سوویت یونین کے خاتمے کے تیس سال پوتن اور روس

سوویت یونین کے خاتمے کے تیس سال پوتن اور روس

سوویت یونین کے خاتمے کے تیس سال پوتن اور روس کا عالمی طاقتوں میں مقام

تیس سال قبل 25 دسمبر 1991 کو اس وقت کے سوویت یونین کے رہنما میخائل گورباچوف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور اپنے صدارتی اختیارات روسی فیڈریشن کے نومنتخب صدر بورس یلسن کے حوالے کر دیے۔

اس رات، ہتھوڑے اور درانتی کی علامتوں کے ساتھ سرخ سوویت یونین کے پرچم کو کریملن سے نیچے اتارا گیا اور اس کی جگہ روسی ترنگے نے لے لی۔

اگلے دن سپریم سوویت نے سوویت جمہوریہ کی آزادی کو تسلیم کر لیا اور یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک (یو ایس ایس آر) کو باضابطہ طور پر تحلیل کر دیا۔

یو ایس ایس آر کا اچانک خاتمہ دنیا کو بدلنے والا زلزلہ خیز واقعہ تھا۔ یہ ایک بہت بڑی سلطنت تھی جس نے 70 سالوں سے متعدد اتحادی ریاستوں کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا تھا اور اپنے جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کو نصف دنیا میں پھیلایا تھا۔

اس خاتمے نے اچانک نو تشکیل شدہ روسی فیڈریشن کو شناخت کے بحران میں الجھا دیا۔

رائل انسٹیٹیوٹ میں روس اور یوریشیا کے لیے تجزیہ کار میرا میلوسیوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’روس اس لحاظ سے کبھی بھی ایک قومی ریاست نہیں رہا تھا جس طرح ہم مغرب میں یہ تصور رکھتے ہیں۔ روس ایک سلطنت رہا تھا لیکن یہ کبھی بھی قومی ریاست نہیں رہا۔‘

’لہذا، سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ساتھ، روس نے ایک روسی قومی شناخت بنانے کی کوشش کی، لیکن یہ ایک بہت ہی پیچیدہ عمل رہا ہے کیونکہ روس ایک کثیر النسل، کثیر القومی ملک ہے، جس کی عظیم روایات ہیں اور اس پر اس کے سامراجی ماضی کی بھی بہت چھاپ ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ 1990 کی دہائی کے دوران، روس نے نہ صرف اس قومی شناخت بلکہ مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات کے معنی تلاش کرنے کی کوشش کی۔

لیکن سوویت یونین کے زوال کے بعد، سرد جنگ کے دور میں، امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے روس کے ساتھ ایک ’عظیم طاقت‘ کے طور پر برتاؤ کرنا بند کر دیا جیسا کہ یو ایس ایس آر سے کیا جاتا تھا۔

مغرب اور امریکہ کے روس کی طرف بدلے ہوئے برتاؤ کا سب سے اہم مظہر نیٹو کی مشرقی یورپ کے ملکوں میں توسیع تھی جس خطے کو ماسکو اپنے زیر اثر تصور کرتا چلایا آیا تھا۔

مبصرین کی رائے ہے کہ یہ وہی ہے جس کا ذکر ولادیمیر پوتن کر رہے تھے جب انھوں نے یہ کہا کہ سویت یونین کا خاتمہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی جغرافیائی سیاسی تباہی تھی۔

’ہم ایک بالکل مختلف ملک بن گئے اور جو کچھ 1000 سال سے زیادہ عرصے میں بنایا گیا تھا وہ بڑی حد تک ضائع ہو گیا۔‘

روس کے صدر ولادمیر پوتن اور سابق صدر بورس تلسن
بورس یلسن کے مستعفی ہونے کے بعد پوتن 1999 میں روس کے عبوری صدر بنے

اس طرح، سنہ 2000 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے پوتن نے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے ہاتھوں برسوں کی مبینہ تذلیل کے بعد روس کی عالمی طاقت کی حیثیت کو بحال کرنے کے اپنے عزم کو کوئی راز نہیں رکھا۔

اور جیسا کہ میرا میلوسیوچ بتاتی ہیں، پوتن روس کو ایک عالمی طاقت کے طور پر اس کے اسٹریٹجک کردار کی طرف لوٹانے میں کامیاب ہوئے۔

تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ’پوتن خود کو روس کے نجات دہندہ کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ 1990 کی دہائی میں روس کی جمہوری تبدیلی کی کوشش ناکام ہوئی تھی اور ملک مکمل طور پر تباہ اور دیوالیہ ہو گیا تھا۔‘

تجزیہ کار نے مزید کہا کہ پوتن نے روس کو بچایا ہے اور بین الاقوامی منظر نامہ پر روس کے کھوئے ہوئے مقام کو بحال کرنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔

حقیقتاً سنہ 1990 کی دہائی کے بعد جسے روس میں ایک ضائع ہونے والی دہائی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے پوتن نے اس بات کو یقینی بنایا کہ روس کی آواز کو عالمی سطح پر سنا جائے۔

برق رفتار عروج

پوتن نے 1991 میں سیاسی کیریئر شروع کرنے کے لیے سرکاری نوکری سے استعفیٰ دینے سے پہلے سولہ سال تک سویت یونین کی خفیہ ایجنسی ’کے جی بی‘ کے لیے جاسوس کے طور پر کام کیا۔

بورس یلسن کے سنہ 1999 میں صدارت کے عہدے سے مستعفی ہو جانے کے بعد پوتن نے عبوری طور پر صدارت کا عہدہ سنبھال لیا اور صرف چار ماہ بعد ہی وہ پہلی مدت کے لیے روس کے صدر منتخب ہو گئے۔

اس برق رفتار عروج کے بعد، وہ 1953 میں مرنے والے سوویت رہنما جوزف سٹالن کے بعد کریملن میں سب سے طویل عرصے تک براجمان رہنے والے صدر بن چکے ہیں۔

اس سال اپریل میں آئینی اصلاحات پر ایک متنازعہ قومی رائے شماری نے انھیں اپنی موجودہ چوتھی مدت کے بعد بھی اقتدار میں رہنے کا موقع فراہم کردیا ہے، جو 2024 میں ختم ہو رہی ہے۔ اس طرح 69 سالہ پوتن سنہ 2036 تک کریملن میں رہ سکتے ہیں۔

پوتن نے اس قانون پر دستخط کروا دیے ہیں جو انھیں 2036 تک اقتدار میں رہنے کی اجازت دے گا۔

ان پر تنقید کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ صدر کا سوویت دور میں جو ذہن بنا اس نے دنیا کے بارے میں ان کی سوچ کو تشکیل دیا۔

کنگز کالج لندن کے شعبہ وار سٹڈیز کی پروفیسر اور سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے امور کی ماہر نتاشا کُرت نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ روس بین الاقوامی ایجنڈے پر واپس آیا ہے، لیکن مثبت وجوہات کی بنا پر نہیں۔‘

’یہ نوٹ کرنا دلچسپ ہے کہ دس سال پہلے (کریملن میں) انھوں نے اس بارے میں بات کی تھی کہ کس طرح روس کو خود کو مزید پرکشش بنانے کی ضرورت ہے اور اسے اپنی ’سافٹ پاور‘ یا دوستانہ اثر و رسوخ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

صدر ولادمیر پوتن

’اب وہ مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ کوئی بھی (ماسکو میں) خود کو زیادہ پرکشش بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ روس کا فعال کردار ہو، روس کا اقوام عالم میں اہم مقام ہو اور دنیا روس کو اہمیت دے۔‘

ماہر کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ صرف دفاعی نکتہ نگاہ سے دیکھیں تو پوتن یہی چاہتے تھے اور مجھے لگتا ہے کہ انھوں نے اسے حاصل کر لیا ہے۔‘

ترجیحات

جیسا کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ سویت یونین کے زوال کے بعد روس کی تنزلی کو روکنے کے لیے پوتن کی اولین ترجیح سویت یونین کے دور میں روس کے زیر اثر علاقوں یا ریاستوں میں بیرونی طاقتوں کی پیش قدمی یا بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا تھا۔

سنہ 2008 میں روسی فوج نے جارجیا پر حملہ کیا تاکہ مغرب کے حامی صدر میخائل ساکاشویلی کو علیحدگی پسند جارجیائی علاقے جنوبی اوسیتیا، جو کہ روس کے زیر اثر ایک علاقہ ہے، اس پر دوبارہ فوجی قبضے سے روکا جا سکے۔

اگر ساکاشویلی اپنے ٹوٹے ہوئے ملک کو دوبارہ متحد کرنے میں کامیاب ہو جاتے، تو وہ جارجیا کو نیٹو میں شامل ہونے کے لیے ایک قابل عمل امیدوار بنانے کے اپنے بیان کردہ ہدف کے بہت قریب پہنچ سکتے تھے۔

روسی فوج
روس نے یوکرین کے ساتھ سرحد پر 114,000 سے زیادہ فوجیوں کو تعینات کیا ہے

اسی طرح، یوکرین میں 2014 میں، مغرب نواز مظاہروں کے بعد ماسکو کے اتحادی صدر وکٹر یانوکووچ کا تختہ الٹنے کے بعد، روس نے فوجی مداخلت کی، پہلے جزیرہ نما کریمیا کا الحاق کیا اور بعد میں مشرقی یوکرین کے روسی بولنے والے علاقے ڈونباس میں یوکرین مخالف باغیوں کی پشت پناہی کی۔

یوکرین کے ساتھ سرحد پر روسی فوجیوں کی نئی تعیناتی نے یورپی یونین اور امریکہ کو پریشان کر دیا ہے۔

جیسا کہ میرا میلوسیوچ کہتی ہیں، یہ فوجی کارروائیاں سوویت یونین کا کھویا ہوا مقام دلانے کی پوتن کی کوششوں کا حصہ نہیں تھیں بلکہ یہ روس کی سلامتی کے تاریخی تصور کے بنیادی اصولوں کا اہم عنصر ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اپنے زیر اثر علاقوں کو محفوظ رکھنے کی سوچ روس کی قومی سلامتی کے تصور سے جنم لیتی ہے کہ اپنے قومی مفادات کا دفاع کیا جائے اور یہ روس پر ہونے والے حملوں کے تجربے کا نچوڑ بھی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’روس اپنے ممکنہ دشمنوں کو اپنے سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ روس نیٹو تنظیم کو اپنی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ نیٹو اس کی سرحدوں پر آ کر بیٹھ جائے۔’

عسکری قوت

سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس کو سوویت ایٹمی ہتھیاروں کا بڑا حصہ وراثت میں ملا۔

اگرچہ روس نے اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر میں بڑی تک حد تک تخفیف کر دی تھی لیکن اس کے باوجود وہ اب بھی دنیا میں دوسری سب سے بڑی جوہری قوت ہے۔

سنہ 2018 کے اپنے سالانہ قوم سے خطاب میں پوتن نے روس کے نئے جدید اور طاقتور ہتھیاروں کا ذکر بڑے فخریہ انداز میں کیا تھا۔

چھ سال کی مدت کے لیے دوبارہ صدر منتخب ہونے سے چند دن قبل اپنی پارٹی کے سینکڑوں سینیئر عہدیداروں اور قانون سازوں کے سامنے پوتن نے نئے اہداف کا تعین کرنے کے ساتھ مغرب پر روس کو دبانے کا الزام لگاتے ہوئے اس کو ایسا کرنے سے باز رہنے کا کہا تھا۔

پوتن نے کہا تھا کہ روس نے ’سرمت‘ نامی ایک نئے بھاری انٹرکانٹینینٹل (بین البرِ اعظم) بلاسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) کا تجربہ کیا ہے۔ امریکہ کے اینٹی بلاسٹک میزائل کے سنہ 2002 کے معاہدے سے دستبردار ہونے کو جواز بناتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ روس اب اپنے بلاسٹک میزائلوں کو بہتر بنانے پر مجبور ہو گیا ہے۔

پوتن نے کہا کہ 2004 میں انھوں نے مغرب کو خبردار کیا تھا کہ وہ ایسی کارروائی کرنے جا رہے ہیں، لیکن اس وقت مغربی دنیا روس سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔

قومی نشریاتی اداروں پر براہ راست نشر ہونی والی اپنی تقریر میں تالیوں کی گونج میں صدر پوتن نے کہا کہ ’اُس وقت ہم سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کسی نے ہماری بات نہیں سنی۔ تو اب ہماری بات سنو۔‘

تب سے روس نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

دفاعی امور سے متعلق بین الاقوامی ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق 2021 میں روس کے پاس ’آپریشنل‘ تعیناتی میں ایک سال کے اندر روس نے پچاس جوہری ’وار ہیڈز‘ یا ہتھیاروں کا اضافہ کیا ہے۔

روس نے اپنے مجموعی فوجی جوہری ہتھیاروں میں بھی تقریباً 180وار ہیڈز کا اضافہ کیا ہے، جس کی بنیادی وجہ زمین اور سمندر سے داغے جانے والے آئی سی بی ایم کی تعیناتی ہے۔

روس کے صدر ولادمیر پوتن

اسی وجہ سے آج دنیا روس کی نہ صرف سنتی ہے بلکہ اس سے ڈرتی بھی ہے۔

بین الاقوامی روابط

روس کی عالمی طاقت کو بحال کرنے کی اپنی دوڑ میں، پوتن نے یہ بھی اپنے اوپر لے لیا ہے کہ وہ ان خطوں میں تعلقات کو مضبوط کریں جو پہلے سے ہی سوویت یونین کے لیے دفاعی لحاظ سے اہم تھے جیسے لاطینی امریکہ۔

میرا میلوسیوچ کہتی ہیں کہ ’سفارتی سطح پر اور بین الاقوامی اداروں میں نمائندگیاں جو پہلے سوویت یونین کے زیر استعمال تھیں، اب روس استعمال کر رہا ہے۔’

اور بلا شبہ، روس نے فائدہ اٹھایا اور سوویت یونین کے روایتی تاریخی تعلقات کو جاری رکھا، مثال کے طور پر، لاطینی امریکہ میں۔

جیسا کہ ماہر بتاتی ہیں لاطینی امریکہ میں روس کی موجودگی ایک وسیع تر بین الاقوامی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا بنیادی مقصد خطے میں امریکی قیادت کو کمزور کرنا اور دوسری بڑی ابھرتی ہوئی طاقت چین سے مقابلہ کرنا ہے۔

ایلکانو رائل انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ’پوتن ایک لاجواب حکمت عملی بناتے ہیں، جیسا کہ انھوں نے دکھایا ہے۔‘

مثال کے طور پر، یہ امریکہ کے مقابلے میں بہت کم اقتصادی، فوجی یا سیاسی طاقت کے ساتھ روس کو مشرق وسطیٰ کی سیاسی بساط میں شامل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

میرا میلوسیوچ نے مزید کہا کہ ’آج روس ایک ناگزیر ملک ہے، مشرق وسطی میں واحد سٹریٹجک طور پر سرگرم ملک، جو حزب اللہ سے لے کر سعودی عرب کے بادشاہ تک، سب سے بات کرتا ہے۔‘

اس کے علاوہ، روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین میں سے ایک ہے۔ یہ جگہ جو اسے سوویت یونین سے وراثت میں ملی ہے اور جو اسے ویٹو پاور دیتی ہے۔

روس کے صدر ولادمیر پوتن
پوتن اور برازیل کے صدر جیر بولسونارو

کمزوریاں

لیکن پوتن کی سفارتی، فوجی اور تزویراتی کامیابیاں روس کی بنیادی اندرونی کمزوریوں کو چھپانے میں ناکام رہی ہیں:

ایک ایسی معیشت جس کا بہت زیادہ انحصار توانائی کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہے (روس جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی 11ویں بڑی معیشت ہے)، وسیع پیمانے پر بدعنوانی، بد حال بنیادی ڈھانچہ اور ناقص اور ناکافی سرکاری سماجی امداد اور بڑھتا ہوا سیاسی اور معاشی عدم اطمینان۔

جیسا کہ نتاشا کُرٹ بتاتی ہیں، پوتن نے اپنی خارجہ پالیسی کو بڑی حد تک امریکہ اور یورپی یونین کی مخالفت کے ساتھ بیان کیا ہے، ’غیر معمولی‘ حکومتوں کی حمایت کی ہے اور جو بھی ان سے مانگتا ہے اسے اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔

’سوویت یونین کی طرح، جس نے افریقی ممالک کو طیارے اور ہتھیار بیچے اور پانچ سالوں میں ادائیگی کرنے کے منصوبے بنائے، ضروری نہیں کہ اس کا مطلب اپنا اثر و رسوخ بڑھانا ہو۔‘

کرُٹ کہتی ہیں کہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہ ملک آپ کے وفادار اتحادی بننے جا رہے ہیں۔

روس بہت بڑی مقدار میں ہتھیار فروخت کرتا ہے لیکن اس سے وہ ایک بااثر ملک نہیں بنتا۔

آپ کسی ملک کو جوہری پاور پلانٹ بنا کر دیتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ کا پکا وفا دار ہو گیا ہے۔

اس لیے جب ہم عالمی اثر و رسوخ اور طاقت کی بات کرتے ہیں تو آپ کو محتاط رہنا چاہیے کیونکہ اثر و رسوخ کے لحاظ سے، (روس) وہ نہیں کر رہا جو چین کر رہا ہے، مثال کے طور پر افریقہ میں، جہاں وہ سرمایہ کاری کے معاملے میں طویل مدتی ثمرات حاصل کر رہا ہے۔‘

روسی فوج

مزید کشیدگی

آج مغرب کے ساتھ روس کا تناؤ اپنے عروج پر ہے۔

مغرب نے روس پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے ممکنہ حملے کی تیاری کے لیے دسیوں ہزار فوجی یوکرین کے قریب جمع کیے ہوئے ہیں۔

گروپ آف سیون نے ماسکو کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اس کے ‘بڑے سنگین نتائج’ ہوں گے۔

کریملن نے کہا ہے کہ روس کا یوکرین پر نیا حملہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ مغرب نے خود کو ماسکو کے جارحانہ عزائم پر قائل کر لیا ہے جس کی بنیاد پر وہ مغربی میڈیا کی جھوٹی خبریں کہتا ہے۔

فی الحال، روس اور مغرب کے درمیان تقسیم کے جلد حل ہونے کا امکان نہیں ہے۔

ہوسکتا ہے کہ پوتن نے روس کو دنیا میں ایک قابل احترام، اور خوف اور دبدبا رکھنے والا ملک بنانے کا اپنا ہدف پہلے ہی حاصل کر لیا ہو، لیکن جیسا کہ کوہرٹ نے اشارہ کیا، صدر کو نئے عالمی نظام میں روس کے لیے پائیدار جگہ ملنے کا امکان نہیں ہے ایسی جگہ جہاں اُس سے برابری کی سطح پر برتاؤ کیا جائے۔

کنگز کالج کے ماہر کا کہنا ہے کہ |میرا خیال ہے کہ روس اب بھی دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور اب چین کے عروج کے ساتھ یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔‘

’شاید پوتن کو لگتا ہے کہ وہ جانتے ہیں یہ کیسے کرنا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ایسا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *