فواد چوہدری کی گرفتاری کی خبر سنی تو بے

فواد چوہدری کی گرفتاری کی خبر سنی تو بے

فواد چوہدری کی گرفتاری کی خبر سنی تو بے اختیار ہاتھ کانپنا شروع ہو گئے۔

جب حبا فواد نے اپنے شوہر اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی گرفتاری کی خبر سنی تو بقول ان کے ’بے اختیار میرے ہاتھ کانپنا شروع ہوگئے۔‘

صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں گذشتہ روز تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری کو گرفتار کیا گیا جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے انھیں دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔

تھانہ کوہسار میں سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں فواد چوہدری پر الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے ’اپنی تقریر کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر ممبران اور ان کے خاندانوں کو ڈرایا اور دھمکایا ہے‘ اور ’انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔‘

اداروں کو بغاوت پر اُکسانے سے متعلق دفعات شامل کرتے ہوئے مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ فواد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر سمیت کمیشن کے دیگر اہلکاروں میں خوف پیدا کیا ہے اور ملک میں بدامنی پھیلائی ہے۔

پاکستان کے ہیومن رائٹ کمیشن (ایچ آر سی پی) نے فواد چوہدری کی گرفتاری پر بیان میں کہا ہے کہ بغاوت کے نوآبادیاتی قانون کو حکومتیں سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کر رہی ہیں جو کہ قابل مذمت ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی تحریک انصاف کے بڑے ناموں میں سے ایک کی گرفتاری پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ جہاں بعض صارفین اس کی مذمت کر رہے ہیں تو وہیں کچھ کا سوال ہے کہ ’سیاسی انتقام‘ کا یہ سلسلہ کب تھمے گا؟

تاہم وفاقی وزرا نے دعوے کی مذمت کی ہے کہ یہ سیاسی گرفتاری ہے۔ جیسے وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے حکام پر دھمکیاں دی تھیں۔

فواد چوہدری

’فواد کی گرفتاری پر شور مچایا تو 40 منٹ بعد ایف آئی آر سامنے آ گئی‘

فواد چوہدری کی اہلیہ حبا فواد نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ وہ گرفتاری سے قبل فواد چوہدری سے فون پر رابطے میں تھیں۔ ان کے مطابق فواد نے انھیں بتایا کہ ’ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے کچھ لوگ آ رہے ہیں اور وہ زمان پارک جا رہے ہیں۔‘

حبا کے مطابق وہ اپنی دو بچیوں کو سکول کے لیے تیار کر رہی تھیں اور ان کے ناشتے کے لیے کچن میں مصروف ہو گئیں۔ ’فواد نے فون پر بتایا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، اب سب ٹھیک ہے، تھوڑی دیر بعد میں آپ کو فون کرتا ہوں۔‘

ان کے مطابق جب 15 منٹ تک کوئی فون اور پیغام نہیں آیا تو انھوں نے فواد کے فون پر کال کی اور فون بند تھا۔ انھیں شک پڑ گیا کہ کچھ گڑ بڑ ہے کیونکہ ’فواد کا نمبر اس طرح بند نہیں ہوتا۔‘

Fawad

وہ کہتی ہیں کہ کچھ دیر بعد ڈرائیور نے انھیں فون پر اطلاع دی کہ ’14 سے 15 لوگ آئے تھے اور وہ فواد صاحب کو گیراج میں ویگو میں ڈال کر لے گئے۔‘ حبا کہتی ہیں کہ وہ اکیلی تھیں اور ان کے سامنے ساڑھے پانچ اور چار برس کی دو بچیاں سکول کے لیے تیار کھڑی تھیں اور جب ان بچیوں نے اپنے والد کی گرفتاری کی خبر سنی تو ان کے ’ہوش اُڑ گئے، میرے ہاتھ کانپنا شروع ہو گئے۔‘

فواد چوہدری کی اہلیہ کے مطابق انھیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ ’میں اس وقت کسی سے بات نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے بعد میں نے اپنی والدہ کو فون کیا اور پھر میڈیا والوں کو ہم نے اس بارے میں بتایا۔‘

حبا فواد کے مطابق ’ہم نے شور شرابہ کرنا شروع کیا تو پھر 40 منٹ بعد ایک ایف آئی آر سامنے آ گئی اور فواد کی گرفتاری کے بارے میں ہمیں بتایا گیا۔‘

ان کے خیال میں اگر وہ ’یہ شور نہ مچاتے اور واویلا نہ کرتے تو شاید انھوں نے یہ بھی نہیں بتانا تھا کہ فواد کہاں پر ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میں کل کے دن اپنے خاوند کے ساتھ رہی مگر اب انھیں کچھ معلوم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہو گا۔‘

انھوں نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے چیف جسٹس کے علاوہ وزیر اعظم اور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب سے اپیل کی ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز فواد چوہدری نے اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت کے جج کو بتایا تھا کہ ’مجھے لاہور پولیس نے گرفتار کیا، میرا موبائل قبضے میں لیا اور لاہور پولیس نے مجھے اسلام آباد پولیس کے حوالے کیا۔ ‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں سینئیر وکیل ہوں، پارلیمنٹیرین ہوں، تحریک انصاف کا ترجمان ہوں، سابق وفاقی وزیر ہوں، میں دہشتگرد نہیں ہوں کہ مجھے سی ٹی ڈی (محکمہ انسداد دہشتگردی کی تحویل) میں رکھا گیا۔‘

ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

فواد چوہدری کو کن ’نوآبادیاتی‘ قانون کے تحت گرفتار کیا گیا؟

پی ٹی آئی رہنما کے خلاف درج ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 153 اے ت پ (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 506 ت پ (مجرمانہ دھمکی)، 505 ت پ (اشتعال انگیز تقریر) اور 124 اے ت پ (بغاوت پر اکسانا) درج ہیں۔

بغاوت سے متعلق پینل کوڈ میں شامل 124 اے کو پہلی بار برطانوی راج نے 1860 میں قائم ہندوستان کے پینل کوڈ کا حصہ بنایا تھا۔

انڈیا کی سپریم کورٹ نے مئی 2022 میں اس قانون کے استعمال پر عارضی پابندی لگائی تھی۔

جبکہ پاکستان میں یہ جرم ثابت ہونے پر تین سال سے عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

سوشل میڈیا پر بحث

صحافی مہرین زہرہ ملک نے ٹویٹ کیا کہ فواد چوہدری کو اس وجہ سے گرفتار کیا گیا کہ انھوں نے الیکشن کمیشن کے سیکریٹری کو منشی یعنی کلرک کہا۔

انھوں نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی جماعت کے سیاسی مخالفین پر کریک ڈاؤن کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

اینکر پرسن مہر بخاری نے ٹویٹ کی کہ جب پولیس فواد چوہدری کو اسلام آباد کی ایف ایٹ کچہری میں عدالت کے سامنے پیشی کے لیے لا رہی تھی تو اس نے ’ایک دہشتگرد کی طرح ان کے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا۔‘

انھوں نے اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان کی سیاست کے انتہائی کمتر پہلو کے طور بیان کیا۔

ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

بسمہ محمود نامی صارف کی رائے مختلف ہے۔ ان کے خیال میں اس گرفتاری کی مذمت کرنے والا رویہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے ارکان کے خاندانوں کو ٹی وی پر لائیو ٹرانسمیشن کے دوران دھمکیاں دیں۔‘

بسمہ کی رائے میں ’نہ تو یہ گرفتاری ناانصافی پر مبنی ہے اور نہ ہی یہ انھیں ہدف بنایا گیا ہے۔‘ انھوں نے اس گرفتاری کو 100 فیصد درست فیصلہ قرار دیا۔

ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اپنے ٹویٹ میں اس گرفتاری کو شرمناک قرار دیا۔ ان کی رائے میں اس وقت ملک میں فاشزم اپنی انتہا پر ہے۔

ان کے مطابق کسی کو ’منشی‘ یا کسی اور اصطلاح سے پکارنے پر گرفتاری کیسے ہو جاتی ہے۔ شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ ’دہشتگرد تو آزادی سے گھوم پھر رہے ہیں مگر سیاسی مخالفین گرفتار ہیں۔‘

اس ٹویٹ کے جواب میں ڈاکٹر اسامہ صدیقی نے شیریں مزاری کو مشورہ دیا کہ وہ پہلے فواد چوہدری کی پوری پریس کانفرنس تو سن لیں۔

وکیل احمد پنسوٹا کہتے ہیں کہ فواد کے خلاف الیکشن کمیشن پر تنقید کی بنا پر مقدمے کا اندراج ’طاقت کا استحصال اور اظہار رائے کی آزادی کو جرم قرار دینے کی سچی مثال ہے۔‘

انھوں نے اسے آئین کے آرٹیکل 19 کی بھی خلاف ورزی قرار دیا۔

ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

وکیل محمد احمد پنسوٹا نے لکھا کہ الیکشن کمیشن پر تنقید کرنے پر ایف آئی آر کا اندراج اختیار کا بے جا استعمال ہے اور یہ آزادی اظہار کو جرم کے طور پر پیش کرنے کی سچی مثال ہے۔

بطور وکیل وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت نے اس مقدمے کے ذریعے آئین کے متعدد آرٹیکلز کی خلاف ورزی کی ہے، جن میں آرٹیکل 10 اے، 14 اور 19 شامل ہیں۔

سماجی کارکن جلیلہ حیدر کہتی ہیں کہ ’ایک سیاسی کارکن کو ہتھکڑیاں لگا کر بے عزت کیا گیا جس کی مذمت ہونی چاہیے۔ ہمارے نظریات مختلف ہیں مگر سیاسی مخالفین کے ساتھ ناانصافی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ معاشی استحکام ہماری حکومت کی ترجیح کیوں نہیں۔‘

ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *