ہمالیہ میں واقع وہ پراسرار خفیہ وادیاں

ہمالیہ میں واقع وہ پراسرار خفیہ وادیاں

ہمالیہ میں واقع وہ پراسرار خفیہ وادیاں جو ’مشکل دور میں انسانیت کی پناہ گاہ‘ بنیں گی

خانقاہ کے دروازے کے باہر 7000 فٹ سے زیادہ بلند برفیلی چٹانوں کو دیکھتے ہوئے بدھ راہب نے مسکراتے ہوئے کہا ’یہی میرا گھر ہے۔ یہی میری جنت ہے۔‘

وہ واپس ان بچوں کی طرف متوجہ ہوئے جو ایک کلاس روم میں بدھ مت کے راہب بننے کی تربیت حاصل کر رہے تھے۔ میں نے اُن کا شکریہ ادا کیا، اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور خانقاہ سے باہر نکل آیا۔

میں تھامے نامی چھوٹے گاؤں سے بہت دور نکل چکا تھا۔

تبتی بدھ مت کے نیئنگما مکتبہ فکر کا قیام آٹھویں صدی میں ہوا اور یہ بدھ مت کے چار مختلف مکاتب فکر میں سے ایک ہے۔ بیول ایک ایسا مقام ہے جو اس مکتب فکر کے عقائد کا حصہ ہے جہاں مادی اور روحانی دنیائیں آپس میں ملتی ہیں۔

یہ وہاں جنت نما چھپی ہوئی وادیاں ہیں جن کا پتہ صرف اسی صورت میں ظاہر کیا جائے گا جب دنیا بے پناہ دباؤ میں ہو گی یا جنگ، قحط یا بیماری سے مکمل تباہی کے خطرے کے قریب ہو گی۔

خیال ہے کہ ایسے وقتوں میں بیول ایک غیر مستحکم دنیا میں پناہ گاہ بن جائے گا جہاں سب خوشی سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکیں گے۔

ہمالیہ اور بدھ مت کی ثقافت پر متعدد کتابیں لکھنے والی فرانسس کلیٹزل نے کہا ہے کہ ’دلائی (تبتی بدھ مت کے اساتذہ) کے لیے بیول ایک مقدس جگہ اور پناہ گاہ ہے۔ یہ ایسی جگہ ہے جو مشکل اور لڑائی کے وقتوں میں ان کی مدد کر سکتی ہے۔‘

فرانسس ’گائیٹی آف سپیرٹ، دی شرپاز آف ایورسٹ‘ نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ بیول میں ہر کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔ ایک ایسا بدھ مت کا پیروکار جس کا دل صاف ہو اور اس نے کڑے امتحان سے گزر کر مشکلیں جھیلی ہوں، صرف وہی بیول میں داخل ہو سکتا ہے۔

بدھ مت، نیپال، جنت

بدھ مت کے پیروکاروں کا ماننا ہے کہ اگر انھوں نے ان شرائط کو پورا کیے بغیر بیول میں داخل ہونے کی کوشش کی تو وہ ممکنہ طور پر مر بھی سکتے ہیں۔

ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے اور تبت کے علاقوں کے لیے گائیڈ بکس لکھنے اور باقاعدگی سے آنے کے باوجود مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ کچھ وادیاں اب تک خفیہ ہیں اور کوئی آفت آنے پر انھیں خوش نصیب افراد کے لیے کھولا جا سکتا ہے۔ تاہم میں نے فرانسس کلیٹزل سے بیول کے بارے میں مزید پوچھا۔

انھوں نے بتایا کہ بیول وادیوں کی بنیاد پدما سمبهو نے رکھی جو ایک بدھ گرو تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آٹھویں اور نویں صدیوں کے دوران انھوں نے تبت اور ہمالیہ کے گرد بدھ مت مذہب کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ہمالیہ میں اپنے سفر کے دوران پدماسمبهو کو احساس ہوا کہ مشکل حالات آئیں گے۔ انھوں نے اپنی روحانی طاقتوں کے ذریعے بعض وادیوں کو ’صاف‘ کر کے انھیں ’چھپا‘ دیا۔

ان وادیوں میں داخلے کے لیے انھوں نے محلِ وقوع اور باقاعدہ شرائط بھی درج کیں۔

ان نقشوں اور تحریری شرائط کو ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں غاروں، خانقاہوں اور آبشاروں کے پیچھے چھپا دیا گیا۔ پدماسمبهو نے طے کیا کہ ان تک صرف کوئی لامہ (بدھ مذہبی پیشوا) مخصوص حالات میں وہاں پہنچ سکتا ہے۔

کسی کو معلوم نہیں کہ بیول کی کل تعداد کیا ہے۔ تاہم 108 پر زیادہ تر لوگ متفق ہیں۔ کئی کی اب تک کھوج لگائی نہیں جا سکی ہے۔

کئی علاقے ہمالیہ کے جنوب میں واقع ہیں جو زیادہ سرسبز، نم اور زرخیز ہیں، یعنی تبت کے سخت اور مشکل حالات والے سطح مرتفع کے برعکس یہاں جنت کا سا ماحول ہے۔

کچھ بیول، جیسے شمال مشرقی انڈیا میں سکم اور نیپال میں ہیلمبو، رول ولنگ اور سم سے بدھ مت کے پیروکار صدیوں سے واقف ہیں۔ انھیں اب قصبوں اور دیہات میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بعض مقامات کا پتہ معلوم ہے مگر وہاں جانا اکثر کے لیے ناممکن ہے۔

بدھ مت، نیپال، جنت

یہ اس لیے ہے کہ بیول دنیاوی اور روحانی جگہ دونوں ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص جسمانی طور پر بیول میں ہوتے ہوئے بھی روحانی طور پر اس میں نہ ہو۔

کسی پوشیدہ سرزمین کا تصور پریوں کی کسی کہانی جیسا محسوس ہو سکتا ہے مگر واقعتاً ایسے کئی پرانے مسودے ملے ہیں جن میں بیولوں کی تفصیلات درج ہیں۔

بیول پیماکو اس کی ایک مثال ہے جو کہ شمال مشرق کی دور دراز انڈین ریاست اروناچل پردیش میں ہے۔ اس مقدس بیول کے راستے کے بارے میں لکھا گیا کہ یہ کچھ عرصے پہلے تک بھی دنیا کے نقشے سے غائب دنیا کی سب سے گہری گھاٹی یارلنگ سانگپو کے سب سے دشوار گزار حصے میں ایک آبشار کے پیچھے چٹان میں چھپا ہوا ہے۔

کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ وہاں کوئی آبشار ہے بھی یا نہیں مگر 90 کی دہائی کے اوائل میں بدھ سکالر ایئن بیکر کی قیادت میں ایک ٹیم نے اس علاقے تک رسائی حاصل کی جہاں اُنھیں واقعتاً گھاٹی کے اندر چھپی ہوئی ایک بلند و بالا آبشار ملی۔

ایئن بیکر نے بعد میں اپنے اس تجربے کے بارے میں اپنی کتاب ’دی ہارٹ آف دی ورلڈ‘ میں بھی لکھا تھا۔

جس طرح بیول دیومالائی کہانیاں معلوم ہوتے ہیں ویسے ہی ان افراد کے خوفناک اختتام کی کہانیاں بھی ماورائے عقل معلوم ہوتی ہیں جنھوں نے غلط وقت پر اس میں داخل ہونے کی کوشش کی یا ان کا دل اتنا پاک نہیں تھا جتنا کہ اُنھوں نے سوچا تھا۔

سنہ 1962 میں تبت کے ایک روحانی پیشوا تلشوک لنگپا نے دعویٰ کیا کہ اُنھیں بیول دیموشونگ تک لے جانے والا نقشہ مل گیا ہے جس کا دروازہ مبینہ طور پر دنیا کے تیسرے بلند ترین پہاڑ کنچنجنگا کی ڈھلوانوں میں کہیں تھا۔

وہ تقریباً 300 پیروکاروں کے ہمراہ اس پہاڑ تک گئے۔ اپنی کتاب ’اے سٹیپ اوے فرام پیراڈائز‘ میں تھامس کے شور نے لکھا کہ لنگپا سمیت کئی لوگوں کو ایسی تیز روشنیاں نظر آئیں جو ایک دروازے کی جانب ان کی رہنمائی کر رہی تھیں۔

مگر بیول میں داخل ہونے کے بجائے لنگپا واپس آ گئے تاکہ اپنے تمام پیروکاروں کو اکٹھا کر سکیں۔ بدقسمتی سے اس جنت نظیر وادی میں پہنچنے کی جادوئی حد پار کرنے سے پہلے تلشوک لنگپا سمیت زیادہ تر افراد ایک برفانی تودے کی زد میں آ کر مارے گئے۔

کچھ دیگر افراد کی کسی بیول میں داخل ہونے کی کوشش کامیاب بھی ہوئی ہے۔ شرپا انھی لوگوں میں سے ہیں۔ آج یہ ماہر کوہ پیما، پورٹرز اور ٹریکنگ گائیڈز نیپالی ہمالیہ پہاڑوں بالخصوص ماؤنٹ ایورسٹ سے خاصی قربت رکھتے ہیں۔

مگر یہ ہمیشہ سے ہی ایورسٹ کے جنوبی سائے تلے رہائش پذیر نہیں تھے۔ اپنی تاریخ کا بڑا حصہ وہ مشرقی تبت کے کھم خطے میں رہتے رہے ہیں جو آج چین کے سچوان صوبے کا حصہ ہے، مگر 15ویں صدی میں تبت میں وسیع پیمانے پر اتھل پتھل اور تنازعے نے شرپاؤں کی دنیا کو بھی متاثر کیا۔

بدھ مت، نیپال، جنت

اس وقت ایک تبتی بودھ پیشوا لامہ سنگیا دورجے نے فیصلہ کیا کہ کھمبو بیول میں جانے کا درست وقت آ گیا ہے۔

اُنھوں نے شرپاؤں کی قیادت کرتے ہوئے اُنھیں پانچ ہزار 716 میٹر بلند دشوار گزار پہاڑے درّے ننگپا لا سے گزارا۔ یہاں سے ہوتے ہوئے وہ ایسی سرزمین پہنچ گئے جہاں میٹھے پانی کی بہتات تھی۔ یہاں وہ فصلیں اگا سکتے تھے اور اپنے یاک چرا سکتے تھے۔

شرپا کھمبو میں آ پہنچے تھے جو ماؤنٹ ایورسٹ کی نیپالی جانب موجود علاقے کو دیا گیا نام ہے، اور جس جگہ سے وہ آئے تھے اس کے مقابلے میں یہ جگہ بلندی پر واقع ایک جنت ہی تھی۔

اب کھمبو خطے میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں بین الاقوامی سیاح آتے ہیں جو مشہورِ زمانہ ایورسٹ بیس کیمپ کی ہائیک کرتے ہیں۔ مگر میں جن لوگوں سے ملا ان میں سے شاید ہی کسی شخص کو یہ معلوم تھا یا اس بات میں دلچسپی تھی کہ وہ ایک بیول میں تھے۔

مگر کھمبو خطے کے کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں بیول کی فضا اور احساس قائم ہے۔ ایک تیکھی اور درختوں سے ڈھکی ڈھلوان پر واقع لاوودو گومپا کو نیپال کی بھوٹ کوشی ندی وادی کا سب سے مقدس مقام سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایورسٹ کے بیس کیمپ سے دو وادی دور ہی ہے۔

اس گومپا (تبتی خانقاہ) میں 50 برس سے رہائش پذیر 82 سالہ راہبہ داوا سنگیے شرپا کہتی ہیں کہ ’زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ کھمبو میں صرف چار وادیاں ہیں مگر یہ سچ نہیں ہے۔‘

میں جیسے ہی ان کے پاس پہنچا وہ اسی وقت چائے اور بسکٹ لے آئی تھیں اور وہ کھمبو بیول سے لاوودو کے تعلق کے بارے میں بات کرنے کے لیے بھی فوراً تیار ہو گئیں۔

اُنھوں نے کہا: ’گومپا کے پیچھے ایک اونچی چٹان ہے جسے درگ کرما کہا جاتا ہے اور اس چٹان میں ایک راستہ ہے جو ایک خفیہ پانچویں وادی تک جاتا ہے۔ وہی بیول کا دل ہے۔‘

بدھ مت، نیپال، جنت

جب میں نے پوچھا کہ کیا میں وہ چٹان دیکھ سکتا ہوں تو داوا سنگیے مسکرائیں اور اپنا سر ہلانے لگیں۔ ’مگر میں آپ کو کچھ اور دکھاتی ہوں۔‘

وہ مجھے عبادت کے مرکزی کمرے کے پیچھے لے گئیں اور وہاں اُنھوں نے ایک چھوٹا دروازہ کھولا تو ایک معلق چٹان کے نیچے اور اندر بنا ہوا ایک کمرہ سامنے آ گیا۔

چٹان کی چھت کو گرمیوں کے نیلے آسمان کا رنگ دیا گیا تھا اور کمرے کے آخر میں پدماسمبھو کی ایک مورتی رکھی تھی۔ مورتی کے قدموں میں عقیدت مندوں کی جانب سے چڑھاوے رکھے گئے تھے جن میں رائل بریٹینیکا بسکٹس، نوڈلز کا ایک پیکٹ اور کچھ خشک پھول تھے۔

’یہی وہ جگہ ہے جہاں پدماسمبھو نے مراقبہ کیا اور جہاں اُنھوں نے کھمبو کو اپنی دعا سے بیول میں تبدیل کر دیا۔‘

حالانکہ میں بدھ نہیں ہوں مگر پھر بھی میں اس غار کی دیواروں پر ہاتھ پھیر پھیر کر حیران ہوتا رہا۔

شاید میری مسکراہٹ دیکھ کر وہ کہنے لگیں کہ مجھے وادی میں اور اوپر جا کر تھامے نامی گاؤں جانا چاہیے۔ یہ اس جگہ واقع ہے جہاں زرعی زمینیں یاکس کی بلند پہاڑی چراگاہوں میں بدل جاتی ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ تھامے خانقاہ کو کھمبو کی قدیم ترین خانقاہوں میں سے ایک اور بے حد روحانی اہمیت کی حامل تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کھمبو بیول کا روحانی قلب ہے۔

لاوودو سے تھامے تک کا پیدل پہاڑی راستہ چٹانوں سے بل کھاتا ہوا نیچے اُترتا ہے اور بلند و بالا پہاڑی چوٹیوں کی وجہ سے ایک بننے والی گھاٹی کے ساتھ ساتھ گزرتا ہے۔ پھر اچانک ہی سامنے ایک وسیع و عریض وادی آ جاتی ہے جس کے آخری کونے پر تھامے گاؤں ہے۔

تھامے خانقاہ میں عبادت کے مرکزی کمرے کے دروازے کو دھکا دے کر میں اندر داخل ہوا تو میں نے تین عمر رسیدہ راہبوں کو دیکھا جو پیلاہٹ مائل صفحات پر تحریر الفاظ زور زور سے پڑھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے اپنے قریب موجود بینچ پر بیٹھنے کے لیے کہا۔

بدھ مت، نیپال، جنت

اُنھوں نے مجھے دبی دبی آواز میں بتایا: ’کبھی کبھی جب ہم یہاں دعائیں پڑھ رہے ہوتے ہیں تو پدماسمبھو ہمیں نظر آتے ہیں۔‘

وہ کہنے لگے کہ پدماسمبھو کی روح اُن سے کہتی ہیں کہ وہ جو کام کر رہے ہیں اور جو دعائیں کر رہے ہیں اس سے دنیا کے لیے اچھائی پیدا ہو رہی ہے۔

کچھ دیر بعد میں ایک اور کمرہ جماعت کے دروازے سے گزرا جہاں بدھ راہب نے کہا تھا کہ ’یہی میرا گھر ہے۔ یہ میری جنت ہے۔‘

ہمالیاؤں میں چاہے پوشیدہ وادیاں ہوں یا نہیں، یہ واضح تھا کہ ان راہبوں کو اپنے سکون کی جگہ مل چکی تھی۔

جب میں نکلا تو مجھے وہ بات یاد آئی جو سفر کی شروعات سے قبل کلیٹزل نے مجھے کہی تھی: ’بیول ایک جگہ سے کہیں زیادہ ہے، یہ ذہنی کیفیت ہے۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’بیول ہمیں ایک پرسکون اور مستحکم ذہنی حالت کی پرورش کر کے آگے موجود مشکلات کی تیاری کرنے کی یاددہانی کرواتے ہیں تاکہ ہمارا ذہن ہمارا اندرونی بیول، ہماری اندرونی خانقاہ بن سکے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *