ڈالر سے مصنوعی ’کیپ‘ کا خاتمہ کیا بلیک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کم ہو گی؟
پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین منگل کی شب یہ سوال کرتے نظر آئے کہ ملک میں ڈالر کا نیا ریٹ کیا ہو گا، کیا پاکستان روپے کے مقابلے میں امریکی کرنسی کی قدر کم ہو گی یا مزید مضبوط ہو جائے گی؟
اس سوال اور اس سے جڑی چہ مگوئیوں کی وجہ پاکستان میں زرِ مبادلہ کی ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے منگل کی رات کیا جانے والا وہ اعلان ہے جس کے مطابق ڈالر کی قیمت پر لگایا جانے والا کیپ بدھ کے روز (یعنی آج) سے ختم کر دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی کے بعد ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کی جانب سے ڈالر کی قیمتوں کو مستحکم رکھا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے بھی انٹربینک ریٹ کو مستحکم رکھا جا رہا تھا تاکہ مارکیٹ میں افراتفری کی صورتحال پر قابو رکھا جا سکے۔
ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے یہ بتایا گیا ہے کہ اس کا مقصد ڈالر کی بلیک مارکیٹ، انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں موجود ڈالر کی قیمتوں میں فرق کو ختم کرنا ہے۔
منگل کی شب پاکستان کی فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے اعلان کیا کہ ’ڈالر کی قیمت پر لگایا گیا کیپ منفی ثابت ہوا ہے اور اس سے ڈالر کا ریٹ کم ہونے کے بجائے مزید اوپر چلا گیا ہے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں ’ایک بلیک مارکیٹ وجود میں آئی جس کی وجہ سے مارکیٹ میں افراتفری تھی اور ایکسچینج کمپنیوں کی بدنامی ہو رہی تھی۔‘
’کیپ حکومت اور ملک کے مفاد میں لگایا‘
واضح رہے کہ پاکستان کے موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تعیناتی کے فوراً بعد یہ بیان دیا تھا کہ ڈالر کا اصل ریٹ دو سو روپے سے کم ہے اور آئندہ چند روز میں پاکستان میں ڈالر اپنی اصل سطح یعنی 200 روپے تک آ جائے گا۔
تاہم ان کا اس وقت یہ کہنا تھا کہ حکومت اس معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔
پاکستان کی فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے منگل کو کہا کہ ’یہ کیپ حکومت اور ملک کے مفاد میں لگایا گیا تھا مگر اب ایکسچینج کمپنیوں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ یہ کیپ ختم کر دیا جائے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ ’ایکسچینج کمپنیوں کو ڈالر کہیں سے نہیں مل رہا کیونکہ اس کی کمی ہے، جبکہ سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ڈالرز پہلے امپورٹرز کو دیے جائیں، چنانچہ غیر ملکی پاکستانیوں کی جتنی بھی ترسیلاتِ زر آ رہی ہیں، وہ سب انٹربینک مارکیٹ کو دی جا رہی ہیں جبکہ پہلے ان کے مطابق وہ 80 فیصد عوام کو اور 20 فیصد بینکوں کو دیتے تھے۔‘
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’سٹیٹ بینک کا یہ خیال تھا کہ لوگ ڈالر فروخت کریں گے لیکن کوئی فروخت نہیں کر رہا بلکہ صرف خریداری کی جا رہی ہے۔‘
اُنھوں نے اُمید ظاہر کی کہ جوں ہی لوگوں کو ڈالر ملنا شروع ہو گا تو اس کا ریٹ نیچے آئے گا۔
’ریمیٹینس بھی اسی لیے کم ہوئی ہے، تین ارب ڈالر سے کم ہو کر دو ارب ڈالر ہو گئی ہے، کیونکہ مارکیٹس میں 20 سے 30 روپے کا فرق بہت زیادہ ہے، اسی طرح ایکسپورٹرز نے بھی پیسہ ہولڈ کر لیا ہے کیونکہ فری مارکیٹ، انٹربینک اور بلیک مارکیٹ کا فرق بہت زیادہ ہے، اسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ملک بوستان نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد ’ڈالر کا ریٹ 250 روپے تک اور اس سے اوپر پہنچنے کی توقع ہے۔‘
بدھ کے روز مارکیٹ سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ڈالر کی اوپن مارکیٹ میں قیمت 252 روپے تک پہنچ چکی ہے۔
بدھ کے روز ٹریڈنگ کے آغاز پر ملک میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں 12 روپے کا اضافہ ہوا ہے اور یہ اس وقت 252 روپے پر ٹریڈ ہو رہا ہے۔
’صحیح سمت میں درست قدم مگر کچھ زیادہ بدلنے کا امکان نہیں‘
اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک میں ڈائریکٹر پاکستان انیشیٹیو اور معاشی تجزیہ کار عزیر یونس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام درست سمت میں ایک قدم ہے کیونکہ اس سے منی مارکیٹ میں حوالہ ہنڈی میں کمی آئے گی اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے ریٹ کے فرق میں کمی آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ مگر یہ ناکافی ہو گا کیونکہ اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ انٹربینک میں ڈالر کے ریٹ کا تعین کرے تاکہ ڈالر کی وہ قیمت سامنے آ سکے جو ہونی چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس ضمن میں خدشہ یہ ہے کہ اگر اس معاملے پر انٹربینک ریٹ میں تاخیر ہوتی ہے تو دوبارہ ڈالر مارکیٹ میں بلیک ہو گا اور حوالہ ہنڈی کا بازار گرم ہو گا۔
جب عزیر یونس سے پوچھا گیا کہ اس فیصلے کے بعد کیا وہ لوگ جنھوں نے ڈالرز ذخیرہ کر رکھے ہیں، اپنے ڈالر فروخت کریں گے؟
اس کے جواب میں کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ کچھ حد تک ڈالرز کی خرید و فروخت ہو لیکن یہ بہت زیادہ نہیں ہو گی کیونکہ اس وقت ملک میں جو غیر یقینی کی صورتحال ہے وہ ایکسچینج ریٹ سے بالا ہے اور جب تک آئی ایم ایف سے مذاکرات طے نہیں پاتے اور وہ امداد جاری نہیں کرتے تب تک ایسی صورتحال رہے گی۔ کیونکہ ان لوگوں کے خیال میں ملکی معیشت کمزور ہے۔
تجزیہ کار عزیر یونس نے ٹوئٹر پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ واضح ہے کہ اب ایکسچینج کمپنیاں ڈالر کی ٹریڈنگ اسی ریٹ پر کریں گی جو مارکیٹ میں چل رہا ہے۔‘
انھوں نے سوال کیا کہ ’آیا یہ اعلان ڈالر کے انٹر بینک ریٹ کی ایڈجسٹمنٹ کی جانب پہلا قدم ہے؟‘
’ڈالر کی سرکاری قیمت 250 پار کر جائے گی‘
ایک جانب جہاں ملک بوستان کو امید ہے کہ بلیک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کم ہو گی وہیں دوسری جانب سوشل میڈیا پر اس اندیشے کا بھی اظہار کیا گیا معاملہ الٹ بھی ہو سکتا ہے۔
اس حد تک اکثریت متفق نظر آئی کہ ڈالر کا سرکاری ریٹ بڑھ جائے گا۔
صحافی کامران خان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’گورنر سٹیٹ بینک کو کل شاید الہام ہوا کہ ڈالر کا سرکاری ریٹ 230 اور اوپن مارکیٹ 240 ہے، بس 10 روپے کا فرق ہے جلد وہ بھی دور ہو جائے گا۔‘
کامران خان نے لکھا کہ ’جی ہاں، کل یہ فرق دور ہو جائے گا، یکمشت روپے کی قدر میں کم از کم 10 فیصد گراوٹ ہو گی اور ڈالر کی سرکاری اوپن مارکیٹ قیمت 250 پار کر جائے گی۔‘
معاشی تجزیہ کار و صحافی خرم حسین نے بھی ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایکسچینج کمپنیوں نے ڈالر کیپ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد ڈالر کہاں تک جاتا ہے۔‘
جبکہ ایک اور صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ملک بوستان کے اعلان کے بعد جو کوئی بھی ڈالر ریٹ کے حوالے سے بات کر رہا ہے مگر کل ایسا کچھ نہیں ہو گا۔‘