پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک

پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک

پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک ’داؤد فیملی‘ کون ہے؟

داؤد فیملی کے کاروبار کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک یتیم نوجوان احمد داؤد نے پتھارے پر کپڑے کے تھان لگانا شروع کیے اور پھر بمبئی میں یارن کی دکان کھولی۔

داؤد فیملی کا نام گذشتہ دنوں سے ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں زیر گردش ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹائٹن آبدوز کے حادثے میں جن پانچ مسافروں کی ہلاکت ہوئی ان میں سے دو کا تعلق اسی خاندان سے ہے۔

شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان اس آبدوز میں سوار تھے جو تفریحی مقاصد کے لیے بحر اوقیانوس میں ڈوبے جہاز ٹائٹینک کا ملبہ دکھانے کے لیے سمندر کی گہرائیوں میں گئی۔ مگر حکام کے مطابق اس دورے پر زیر آب دباؤ کی وجہ سے آبدوز دھماکے کا شکار ہوئی اور اس میں سوار پانچ مسافر ہلاک ہوگئے۔

داؤد فیملی کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے۔ شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین تھے۔ یہ کمپنی کھاد، کھانے پینے کی اشیا اور توانائی کے شعبے میں کام کرتی ہے۔

مگر داؤد فیملی کا کاروبار ملک کے اندر اور باہر وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے جس کے علاوہ یہ خاندان صحت اور تعلیم جیسے سماجی کاموں میں بھی حصہ لیتا ہے۔

احمد داؤد
احمد داؤد نے 20ویں صدی کے اوائل میں پتھارے پر کپڑے کے تھان اور بمبئی میں یارن کی دکان کھولنے سے داؤد خاندان کے کاروبار کا آغاز کیا

داؤد فیملی نے پتھارے پر کپڑے کے تھان لگا کر کاروبار شروع کیا

پاکستان کے سب سے بڑے صنعت کاروں میں شامل داؤد فیملی نے 20ویں صدی کے اوائل میں ایک پتھارے سے کاروبار کا آغاز کیا اور چند دہائیوں میں اس خاندان کا شمار خطے کے امیر ترین گھرانوں میں ہونے لگا۔

آج اس خاندان کی کئی درجنوں صنعتیں و تجارتی ادارے ہیں۔ ان کا کاروبار پاکستان سے برطانیہ تک پھیلا ہوا ہے۔

داؤد فیملی کے سربراہ احمد داؤد کی پیدائش 1905 میں انڈیا کے صوبے کاٹھیاواڑ کے علاقے بانٹوا میں ہوئی۔ ان کے والد تاجر تھے۔ انھوں نے صرف تین جماعتوں تک تعلیم حاصل کی تھیں۔ بچپن میں ہی والد کی وفات ہوگئی جس کے بعد ان کی پروش کی ذمہ داری دادا پر آگئی۔

’احمد داؤد ایک پیکر اوصاف‘ نامی کتاب کے مصنف عثمان باٹلی والا لکھتے کہ احمد داؤد نے 16 سال کی عمر میں پتھارے پر کپڑے کے تھان لگا کر اپنے کاروبار کا آغاز کیا جبکہ داؤد انویسٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق یتیم نوجوان احمد داؤد نے 1920 میں بمبئی میں یارن کی دکان کھولی تھی۔

عثمان باٹلی والا، جو احمد داؤد سے متعدد ملاقاتیں کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ سیٹھ احمد بتاتے تھے کہ ان کی والدہ ذہین اور سمجھدار خاتون تھیں۔ وہ اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں جس کی وجہ سے انھیں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا رہا۔

میمن شخصیات پر کتاب کے مصنف عمر عبدالرحمان لکھتے ہیں کہ انھوں نے کاٹن جننگ پریسنگ فیکٹری کے علاوہ تیل کی مِل اور ویجیٹیبل آئل کی فیکٹری قائم کی اور دیکھتے ہی دیکھتے داؤد فیملی کے دفاتر اور ان کی شاخیں کلکتہ، مدراس، کانپور، متھورہ، لدھیانہ اور دلی وغیرہ میں پھیل گئیں۔

عثمان لکھتے ہیں کہ جب انھوں نے خوردنی تیل کا کارخانہ لگایا تو پھر ان کے کاروبار میں وسعت آئی اور یہ کامیابی سے چل پڑا۔ اس کاروبار میں ان کے بھائی سلیمان داؤد، علی محمد داؤد، صدیق داؤد اور ستار داؤد بھی شریک رہے۔

برصغیر کے بٹوارے اور قیام پاکستان کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے جہاں کچھ عرصہ رہے۔ بعد میں وہاں سے پاکستان آ گئے۔ انھوں نے مانچسٹر اور پاکستان میں داؤد پرائیوٹ لمیٹڈ کے نام سے کمپنی قائم کی۔

پاکستان میں فوجی جرنیلوں کے ابتدائی ادوار اور داؤد خاندان

پاکستان کے فوجی ادوار داؤد فیملی کے لیے سازگار رہے، پھر چاہے فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت ہو یا جنرل ضیالحق کی۔

عثمان باٹلی والا لکھتے ہیں کہ احمد داؤد نے پاکستان میں کاٹن کی بروکری شروع کی۔ ایوب خان کے دور حکومت میں کراچی میں اور بورے والا میں ٹیکسٹائل فیکٹریاں غیر فعال ہوگئیں جو سرکاری ادارے پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) کے زیر انتظام تھیں لیکن وہ انھیں چلا نہیں پا رہے تھے۔

لہذا ایوب خان کو مشورہ دیا گیا کہ اگر یہ فیکٹریاں احمد داؤد کو دی جائیں تو اچھا پرفارم کریں گی۔ انھیں یہ پیشکش کی گئی تو انھوں نے اور ان کے بھائیوں نے اس کو قبول کر لیا۔ کتاب میں لکھا ہے کہ حالیہ نجکاری کے طریقہ کار کے مطابق ماضی میں اس کام کے لیے کوئی بولی وغیرہ نہیں لگی نہ نیلامی ہوئی۔ فیکٹریاں انھیں سپرد کی گئیں اور انھوں نے رقم ادا کی۔ اس سے قبل ان کے پاس لانڈھی میں داؤد کاٹن ملز موجود تھیں جو 1952 سے کام کر رہی تھی۔

مغربی پاکستان کے بعد وہ مشرقی پاکستان میں بھی قسمت آزمانے چلے گئے۔ یہ موقع بھی ایوب خان حکومت میں انھیں میسر ہوا۔ وہاں کرنافلی پیپر ملز اور کرنافلی ٹیکسٹائل ملز مزدوروں کے احتجاج اور دیگر معاملات کی وجہ سے غیر فعال ہوچکی تھیں۔

عثمان باٹلی والا کے مطابق نواب آف کالا باغ نے سیٹھ احمد کو پیشکش کی کہ ان کو خرید لیں، انھوں نے اس کو قبول کیا اور محنت کی تو یہ بحال ہوگئیں۔ پیپر ملز اس وقت پاکستان کی واحد مل تھی جس میں بانس سے پیپر بنایا جاتا تھا۔

17 جنوری 1969 میں نیویارک ٹائمز نے اپنی اشاعت میں احمد داؤد فیملی کو پاکستان کا دوسرا سب سے امیر خاندان قرار دیا جس کے اثاثوں کی مالیت اس وقت 200 ملین ڈالرز تھی۔ ان کے پاس کاٹن، وولن، ٹکسٹائل، یارن، کیمکلز، مائننگ، بینکنگ، انشورنس، پیپر اور فرٹیلائزر کے کارخانے تھے۔

1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ سے کرنافلی پیپر ملز، داؤد مائننگ، داؤد شپنگ سمیت کئی کارخانے اور کاروبار متاثر ہوئے۔ عثمان باٹلی والا بتاتے ہیں کہ ان دنوں ان کے نقصان کا تخمینہ 30 سے 35 کروڑ روپے لگایا گیا تھا۔

داؤد فیملی، پیپر ملز
1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ سے کرنافلی پیپر ملز سمیت داؤد فیملی کے کئی کارخانے اور کاروبار متاثر ہوئے

’پاکستان کے امیر ترین‘ بائیس خاندان اور داؤد فیملی

فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں ڈاکٹر محبوب الحق نے بجٹ تقریر کے دوران انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کی ’60 سے 80 فیصد دولت پر صرف 22 خاندان قابض ہیں‘ تاہم انھوں نے ان خاندانوں کے نام نہیں بتائے تھے۔

تاہم اس معاملے نے ایک مزاحمتی عنصر کو جنم دیا اور پاکستان کے عوامی شاعر حبیب جالب نے لکھا کہ:

بیس گھرانے ہیں آباد، اور کروڑوں ہیں ناشاد

ہم پر اب تک جاری ہے، کالی صدیوں کی بے داد

صدر ایوب زندہ باد۔

ذوالفقار علی بھٹو سوشلزم کے نعرے کے ساتھ جب برسرِ اقتدار آئے تو انھوں نے ان خاندانوں کی نشاندہی کی اور متنبہ کیا کہ اس وقت پاکستان کو سرمائے کی ضرورت ہے، لہذا یہ خاندان اپنا سرمایہ واپس لائیں ورنہ وہ انھیں گرفتار کر لیں گے۔

بعد میں انھوں نے داؤد فیملی سمیت کئی خاندانوں کی املاک کو قومی تحویل میں لے لیا، یعنی انھیں نیشنلائز کر دیا۔

عثمان باٹلی والا کے مطابق ان بائیس خاندانوں میں سے 14 میمن گھرانے تھے اور داؤد فیملی دوسرے نمبر پر تھی۔ اس عرصے میں سیٹھ داؤد کو نظر بند کر دیا گیا اور جب وہ رہا ہوئے تو امریکہ چلے گئے۔ خیال ہے کہ اس وقت انھیں ’دو ارب روپے کا نقصان‘ ہوا تھا۔

احمد داؤد نے امریکہ میں آئل ایکسپلوریشن کمپنی کے ساتھ کاروبار کا آغاز کیا اور ایک جگہ ڈریلنگ کی تو وہاں سے پیٹرول نکل آیا اور ان کے اچھے دن دوبارہ آگئے جب پاکستان میں جنرل ضیا الحق بھٹو کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر قابض ہوگئے۔

اس دور میں احمد داؤد واپس پاکستان آگئے اور ان کی صنعتوں اور سرمایہ کاری کا دوبارہ آغاز ہوگیا۔ خیال ہے کہ ان کے جنرل ضیا الحق کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔

عثمان باٹلی والا کے مطابق ان کے 20 ایسے منصوبے تھے جو انھوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بھائیوں سلیمان داؤد، علی محمد داؤد، صدیق داؤد اور ستار داؤد میں تقیسم کیے اور ہر ایک کے حصے میں صنعتیں آئیں جن کو انھوں نے آگے بڑھایا۔

احمد داؤد، ضیا الحق
احمد داؤد کے فوجی صدر جنرل ضیا الحق کے ساتھ اچھے تعلقات تھے

داؤد فیملی کے اہم عہدیدار

داؤد فاونڈیشن کے سربراہ اس وقت احمد داؤد کے بیٹے حسین داؤد ہیں۔

پاکستان میں داؤد خاندان کا ایک اور معروف نام رزاق داؤد ہیں جو سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں مشیر تجارت رہے اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بھی وزارت تجارت کا قلمدان ان کے پاس تھا۔

رزاق داؤد سلیمان داؤد کے بیٹے ہیں جو احمد داؤد کے بھائی تھے۔ رزاق داؤد ڈسکن انجیئنرنگ کمپنی کے مالک ہیں۔

دوسری جانب شہزادہ داؤد کے والد حسین داؤد اور ان کا خاندان اینگرو کارپوریشن اور داؤد ہرکولیس کارپوریشن کے مالک ہیں۔

ٹائٹن حادثے میں ہلاک ہونے والے شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین تھے۔

رزاق داؤد
رزاق داؤد ڈسکن انجیئنرنگ کمپنی کے مالک اور سابق وزیرِ تجارت ہیں

اینگرو اور داؤد ہر کولیس کارپوریشن

کاروباری اداروں کی کارکردگی اور ان کی ریٹنگ پر کام کرنے والے ادارے پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی (پاکرا) کے جائزے کے مطابق اینگرو کارپوریشن کی بنیاد 1965 میں رکھی گئی تاہم اس وقت اس کا نام ایسو پاکستان فرٹیلائزر کمپنی تھا جو ماڑی گیس فیلڈ کی دریافت پر قائم کی گئی تھی۔

غیر ملکی شراکت داروں کے نکلنے کے بعد اس کا نام اینگرو کیمیکل کر دیا گیا جو فرٹیلائزر کے شعبے میں کام کر رہی تھی اور دوسرے شعبوں میں داخل ہونے کے بعد اس کا نام اینگرو کارپویشن رکھ دیا گیا جس کے تحت دس سے زائد کمپنیاں کام کرتی ہیں۔

اینگرو کارپوریشن پاکستان سٹاک مارکیٹ پر لسٹڈ کمپنی ہے جس میں اکثریتی حصص داؤد فیملی کے اداروں اور افراد کے ہیں۔ شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے وائس چیئرمین تھے جبکہ ان کے والد حسین داؤد اس کے چیئرمین ہیں۔ شہزادہ داؤد کے بھائی صمد داؤد اس کے ڈائریکٹر ہیں۔

حسین داؤد اور ان کے خاندان کی دوسری بڑی کمپنی داؤد ہر کولیس کارپوریشن ہے جو اینگرو کارپوریشن میں بھی حصص رکھتی ہے۔

داؤد ہرکولیس کارپوریشن کے چیئرمین حسین داؤد ہیں جبکہ ان کے بیٹے حسین داؤد اس کے وائس چیئرمین ہیں اور شہزادہ داؤد اس کے ڈائریکٹر تھے۔

اگرچہ حسین داؤد اور ان کے خاندان کی ملکیتی اینگرو کارپوریشن اور داؤد ہر کولیس کارپوریشن سٹاک مارکیٹ پر لسٹڈ کمپنیاں ہیں جس میں عام عوام کے علاوہ اداروں کے بھی حصص ہیں تاہم ان کے اکثریتی حصص داؤد فیملی کے پاس ہی ہیں۔

پاکرا کے مطابق اینگرو کارپوریشن کے بورڈ میں سپانسرنگ فیملی یعنی داؤد خاندان کے افراد غالب ہیں۔

 شہزادہ داؤد، سلیمان
ٹائٹن حادثے میں ہلاک ہونے والے شہزادہ داؤد (دائیں جانب) اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین تھے

پاکستان میں داؤد خاندان کی کمپنیاں اور اثاثے

حسین داؤد اور ان کے بچے داؤد ہرکولیس کارپوریشن اور اینگرو کارپوریشن میں اکثریتی حصص مالک ہیں۔ یہ دونوں کارپوریشن معیشت کے مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔

داؤد ہر کولیس گروپ کی سالانہ رپورٹ ک مطابق یہ گروپ اپنی مختلف ایسوسی ایٹ کمپنیوں اور ذیلی اداروں کے ذریعے سرمایہ کاری کرتا ہے۔ جیسے اینگرو فرٹیلائرز میں اینگرو کارپویشن کے 56 فیصد حصص ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2022 سے لے کر اب تک یہ گروپ توانائی، فوڈ اینڈ ایگری کلچر، پیٹرو کیمیکل، کیمیکل سٹوریج، قابل تجدید توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل شعبوں میں سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔

’اینگرو ایگزمپ ایگری‘ میں کارپویشن سو فیصد حصص کی مالک ہے۔ اینگرو انرجی ٹرمینل میں اس کے 56 فیصد حصص ہیں جبکہ اینگرو انرجی لمٹیڈ میں یہ سو فیصد حصص کی مالک ہے جس کے تحت اینگرو پاور جن قادر پور اور اینگرو پاور جن تھر پاور پلانٹس ہیں۔

جبکہ سندھ حکومت کی اینگرو کول مائئگ کمپنی میں حسین داؤد کے خاندان کی ملکیت اینگرو کارپوریشن گیارہ فیصد حصص کی مالک ہے۔ کمپنی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اسی طرح کیمیکل کے شعبے میں اینگرو پولیمر اینڈ کیمیکل میں کارپوریشن 56 فیصد حصص کی مالک ہے۔

اینگرو کارپوریشن کی ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق یہ مجموعی طور پر تقریباً 750 ارب روپے کے اثاثوں کی مالک ہے۔

اینگرو کارپویشن کے 2022 کے سالانہ مالیاتی گوشواروں کے مطابق اس نے پورے سال میں 46 ارب روپے کا منافع کمایا۔ داؤد ہر کولیس کارپوریشن کے سالانہ مالیاتی نتائج کے مطابق اس کا 2022 میں منافع ساڑھے تین ارب روپے سے زائد رہا۔

سالانہ رپورٹ کے مطابق داؤد ہرکولیس کارپوریشن مختلف شعبوں میں دو ہزار سے زائد افراد کو ملازمت دی رہی ہے جبکہ دوسری جانب اینگرو کارپویشن کی مختلف کمپنیوں میں کام کرنے والے افراد کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے زائد ہے۔

اینگرو کارپوریشن کے مطابق اس نے سنہ 2022 میں سماجی شعبے میں 84 کروڑ روپے خرچ کیے جن میں صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر، ماحولیات کی بہتری وغیرہ شامل ہیں۔

کارپوریشن کے مطابق اس نے حکومت کو ٹیکس کی مد میں 2022 میں ساڑھے 29 کروڑ ڈالر جمع کرائے جبکہ اس کی ذیلی کمپنی اینگرو انرجی نے ملک کے نوے لاکھ افراد کے گھر میں توانائی کی ضرورت پوری کی۔

پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے مطابق داؤد گروپ کے ملکیتی ادارے اینگرو کارپویشن کی کارکردگی مسلسل بہتر رہی ہے۔ اس کی لانگ ٹرم کارکردگی پلس اے اے ہے اور اس کا آؤٹ لُک (مجموعی حالت) مستحکم ہے۔

داؤد فیملی
داؤد فیملی کے سماجی کاموں میں ٹی ڈی ایم گھر اور ایس آئی یو ٹی ہسپتال شامل ہیں

داؤد خاندان کی تعلیم، سائنس اور صحت کے شعبوں میں خدمات

پاکستان میں 1961 میں داؤد فاؤنڈیشن قائم کی گئی جس کا افتتاح جنرل ایوب خان نے کیا تھا۔ داؤد فیملی نے تعلیم کے فروغ پر توجہ دی۔

فاونڈیشن کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیٹھ احمد خان نے بتایا تھا کہ مشرقی پاکستان کے شہر میسور میں انھوں نے سکول کی عمارت قائم کی ہے، اس کے ساتھ بورے والا میں گورنمنٹ کالج میں سائنس بلڈنگ کی تعمیر کرائی گئی اور کراچی کے دیہی علاقے درسانو چھنو میں سکول تعمیر کیا گیا۔

داؤد فاونڈیشن نے 1962 میں کراچی میں داؤد کالج آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی قائم کیا جو پاکستان کے نجی شعبے میں انجینیئرنگ کی تعلیم فراہم کرنے والا پہلا پروفیشنل کالج تھا۔ یہاں کیمیکل انجینیئرنگ، میٹالرجی اور میٹریلز انجینیئرنگ کے شعبوں میں تعلیم دی جاتی تھی۔

بعد میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت میں اس کو نیشنلائز کر دیا گیا اور اس کا کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس آگیا۔

کراچی میں 1983 کے دوران احمد داؤد گرلز پبلک سکول کی بنیاد رکھی جو اس وقت بھی فاونڈیشن کے زیر انتظام ہے جہاں 2500 سے زیادہ لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ لمس لاہور، کراچی یونیورسٹی میں بھی داؤد فیملی کے نام سے بزنس سکول موجود ہیں۔

کراچی میں 1991 سے قائم پاکستان میں گردوں کے سب سے بڑے ہسپتال انسٹیٹوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ یعنی ایس آئی یو ٹی میں بھی داؤد فیملی کا بڑا کردار ہے۔

ایس آئی یو ٹی کے ڈاکٹر گوہر کے مطابق بشیر داؤد انھیں اربوں روپے کے عطیات کر چکے ہیں جن سے تین بڑی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ یہاں بچوں اور کینسر کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈائلاسز اور ٹرانسپلانٹ کی مشنری کی خریداری میں بھی معاونت کی جاتی ہے۔

سائنس کے فروغ کے لیے کراچی میں اپنی نوعیت کا پہلا سائنس میوزیم قائم کیا گیا۔ میگنیفائی سائنس نامی اس میوزیم میں سائنس کی نمائشیں اور تعلیمی پروگرام بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔

ریلوے کے گودام کو تین منزلہ سائنسی میوزیم میں تبدیل کیا گیا ہے جہاں سائنس، فزکس اور ریاضی کی تھوریز کے حوالے سے تجربات اور مشقیں کی جاتی ہیں۔

داؤد فاونڈیشن نے کراچی میں پبلک سپیس کے فروغ کے لیے ٹی ڈی ایف گھر بنایا۔ 1930 میں تعمیر کیے گئے اس گھر میں کراچی کی تاریخ اور پرانی یادوں سے وابستہ فرنیچر، گراموں فون سمیت دیگر اشیا موجود ہیں اور یہاں سے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے مزار کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

ٹی ڈی ایف گھر کراچی میں متوسط طبقے کے لیے بنائی گئی پہلی کوآپریٹو سوسائٹی جمشید کواٹرز میں واقع ہے جو کراچی کی ثقافتی تاریخ کا اہم حصہ رہی ہے۔

اس سوسائٹی کی بنیاد 1920 میں جمشید نسروانجی نے رکھی تھی اور یہاں مسلمان، ہندو، مسیحی، پارسی اور یہودی ساتھ ساتھ رہتے تھے۔

احمد داؤد
ایون خان کا دورۂ امریکہ: احمد داؤد اور امریکی صدر آئزن ہاور

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *