’غریب طبقے کا کوکنگ آئل سمگل شدہ ایرانی خوردنی تیل پاکستان کیسے پہنچتا اور فروخت ہوتا ہے؟
’یہ غریب طبقے کا کوکنگ آئل ہے۔ ایران اس کوکنگ آئل (خوردنی تیل) کو اپنے ملک سے سمگل ہونے سے روکتا رہا ہے لیکن یہ غیر قانونی راستوں کے ذریعے پاکستان پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت اس تیل کی بہت مانگ ہے کیونکہ پاکستان میں کوکنگ آئل کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں تو کافی لوگوں کو فائدہ مل جاتا ہے۔‘
یہ کہنا ہے گوادر کے رہائشی ناصر رحیم سہرابی کا جو خود بھی ایرانی سامان کا استعمال کرتے رہے ہیں اور اس کی خرید و فروخت پر نظر بھی رکھتے ہیں۔
گوادر کے ساحل پر اکثر اوقات ماہی گیروں کی ایک بڑی تعداد مچھلی پکڑنے کی غرض سے مصروف نظر آتی ہے۔ لیکن اس بار ان کشتیوں کے علاوہ یہاں پر کچھ ایسی کشتیاں بھی کھڑی تھیں جن میں پیلے رنگ کے ڈبے الگ سے نظر آ رہے تھے۔ اور انھیں اتارنے کی تگ و دو میں کئی لوگ مصروفِ عمل نظر آئے۔
اس کوکنگ آئل کے بارے میں مقامی مینیوفیکچررز بھی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ وضع کردہ معیار کے مطابق نہیں اور اس کا استعمال لوگوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم اس رپورٹ کے شائع ہونے تک حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ جواب موصول نہیں ہو سکا ہے۔
پوچھنے پر پتا چلا کہ یہ کوکنگ آئل یعنی کھانا پکانے کا تیل ہے جو ایرانی سرحد اور پاکستان سمندر کے راستے سے غیر قانونی طور پر لایا جا رہا ہے۔ اور پھر اسے سڑک کے ذریعے پاکستان کے دیگر شہروں خاص کر کے کراچی پہنچایا جاتا ہے۔ اس کی مقدار کے بارے میں ماہی گیر بتاتے ہیں کہ ایک کین میں 20 لیٹر کھانے کا تیل ہوتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہر روز دو ہزار لیٹر کوکنگ آئل گوادر سے بلوچستان کے شہروں اور کراچی کے لیے روانہ ہوتا ہے۔
ایرانی سرحد سے پاکستان میں اشیائے خورد و نوش آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مگر رواں برس ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں زبردست کمی کے باعث ملک میں خوردنی تیل یعنی کوکنگ آئل کی قیمت بڑھی ہے اور اسی وجہ سے سمگل شدہ کوکنگ آئل کی مانگ میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
اس کی ایک وجہ ملک میں دستیاب کوکنگ آئل کے مقابلے میں اس کی قیمت میں نمایاں کمی ہے۔
کراچی میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر ناصر خان کے مطابق ’کراچی میں اس وقت فی لیٹر کوکنگ آئل کی قیمت 300 روپے ہے جو دکانوں پر 350 سے 450 روپے فی لیٹر میں فروخت ہو رہا ہے۔ لیکن ایران سے گوادر کے راستے آنے والا کوکنگ آئل 191 روپے فی لیٹر ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے مارکیٹ میں اس کی بہت مانگ ہے۔‘
ایرانی کوکنگ آئل پاکستان پہنچتا کیسے ہے؟
ایف پی سی سی آئی کے ناصر خان اس بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ گذشتہ 40 برسوں سے جاری ہے جس کی شروعات ایران سے ہوتی ہے۔
’ایران اپنے لوگوں کو رعایتی ریٹ پر اشیائے خورد و نوش دیتا ہے۔ جہاں سے یہ ایران کے راستے پاکستان اور افغانستان پہنچ جاتی ہیں۔ ان اشیا کی غیر قانونی آمد کی سب سے بڑی وجہ عالمی منڈی میں قیمتوں کا بڑھنا ہے۔ اور جب تک قیمتوں میں اضافہ رہتا ہے یہ اشیا پاکستان آتی رہتی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ایرانی سرحد سے کشتیوں اور خشکی کے راستے یہ تیل پاکستان آتا ہے۔ جبکہ گوادر کے ہی ایک تاجر نے یہ دعویٰ کیا کہ ’ایران سے پاکستان لاتے وقت سرحد پر اس کوکنگ آئل کے ایک کین کی قیمت ایک ہزار روپے کے حساب سے وصول کی جاتی ہے، اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ سرحد سے اندر آنے پر مختلف چیک پوسٹوں پر ایف سی، فوج، کوسٹ گارڈ اور کسٹم والے موجود ہوتے ہیں۔ فی چیک پوسٹ ہزار روپے کے حساب سے معاملہ کہاں تک پہنچتا ہے۔‘
بلوچستان کے کیچ، پنجگور اور گوادر ڈسٹرکٹ کو اس وقت 75 فیصد بجلی بھی ایران سے ملتی ہے۔ لیکن 40 برس سے چلنے والے اس تمام سلسلے کو حکومت سرکاری سطح پر کیوں تسلیم نہیں کر رہی ہے؟
بلوچستان حکومت کے ترجمان کے مطابق اس وقت پاکستان ایران سرحد پر مختلف سطحوں پر تجارت کو سرکاری سطح پر ایک مارکیٹ کی شکل میں تسلیم کیا جا رہا ہے۔
اس کے بارے میں بلوچستان حکومت کے سیکریٹری انڈسٹریز اینڈ کامرس حافظ عبدالماجد کے مطابق ’اس وقت ہماری کوشش یہ ہے کہ واشُک، چاغی، نوشکی، پنجگور، تربت اور گوادر میں باڑ لگانے کی وجہ سے زندگی مشکل میں آئی ہے، انھیں کسی طرح سے ریلیف دیا جائے۔ رواں سال اپریل میں دونوں ممالک یعنی ایران اور پاکستان نے سرحد کے دونوں اطراف لوگوں کو ریلیف مہیا کرنے کے لیے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔‘
لیکن ان علاقوں میں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ جب تک سرحد پر باقاعدہ مارکیٹ کا قیام باضابطہ طور پر شروع نہیں ہو جاتا تب تک غیر قانونی راستوں سے سامان لوگوں تک پہنچانے کا سلسلہ چلتا رہے گا۔
ایرانی سرحد سے آنے والے کوکنگ آئل کو سمندر کے ذریعے گوادر تک پہنچانے والے ایک مقامی رہائشی نے بتایا کہ ’ہمارا ذریعہ معاش یہی ہے۔ یہاں مچھلی پکڑنے اور ایرانی سمندری حدود سے سامان لانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’سرحد پر مارکیٹ بنانے کی باتیں میں پچھلے 40 سال سے سُن رہا ہوں۔ اس مارکیٹ سے ہمیں جو سامان اب سستا ملتا ہے وہ ٹیکس کے ساتھ مہنگا ملے گا۔ اس میں میرے جیسے لوگوں کو کیا فائدہ ہو گا؟‘
ایران سے آنے والے کوکنگ آئل برانڈز میں سے ایک زمانے میں ’لادن‘ تیل اور ’گلناز‘ مشہور ہوتے تھے۔ گلناز اب بھی بازاروں میں باآسانی مل جاتا ہے جبکہ اس کوکنگ آئل کے ایک لیٹر سے لے کر تین لیٹر کے پیکٹ گوادر کی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
ناصر رحیم نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف اس کوکنگ آئل کو بیچنے سے گوادر اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے گھر چل جاتے ہیں۔ لیکن اس کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنے سے اس کاروبار کو مزید وسیع کیا جا سکتا ہے۔‘
ایرانی کوکنگ آئل کی مانگ کہاں ہے؟
اس وقت ایرانی کوکنگ آئل کی سب سے زیادہ مانگ کراچی میں ہے جہاں ناصر رحیم کے مطابق یہ دو طریقوں سے استعمال ہوتا ہے۔ ‘یعنی یہ کریانے کی دکانوں پر بھی جا رہا ہے اور بڑے پیمانے پر ہوٹلوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ بلوچستان کے شہروں سے ہوتا ہوا حب پہنچتا ہے جہاں سے اسے بسوں اور سوزوکی وین کے ذریعے کراچی بھیجا جاتا ہے۔‘
جبکہ کراچی میں پہنچتے ہی اس کوکنگ آئل کو مختلف دکانوں پر فروخت کیا جاتا ہے۔ ناصر رحیم نے بتایا کہ ‘اس سے پہلے اس کوکنگ آئل کو صرف کراچی کے علاقے لیاری اور غریب علاقوں میں موجود دکانوں میں بھیجا جاتا تھا۔ لیکن اس بار یہ فیکٹریوں میں بھی جا رہا ہے جہاں اسے پلاسٹک کے پیک میں سِیل کر کے کراچی کی صدر مارکیٹ میں کم قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔‘
حال ہی میں ملک میں کوکنگ آئل بنانے والے مقامی پروڈیوسرز نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ سستے ایرانی خوردنی تیل کی وجہ سے پاکستان کی کوکنگ آئل انڈسٹری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
پاکستان بناسپتی مینیوفیکچررز ایسوسی ایشن نے 17 دسمبر کو ایک خط کے ذریعے مشیرِ خزانہ شوکت ترین کو بتایا ہے کہ مقامی تیل پر بڑھتے ہوئے ٹیکس کے نتیجے میں ایرانی کوئنگ آئل کی مارکیٹ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
واضح رہے کہ اس رپورٹ کے چھپنے تک حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ جواب موصول نہیں ہو سکا ہے۔ اور نہ ہی ایرانی تیل کی پاکستانی مارکیٹ میں فراوانی پر کوئی خاص اثر پڑا ہے۔
مقامی پروڈیوسرز کا دعویٰ ہے کہ ایرانی تیل پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے وضع کردہ معیار کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس کا استعمال لوگوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔