قومی سلامتی پالیسی 26-2022: کیا یہ واقعی پہلی قومی

قومی سلامتی پالیسی 26-2022: کیا یہ واقعی پہلی قومی

قومی سلامتی پالیسی 26-2022: کیا یہ واقعی پہلی قومی سلامتی پالیسی ہے؟

کیا نئی اور ‘پہلی’ قومی سلامتی پالیسی اس پالیسی سے مختلف ہوگی جو 2014 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے منظور کی تھی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے موجودہ مشیر قومی سلامتی معید یوسف تو یہی کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی قومی سلامتی پالیسی ہے۔

اسی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری کے لیے آج وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا۔ گذشتہ روز یہ پالیسی قومی سلامتی کمیٹی یعنی این ایس سی کے اجلاس میں منظور ہوئی تھی۔

این ایس سی کے اجلاس کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے ‘ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی 26-2022 کی منظوری دی ہے۔‘

‘اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ ‘ملک کا تحفظ شہریوں کے تحفظ سے منسلک ہے جبکہ پاکستان کسی بھی داخلی اور خارجی خطرات سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔’

ان کے اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نئی قومی سلامتی پالیسی کی بنیاد سلامتی سے جڑے داخلی اور خارجی دونوں عوامل ہی بنائے گئے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی اشارہ دیا گیا ہے کہ نئی نیشنل سکیورٹی پالیسی کا محور معیشت کی بہتری ہوگا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ‘معاشی تحفظ ہی شہریوں کے تحفظ کا ضامن بنے گا۔’

آج مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے نئی قومی سلامتی پالیسی کے چیدہ چیدہ نکات شیئر کیے۔

انھوں نے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی قومی سلامتی پالیسی ہے جسے بنانے میں سات سال کا عرصہ لگا اور اس پر تمام جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کا اتفاق ہے۔’ اس قومی سلامتی پالیسی کا بنیادی مقصد عام شہری کا تحفظ ہے اور اس کا محور معاشی سکیورٹی ہے۔’

معید یوسف نے کہا کہ ماضی میں پیش کی گئی پالیسی داخلی سلامتی سے متعلق تھی جو نئی قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بھی ہے۔

‘یہ پالیسی داخلی سلامتی، خارجہ امور، انسانی سیکیورٹی اور معاشی سکیورٹی کا احاطہ کرتی ہے۔ اگر ہماری معیشت مضبوط ہو گی تبھی ہمارا شہری محفوظ ہوگا اور دفاعی سلامتی بھی اسی صورت میں ممکن ہے۔’

انھوں نے کہا کہ اس دستاویز میں شامل خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ پاکستان ہمسایہ ممالک سمیت تمام ممالک کے ساتھ امن کا خواہاں ہے۔ مشیر سلامتی معید یوسف نے کہا کہ یہ دستاویز ایک ہفتے بعد میڈیا کے ساتھ شیئر کی جائے گی اور پارلیمان میں جائے گی۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے بریفنگ دی۔ وزیر اعظم نے قومی سلامتی کے مشیر کو پالیسی پر عملدرآمد کے لیے ماہانہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔

معاشی سکیورٹی کیا ہے؟

بی بی سی سے اس بارے میں سینیئر تجزیہ کار عامر ضیا نے بات کی اور کہا کہ اکنامک سکیورٹی کا ذکر کوئی نئی بات نہیں ہے۔

چکوٹهی

وہ کہتے ہیں کہ ‘سابق صدر پرویز مشرف بھی کہا کرتے تھے کہ ملک کی معیشت مضبوط ہو گی، جی ڈی پی بڑھے گا، تبھی شہریوں کی زندگی بہتر ہو گی اور اسی صورت میں ہمارے پاس دفاعی اخراجات کی مد میں بھی زیادہ بجٹ ہو گا۔ اسی طرح سول حکومتیں بھی اس بارے میں بات کرتی رہی ہیں اور پالیسیاں بناتی رہی ہیں۔‘

تو ایسا نہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے پہلی بار ایسی بات کی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ معیشت بہتر بنانے کے لیے جو عملی اقدامات کرنا پڑتے وہ ہر حکومت نہیں لے سکتی۔ کچھ مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں، ایسے فیصلے کرنا پڑتے ہیں جو آپ کی سیاسی موت بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری حکومتیں اپنی سیاسی پوزیشن کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار نہیں ہوتی ہیں۔’

عامر ضیا سمجھتے ہیں کہ معیشت میں بہتری اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پالیسیوں میں تسلسل اور حکومت میں استحکام نہ ہو۔

وہ معاشی سیکیورٹی کو خارجہ پالیسی کے ساتھ بھی جوڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘دوسری جانب معاشی ترقی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات ہوں۔ انڈیا کے ساتھ معیشت کی خاطر تعلقات کی بہتری کی بات جب موجودہ آرمی چیف نے کی تھی تو خاصی تنقید ہوئی تھی۔ مگر اب تو صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔‘

’کشمیر کے خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد فوج یا حکومت اب یہ افورڈ نہیں کر سکتے کہ وہ انڈیا کے ساتھ کشمیر کی موجودہ حیثیت میں بات کریں۔ جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کے مثبت اور آگے بڑھنے کے پیغامات کو مثبت انداز میں نہیں لیا گیا۔’

معاشی سیکیورٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار عبدالباسط سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے دور میں معیشت اپنی بدترین سطح پر پہنچ رہی ہے، ‘ایک ایسی حکومت جس کے دور میں معاشی بدحالی ہوئی، وہ معاشی سیکیورٹی کی بات کر رہی ہے، میرے خیال میں یہ خاصا مضحکہ خیز ہے۔’

تاہم عامر ضیا سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو معاشی حالات نہایت خراب ہو چکے تھے، اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ حکومت کو ہی یہ الزام دیا جائے کہ انھوں نے معیشت تباہ کی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ عین ممکن ہے کہ حکومت کی مکمل نیک نیتی شامل ہو اب جبکہ وہ قومی سلامتی پالیسی کی بنیاد ہی معاشی سکیورٹی بنا رہے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ محض دو برس میں وزیراعظم عمران خان ملک کو مشکلات سے نہیں نکال سکیں گے اور بہت بڑے پیمانے پر اکانومی میں ریفارمز نہیں لا سکیں گے، ہاں اس جانب یہ پہلا قدم ضرور اٹھایا جا سکتا ہے۔’

خیال رہے کہ پاکستان میں باقاعدہ طور پر قومی سلامتی پالیسی پر کام کئی بار ہوا مگر ایک متفقہ پالیسی 2014 سے پہلے نہیں بن سکی۔ یہاں تک کہ آج منظور ہونے والی قومی سلامتی پالیسی سے متعلق چند ہفتے قبل ہونے والی بریفنگ کا حزب اختلاف نے بائیکاٹ کیا تھا۔

ماضی میں جب بھی ضرورت پڑی پارلیمان کے ایکٹس، آرڈیننسز اور بلوں پر ہی گزارا کیا جاتا رہا۔ ان میں تحفظ پاکستان ایکٹ اور انسداد دہشتگردی ایکٹ شامل ہیں۔ 2014 کی طرح آج بھی قومی سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم سے یہ پالیسی منظور کی گئی ہے۔

نواز شریف کے دور میں بننے والی سلامتی پالیسی اور قومی ایکشن پلان

راحیل شریف اور نواز شریف

2014 میں قومی داخلہ سلامتی پالیسی ایک ایسے وقت تشکیل دی گئی تھی جب حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے اور پاکستانی فوج نے ٹی ٹی پی کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔

فروری 2014 میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے پالیسی کی منظوری دی۔ 94 صفحات پر مشتمل یہ ایک تفصیلی پالیسی تھی جس میں قومی سلامتی کے اہم امور کا جائزہ لیا گیا تھا اور مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ان کے حل سے متعلق اقدامات واضح کیے گئے تھے۔

پالیسی میں یہ بھی کہا گیا تھا مسائل کے حل کے لیے فوجی آپریشنز کی بجائے بات چیت اور مذاکرات کو فوقیت دی جائے گی۔ جبکہ شدت پسند گروہوں سے منسلک وہ شہری جو بھٹک گئے تھے، ان کے لیے اصلاحی مراکز قائم کیے جائیں گے اور انھیں قومی دھارے کا حصہ بنایا جائے گا۔

2014میں بنی داخلی سلامتی کی قومی پالیسی میں بھی کہا گیا تھا کہ اس پالیسی کا مقصد ‘ایک ایسا محفوظ ماحول قائم کرنا ہے جس میں شہریوں کی جان، مال، سول آزادیاں اور سماجی و معاشی حقوق کا تحفظ ہو اور پاکستان کے شہری آئین کے تحت ہم آہنگی، آزادی، عزت اور وقار کے ساتھ ملک میں زندگی گزار سکیں۔’

تاہم اس پالیسی میں بنیادی مسئلہ ملک کی سکیورٹی صورتحال پر قابو پانا تھا، تمام سٹیک ہولڈرز سے مذاکرات اور دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق اقدامات کی وضاحت کی گئی تھی۔ اس قومی سلامتی پالیسی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومت کو اقتدار میں آتے ہی سکیورٹی کے بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور اس پر قابو پا کر ہی معاشی استحکام اور شہریوں کی زندگی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔

مگر یہ پالیسی منظور ہونے کے ٹھیک دس ماہ بعد پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشتگرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے حملہ کر دیا۔ اس حملے کے بعد 2015 میں قومی ایکشن پلان تشکیل دیا گیا اور دہشتگرد تنظیموں سے بات چیت ترک کرنے اور ان کا مکمل خاتمہ کرنے کا فیصلہ ہوا جبکہ فوجی عدالتیں بھی قائم کی گئیں۔ قومی ایکشن پلان میں دیگر اقدامات کا فیصلہ بھی ہوا جن میں مدارس سے متعلق اصلاحات، انتہاپسندی کے خاتمے کے اقدامات وغیرہ بھی شامل تھے۔

2018 میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت کا آخری سال تھا، حکومت نے قومی داخلہ سلامتی پالیسی دوم 2023 – 2018 اور قومی ایکشن پلان دوم بھی منظور کیے۔

کیا یہ واقعی پہلی قومی سلامتی پالیسی ہے؟

آرمی چیف جنرل جاوید قمر باجوہ

بی بی سی نے یہ سوال دفاعی امور کے ماہر عبدالباسط سے کیا تو انھوں نے کہا کہ 2014 میں بننے والی پالیسی داخلہ امور کو تفصیلی انداز میں کور کر رہی تھی۔ مگر اس پالیسی کو دیکھیں یا انسداد دہشتگردی ایکٹ کو تقریباً مکمل مماثلث ملے گی اور آپ یہ سوچیں گے اگر قانون موجود ہی تھے تو ایک انہی نکات پر مشتمل ایک نئی پالیسی مرتب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

بہرحال یہ ایک مثبت اقدام تھا کہ قومی سلامتی کی پالیسی تشکیل دی گئی۔ پھر قومی ایکشن پلان آیا اور وہ بھی ایک جامع پالیسی لائن تھی۔ اب جو نئی پالیسی آئی ہے اس میں یہ ممکن ہے کہ معیشت کے معاملات پر بات کی گئی ہو اور داخلہ کے ساتھ ساتھ خارجی عوامل شامل کر دیئے گئے ہیں۔ جیسا کہ افغانستان کے صورتحال اب 2014 کے مقابلے میں مکمل طور پر بدل گئی ہے تو یقیناً یہ پاکستان کی سکیورٹی پالیسی پر اثرانداز ہو گی۔’

تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسے پہلی قومی سلامتی پالیسی کہنا یا اس موقع پر پہلے سے موجود پالیسی چھوڑ کر اپنی دستاویز لے آنا پاکستان تحریک انصاف کا ایک سیاسی قدم بھی ہو سکتا ہے۔

‘پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ جب اس کی حکومت ختم ہو تو ان کے پاس کریڈٹ لینے کے لیے بھی کچھ موجود ہو تا کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ انہوں نے فلاں کام کیا یا پالیسی لائے۔’

اس سوال پر کہ کیا یہ موجودہ حکومت کا ایک سیاسی قدم ہے جو وہ اپنی حکومت کے آخری مرحلے میں کریڈٹ لینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، عامر ضیا کہتے ہیں کہ پاکستان میں اپنے نام کی تختی لگانے کا ٹرینڈ تو موجود ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی نیت بالکل صاف ہو اور وہ واقعی قومی سلامتی پالیسی کے تحت بہتری کی جانب بڑھنے کی کوشش کریں۔ مگر یہ ممکن نہیں اتنے کم عرصے میں وہ ملک کو مکمل طور پر بدل دیں یا کوئی بہت بڑی تبدیلی لے آئیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ پالیسی لا کر یہ پیغام دینا چاہ رہے ہوں حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات بالکل ٹھیک ہیں اور وہ ایک صفحے پر ہیں۔’

قومی سلامتی کونسل (کمیٹی) کیا ہے؟

بے نظیر

منگل کو کابینہ میں پیش ہونے والی قومی سلامتی پالیسی پیر کو قومی سلامتی کونسل (کمیٹی) یعنی این ایس سی میں منظور کی گئی جو قومی سلامتی سے متعلق فیصلے کرنے والے دو اہم ترین فورمز میں سے ایک ہے۔

2013 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حکومت میں آنے کے بعد ان کے پہلے اقدامات میں سے ایک قومی سلامتی کونسل کو ایک بار پھر فعال کرنا تھا۔ یہ کونسل یوں تو جنرل یحییٰ خان نے اپنے دور حکومت میں تشکیل دی تھی تاہم پالیسی سازی کے لیے بھاری عسکری مینڈیٹ پر مشتمل ایک متنازع باڈی ہونے کی وجہ سے اس کو 1971 میں مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کے بعد کام سے روک دیا گیا۔

سابق وزیراعظم ذووالفقار علی بھٹو نے قومی سلامتی، دفاع اور خارجہ پالیسی پر مشاورت کے لیے نیا پلیٹ فارم تشکیل دیا جسے ڈیفنس کمیٹی آف کیبینٹ یعنی ڈی سی سی کا نام دیا گیا۔ یہی کمیٹی اس وقت کیبینٹ کمیٹی آن نیشنل سکیورٹی کے نام سے موجود ہے۔

1985 میں ڈی سی سی کو ایک بار پھر تبدیل کر کے قومی سلامتی کونسل بنا دیا گیا جس کے بعد بینظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں کونسل کو ہی ختم کر دیا۔ اور ڈی سی سی کو ایک بار پھر فعال کر دیا۔ خیال رہے کہ ڈی سی سی کی سربراہی وزیراعظم کرتے ہیں اور جنگ یا جوہری ہتھیاروں سے متعلق فیصلے بھی اسی پلیٹ فارم پر کیے جاتے ہیں۔

1998 میں کمیٹی کے متعدد اجلاس بلائے گئے تھے اور پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کے کامیاب تجربے کا فیصلہ کیا۔ یہی ڈی سی سی اس وقت کابینہ کمیٹی برائے قومی سلامتی کے نام سے موجود ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف نے بعض ترامیم کے ساتھ ایک بار پھر قومی سلامتی کونسل کو فعال کیا تاہم اس وقت بھی اپوزیشن اور سول سوسائٹی نے اعتراض کیا تھا کہ اس کونسل کے قیام سے فوج کو پالیسی سازی کا مکمل اختیار دیا جا رہا ہے۔

بعدازاں 2009 میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کونسل کے سربراہ میجر جنرل ر محمود درانی کو عہدے سے ہٹایا اور نیا سربراہ تعینات نہیں کیا۔ جبکہ اس کونسل کی بجائے کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کو ہی فیصلہ سازی کا اختیار دیا گیا۔ نواز شریف نے حکومت میں آنے کے بعد قومی سلامتی کونسل کو بھی بحال کر دی۔ اس کونسل کے پلیٹ فارم سے ہی 2014 میں ملک کی پہلی قومی داخلہ سلامتی پالیسی کی منظوری دی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *