محمد حنیف کا کالم اسد عمر نبیل گبول

محمد حنیف کا کالم اسد عمر نبیل گبول

محمد حنیف کا کالم اسد عمر نبیل گبول اور ہماری بےعزتی پروف اشرافیہ

اگر آپ کی کبھی بےعزتی ہوئی ہے اور آپ کو محسوس بھی ہوئی ہے تو آپ اشرافیہ نہیں ہیں۔ اگر اس بےعزتی کو اپنی عزت اور عوام کی خدمت کے بیانیے میں نہیں بدل سکتے تو آپ کا کچھ نہیں ہو سکتا، آپ کبھی اشرافیہ بن ہی نہیں سکتے۔

پچھلے ہفتے دو معروف سیاستدانوں کی سرعام بےعزتی ہوئی۔ دونوں کو لگا جیسے انھیں میڈل مل رہے ہوں۔

اسد عمر پی ٹی آئی میں عمران خان کے بعد نوجوانوں کے آئیڈیل تھے۔ ایک ہی رات تھانے میں گزار کر پارٹی میں اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ کسی عدالت میں عمران خان نے انھیں دیکھا، کوئی لفٹ نہیں کرائی۔

اب وہ ٹی وی انٹرویوز میں کہتے پھرتے ہیں کہ میں تو خان صاحب کو بہت سمجھاتا تھا اور اب بھی اگر خان صاحب خود فیصلہ کر کے علیحدہ ہو جائیں تو شاید پھر۔۔۔ ویسے مجھے اور بھی پارٹیوں سے آفر ہے۔

دوسرے سیاست دان نبیل گبول ہیں۔ میں نے کبھی کسی لیاری کے نوجوان سے یہ نہیں سنا کہ نبیل گبول ہمارے آئیڈیل ہیں۔

وہ بھی کراچی کے میئر کی حلف برداری کی تقریب میں بلاول بھٹو کے قریب ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھوں نے نہ صرف بے اعتنائی دکھائی بلکہ کچھ ہاتھ کا ایسا اشارہ بھی کر دیا جسے کراچی میں کہتے ہیں ابے چل تو ہے کون؟

نبیل گبول کو شاید ٹی وی والے زیادہ لفٹ نہیں کراتے تو انھوں نے ایک ویڈیو ریکارڈ کر کے ہمیں بتایا کہ جسے بےعزتی کہہ رہے ہیں وہ تو میں لیاری کے عوام کا درد لے کر بلاول بھٹو کے پاس گیا تھا اور انھوں نے تو اصل میں میری عزت افزائی کی ہے۔

اس کو شاید کہتے ہیں اپنا بیانیہ بنانا۔ کچھ سالوں سے یہ لفظ بیانیہ ہماری صحافت میں بہت مستعمل ہے۔ پہلے مجھے اس کا مطلب سمجھ نہیں آتا تھا۔ اب آنے لگا ہے کہ تاریخ، سیاست، شعور کوئی معنی نہیں رکھتے، جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے کہانی کیا گھڑی ہے۔

اپنے کرتوت ٹھیک نہ کرو، بس بیانیہ بدل لو، بالکل ایسے ہی جیسے بچے کی نیپی بدلی جاتی ہے۔

بیانیے کی طاقت کا اس بات سے اندازہ لگائیں کہ جو چوہدری پرویز الہی کہتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی نیپی بدلتی ہے وہ پی ٹی آئی کے صدر ہیں اور جیل میں بھی ہیں۔

پاکستان

اب پتہ نہیں وہاں سے کیا بیانیہ لے کر آئیں گے۔ ویسے نو مئی کے بعد یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ آپ کا بیانیہ کتنا ہی تگڑا ہو، ڈنڈا آخر ڈنڈا ہی ہوتا ہے۔

جب اسد عمر نے پی ٹی آئی جوائن کی تھی تو عمران خان سب کو بتاتے تھے کہ دیکھو ایک کارپوریٹ جوان جو مہینے کے کروڑوں کماتا تھا، اپنی اینگرو والی نوکری پر لات مار کر تبدیلی کے ہراول دستے میں شامل ہو گیا ہے۔

اینگرو کے بھائی لوگ کہتے ہیں کہ اسد عمر بورڈ روم کا چیتا رہا ہو گا، لیکن کمپنی کا کافی نقصان کر کے گیا۔

مجھے اس پر زیادہ یقین نہیں کیوں کہ سیٹھ، جنرلوں اور ججوں کے بچوں کو اپنے دھندے پھیلانے کے لیے نوکریاں تو دے دیتے ہیں لیکن کبھی اپنا نقصان نہیں کرتے۔

اسد عمر بورڈ روم کے چیتے تو تھے ہی میڈیا میں بھی چیتے ثابت ہوئے۔ ہمیں بتاتے رہے کہ دن کا آغاز سٹرنگز کے ملی نغمے سن کر اپنے آپ کو موٹی ویٹ کرتا ہوں اور یہ معیشت وغیرہ، حکومت چلانا کوئی سائنس نہیں، عشق کا کام ہے۔

عشق کا پہلا امتحان آیا تو ہاتھ جوڑ کر فرما دیا میں دودھ پینے والا عاشق ہوں، مجھے وہ قربانی دینے والا عاشق کیوں سمجھ رہے ہو۔

اسد عمر

اگر وہ جدی پشتی اشرافیہ نہ ہوتے تو شاید شرمسار ہوتے کیوں کہ پی ٹی آئی کے جو نوجوان ان کی صورت میں پاکستان کا ایک کارپوریٹ اور روشن مستقبل دیکھ رہے تھے وہ انھیں بھگوڑا کہتے ہیں۔

اشرافیہ ویسے بھی نسلی ہوتی ہے۔ خدا بھلا کرے ڈان اخبار کے اس سب ایڈیٹر کا جس کی ڈیوٹی ہے کہ وہ آج کے دن پچاس سال پہلے کیا ہوا تھا بتائے۔ اکثر پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یا اللہ پچاس سال پہلے بھی یہی ہو رہا تھا جو آج ہو رہا ہے۔

گذشتہ سال اسد عمر کے والد جنرل عمر کا پچاس سال پہلے والا معافی نامہ چھپا ہوا تھا۔ عام طور پر والدین کو ان معاملات میں نہیں گھسیٹنا چاہیے لیکن اشرافیہ تو خاندانی ہوتی ہے اور اگر اشرافیہ میں بچے کا باپ گناہ کر کے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے معافی مانگ لے تو اس کا فائدہ بھی اگلی نسلوں کو ہی ہوتا ہے۔ اولاد کو یہ بھی نہیں بتانا پڑتا کہ میرے ابا نے معافی کس بات پر مانگی تھی۔

نبیل گبول بھی گذشتہ سال شہرت کے شوق میں انٹرویو دیتے ہوئے ریپ کے مزے کے بارے میں اپنی فلاسفی بیان کرتے پائے گئے تھے۔ شور اٹھا تو کہا کہ یہ تو پی ٹی آئی والے مجھے بدنام کر رہے ہیں۔

اس سے پہلے جوگر پہن کر ہانپتے کانپتے بنی گالہ چڑھے تھے اور عمران خان، جس نے اعجاز الحق کو بھی آخر پارٹی میں لے لیا تھا اور شاید ہی کبھی کسی کو نہ لیا ہو، کہا کہ نہیں تو نہیں چاہیے۔

نبیل گبول بھی کراچی کی قدیم اشرافیہ ہیں۔ انھوں نے کوئی بےعزتی محسوس نہیں کی اور لیاری کے عوام کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔

پاکستان

ہماری صحافی برادری کی بھی اشرافیہ ہے اور زیادہ تر سیلف میڈ ہے۔ کچھ سنا ہے اتنی تنخواہیں لیتے ہیں جتنی اسد عمر لیتا تھا۔

ہمارے صحافی برادری کی اشرافیہ کے بھی سب سے بڑے نے ویڈیو پیغام دیا ہے کہ جو ملک میں سرمایہ کاری کی سہولت کے لیے نئی کمپنی بنی ہے اور جس میں خصوصی طور پر ہمارے سپہ سالار شامل ہوئے ہیں، اس کے بعد ہمارے حالات بدلنے والے ہیں، ہمارے سارے دوست ممالک ڈالروں کی بوریاں لے کر پہنچا ہی چاہتے ہیں۔

انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ خود آئیں گے یا انھیں ویگو میں اٹھا کر لایا جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ جب یہ ہو جائے گا تو ہم سب کہیں گے جنرل عاصم منیر زندہ باد۔

اس دن کا انتظار کیوں کریں، آج ہی کہہ دیتے ہیں عاصم منیر زندہ باد۔ کیونکہ اشرافیہ کی اشرافیہ نے یہ پیغام دیا ہے کہ بیانیہ بھی خود ہی بدلو اور اپنی نیپی بھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *