کی چوری کے اثرات کا جائزہ لے رہا ہے جو حال ہی میں ہیکرز کے ایک گروہ کی جانب سے آن لائن فروخت کیا جا رہا ہے۔

اس ڈیٹا میں ہتھیاروں کے بلوپرنٹ (تکنیکی ڈیزائن) شامل ہیں جو یوکرین کی جنگ میں نیٹو کے اتحادیوں نے بھیجے ہیں۔

ہیکرز نے یہ ڈیٹا ہتھیاروں کی ایک بڑی یورپی کمپنی سے چرایا اور وہ اب ان معلومات کو آن لائن فروخت کیا جا رہا ہے۔ ایم بی ڈی اے میزال سسٹمز نامی کمپنی نے تسلیم کیا ہے کہ ان کا ڈیٹا فروخت کیا جا رہا ہے تاہم اس نے دعویٰ کیا کہ کلاسیفائیڈ فائلز کمپنی کی ملکیت نہیں تھیں۔

فرانس میں قائم اس کمپنی نے کہا ایک ایکسٹرنل ہارڈ ڈرائیو ہیک کر کے معلومات چُرائی گئی ہیں اور وہ اٹلی میں حکام کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ ڈیٹا بریچ یعنی ڈیٹا کی چوری اٹلی سے ہوئی ہے۔

خیال ہے کہ حکام کی تحقیقات کا مرکز ایم بی ڈی اے کا ایک سپلائر ہے۔

ایک بیان میں ترجمان نیٹو نے کہا کہ ’ہم ایم بی ڈی اے میں مبینہ ڈیٹا کی چوری کے دعوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ایسی کوئی علامت نہیں کہ کسی نیٹو نیٹ ورک کو ہیک کر لیا گیا ہے۔‘

روسی اور انگلش فورمز میں سائبر کریمنل، چرائے گئے 80 جی بی ڈیٹا کو 15 بٹ کوائن یعنی 273000 پاؤنڈ میں بیچ رہے ہیں اور وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انھوں نے ایک نامعلوم خریدار کو اس کا کچھ حصہ بیچا ہے۔

چوری شدہ ڈیٹا کے اشتہار میں ہیکرز یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس ’ایسے کمپنی ملازمین کے بارے میں خفیہ معلومات ہیں جنھوں نے فوجی پراجیکٹس بنانے میں کردار ادا کیا تھا‘ اور اس کے علاوہ ان کے پاس ’ڈیزائن سے متعلق دستاویزات، ڈرائنگز، پریزینٹیشن، ویڈیو اور تصاویر، معاہدوں کی دستاویزات اور دیگر کمپنیوں کے درمیان خط و کتابت کے شواہد‘ بھی موجود ہیں۔

بی بی سی نے 50 ایم بی کا سیمپل ڈیٹا دیکھا ہے جس میں ایسے بھی دستاویزات ہیں جن پر ’نیٹو انتہائی خفیہ دستاویز‘، ’نیٹو کے لیے محدود‘ یا انکلاسیفائیڈ کنٹرولڈ انفارمیشن‘ لکھا ہے۔

ان سیمپلز کے علاوہ ان جرائم پیشہ افراد کی جانب سے ای میل کے ذریعے دو اضافی دستاویزات بھی شیئر کیے گئے، جن میں سے دو پر ’نیٹو سیکرٹ‘ لکھا ہے۔

نیٹو کی جانب سے دستاویزات کے لیول کچھ یوں ہیں:

  • کاسمک ٹاپ سیکرٹ: ان دستاویزات کو بلااجازت افشا کرنے سے نیٹو کو انتہائی سنگین نقصان پہنچا سکتا ہے۔
  • نیٹو سیکرٹ: ان دستاویزات کو بلااجازت افشا کرنے سے نیٹو کو شدید نقصان ہو سکتا ہے۔
  • نیٹو کانفیڈیشنل: ان دستیاویزات کو بلااجازت افشا کرنے سے نیٹو کے مفادات کو نقصان ہو سکتا ہے۔
  • نیٹو رسٹریکٹڈ: ان دستاویزات کو بلا اجازت افشا کرنے سے نیٹو کے مفادات کے لیے غیر مفید ہو سکتے ہیں۔
  • انکلاسیفائیڈ کنٹرولڈ انفارمیشن امریکہ میں ایک ایسا سکیورٹی لیبل ہے، جو دراصل حکومت کی جانب سے شائع کی گئی یا اس کی اپنی معلومات سے متعقل ہے اور اس کی حفاظت اور متعلقہ قوانین، قواعد و ضوابط اور حکومت پالیسیوں کی مدد سے اس کی اشاعت پر مسلسل نظر رکھی جاتی ہے۔
میزائل سسٹم

ہیکرز کی جانب سے اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی کہ یہ دستاویزات ایک سے زیادہ ذرائع سے حاصل کیے گئے ہیں یا نہیں۔

ان فائلز کی بی بی سی کی جانب سے آزادنہ تصدیق نہیں کی گئی تاہم ان پر امریکی ایئر سکواڈرن کے ایک ’مواصلاتی مشن‘ کی تفصیلات ہیں جو سنہ 2020 کے آخر میں بحیرہ بالٹک کے اوپر سے ایسٹونیا میں کیا تھا۔

ان دستاویزات میں آپریشن کے ایک انتہائی اہم کردار کی کالز کی تفصیلات، پورا نام، فون نمبر اور جی پی ایس کوارڈینیٹس،

نیٹو کے ایک سابق افسر کا کہنا تھا کہ ’نیٹو میں دستاویزات کو ضرورت سے زیادہ کلاسیفیکیشنز میں رکھا جاتا ہے لیکن یہ لیبل اہم ہیں۔ یہ لیبل انھیں ابتدا میں شائع کرنے والے شخص کی جانب سے لگائے جاتے ہیں اور ان پر ’نیٹو سیکرٹ‘ بغیر کسی وجہ کے نہیں لکھا جاتا۔

’یہ وہ معلومات ہیں جو نیٹو عام نہیں کرنا چاہتا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان دستاویزات کے ڈی کلاسیفائی ہونے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ یہ فائلز سنہ 2017 اور 2020 کے درمیان بنائی گئی تھیں۔

ان سیمپل فائلز میں ایک ایسی پریزینٹیشن بھی تھی جس میں لینڈ سیپٹر کیم (اینٹی ایئر موڈیولر میزائل) کے کام کرنے کے نظام کی تفصیلات اور اس میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اس میں موجود الیکٹرانک سٹورج یونٹ کس جگہ ہے۔

ان میں سے ایک کو پولینڈ بھیجا گیا تھا تاکہ یوکرین تنازع میں اسے سکائے سابرے سسٹم کے حصے کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔

ایم بی ڈی اے میزایل سسٹمز نے اس اس بات کی تردید نہیں کی کہ ان کی معلومات چرائی گئی ہیں لیکن ’کمپنی کے اندرونی تصدیق کرنے کے ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ آن لائن موجود ڈیٹا نہ ہی کلاسیفائیڈ ہے اور نہ ہی حساس۔‘

تاہم ان دستاویزات میں سے جنھیں ایم بی ڈی اے سے چرایا گیا ہے ان پر درج ہے کہ ان پر ’کمپنی کو مالکانہ حقوق حاصل ہیں جنھیں نہ دوبارہ شائع کیا جا سکتا ہے نہ ہی منکشف کی جا سکتا ہے۔‘

ایم بی ڈی اے میزائل سسٹمز نے دسمبر 2001 میں کام کا آغاز کیا تھا اور یہ فرانس، اٹلی اور برطانیہ میں میزائل کمپنیوں کے ضم ہونے کا نتیجے میں سرگرمِ عمل ہوئی تھی۔

اس کے 13 ہزار ملازمین ہیں اور یہ ایئربیس، بے اے ای سسٹمز اور لیونارڈو کا مشترکہ منصوبہ ہے۔

گذشتہ سال ایم بی ڈی اے کو تین اعشاریہ پانچ ارب پاؤنڈ کا منافع ہوا تھا اور برطانیہ کی وزارتِ دفاع، امریکی فوج، یورپی یونین اور نیٹو اس کے کسٹمرز میں سے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *