پاکستان سمیت مسلم ممالک کے صارفین کا فیشن برانڈ

پاکستان سمیت مسلم ممالک کے صارفین کا فیشن برانڈ

پاکستان سمیت مسلم ممالک کے صارفین کا فیشن برانڈ ’زارا‘ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیوں؟

فیشن برانڈ ‘زارا’ دنیا کے کئی ممالک میں مقبول ہے لیکن حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ایک طبقے کی جانب سے اس کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اس کی بنیاد فیشن برانڈ ’زارا‘ کے کپڑوں کی ایک ڈیزائنر وینیسا پیرلمین اور ایک فلسطینی ماڈل قاہر ہرشاش کی انسٹاگرام پر پرائیویٹ میسجز کے ذریعے کی گئی ایک گفتگو ہے جس میں ڈیزائنر نے ماڈل کے لیے مبینہ طور پر ‘نسل پرستانہ’ الفاظ کا استعمال کیا اور انھیں مسلمان ہونے کی وجہ سے ‘آپ لوگ’ کہہ کر مخاطب کیا۔

سوشل میڈیا پر مسلمان صارفین کی ایک کثیر تعداد اب فیشن برانڈ ‘زارا’ سے باقاعدہ معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ بہت سے صارفین ایسے ہیں جنھوں نے اس برانڈ کے بائیکاٹ کرنے کی کال دے رکھی ہے۔

شکایات موصول ہونے پر ڈیزائنر کی جانب سے معذرت کر لی گئی تھی جبکہ برانڈ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ‘زارا کے ملازمین کا تعلق دنیا کے 170 ممالک سے ہے لہٰذا ہم کسی قسم کے امتیازی سلوک کو برداشت نہیں کرتے۔‘

خواتین

یہ لڑائی ہے کیا؟

سوشل میڈیا پر جاری کیے جانے والے ان میسجز کے سکرین شاٹس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ماڈل قاہر کی فلسطین کی حمایت میں کی گئی پوسٹ پر ڈیزائنر نے ان پر بظاہر نسل پرستانہ اور اسلام مخالف جملے کسے ہیں۔

وینیسا نے پیغام میں کہا کہ ’شاید اگر تم لوگ تعلیم یافتہ ہوتے تو وہ ہسپتالوں اور سکولوں پر دھماکے نہ کرتے، جو اسرائیل کی مدد سے غزہ میں بنائے گئے ہیں۔‘

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق مئی میں اسرائیلی فورسز اور حماس کے جنگجوؤں کے بیچ 11 روز تک جاری جھڑپوں کے دوران غزہ میں 16 ہزار سے زیادہ گھر، 58 سکول یا تربیتی مراکز، نو ہسپتال اور 19 کلینک سمیت انفراسٹرکچر یا تو مکمل تباہ ہوا یا اسے جزوی نقصان پہنچا ہے۔

ٹویٹ

اس پیغام کی اس لیے بھی زیادہ مذمت کی جا رہی ہے کیونکہ قاہر کا تعلق مشرقی بیت المقدس کے علاقے سے ہے۔ انھیں اس پیغام میں یہ بھی کہا گیا کہ ’اسرائیلی شہری اپنے بچوں کو آپ لوگوں کی طرح نفرت کرنا یا پتھر پھینکنا نہیں سکھاتے۔‘

فیشن برانڈ ’زارا‘ کی ڈیزائنر کے ایک پیغام پر اسلاموفوبیا کا الزام بھی لگایا گیا جس میں وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ آپ ماڈل ہیں مگر درحقیقت یہ مسلم عقائد کے خلاف ہے۔ اور اگر آپ کسی مسلم ملک میں کھل کر سامنے آئیں گے تو آپ کو سنگسار کر دیا جائے گا۔‘

ماڈل کی جانب سے اس گفتگو کے سکرین شاٹس منظر عام پر لائے جانے کے بعد وینیسا پر کئی لوگوں کی جانب سے تنقید کی گئی جس کے بعد انھوں نے معذرت کی اور بتایا کہ اس کے بعد سے انھیں اور ان کے بچوں کو قتل کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔

وینیسا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’امید ہے آپ مجھے معاف کر سکیں گے۔ اگر آپ اب بھی اپنی (انسٹاگرام) سٹوری میں میرے سے متعلق پوسٹ رکھنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی مرضی ہے۔ لیکن مجھے واقعی اپنے بچوں کے حوالے سے قتل کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔‘

ماڈل قاہر نے فیشن برانڈ ’زارا‘ سے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘انھیں اسلاموفوبیا کے مسئلے پر بات کرنا ہوگی جسے یورپی معاشرہ نظر انداز کرتا ہے۔۔۔ جب کچھ فیشن ڈیزائنرز نے یہودیوں کے خلاف بات کی تھی تو انھیں نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس لیے وینیسا کی معافی کو مسترد کیا کیونکہ وہ مسلسل اسرائیلی موقف کا دفاع کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ انھوں نے اپنے فالوورز سے فیشن برانڈ ’زارا‘ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

قاہر کا دعویٰ ہے کہ شوبز میں بیلا حدید جیسے لوگ فلسطین کے بارے میں بات کر کے بہت بڑا خطرہ مول لیتے ہیں اور انھیں دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس تنقید کے بعد کئی لوگوں نے فیشن برانڈ ’زارا‘ سے بذریعہ ای میل شکایت بھی کی ہے جبکہ وینیسا نے اپنے سوشل میڈیا پیجز کو بند کر دیا ہے۔

فیشن برانڈ ’زارا‘ نے ایک شکایت کے ردعمل کہا کہ ’ہم اس طرح کے معاملات کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں، اگرچہ یہ (بات چیت) زارا کے کسی آفیشل سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے نہیں کی گئی ہے۔‘

’جیسے ہی یہ صورتحال ہمارے علم میں لائی گئی تو ہم نے اس معاملے کو باضابطہ طور پر نمٹانے کے لیے انٹرنل تحقیقات شروع کیں۔۔۔ قاہر اور وینیسا نے فوراً بات چیت کے ذریعے اپنی غلط فہمی دور کر لی تھی اور (گذشتہ) بدھ کو یہ معاملہ ختم ہو گیا تھا۔۔۔ ہمیں اپنی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وینیسا نے معافی مانگ لی تھی اور اسے قبول کر لیا گیا تھا۔‘

کمپنی کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’زارا‘ کے ملازمین کا تعلق دنیا کے 170 ممالک سے ہے لہذا ‘ہم کسی قسم کے امتیازی سلوک کو برداشت نہیں کرتے۔’

تاہم فیشن برانڈ ’زارا‘ کے اس بیان پر بعض افراد نے اسے ‘غیر مناسب’ کہا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ زارا کو ‘اسلام مخالف رویے’ پر غیر مشروط معذرت کرنی چاہیے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

مسلم ممالک میں موجود ہزاروں صارفین نے اس معاملے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے فیشن برانڈ ’زارا‘ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈیزائنر وینیسا کو نوکری سے فارغ کریں ورنہ تمام مسلم برداری اس برانڈ سے کپڑے خریدنا چھوڑ دے گی۔

پاکستان، ترکی اور عرب ممالک سمیت کئی ملکوں میں موجود مسلم صارفین اس واقعے پر ناخوش ہیں۔ خواتین کی ایک خاطر خواہ تعداد کی فیشن برانڈ ’زارا‘ پر تنقید جاری ہے۔

ملیشیا سے تعلق رکھنے والی رینی عبداللہ کہتی ہیں کہ زارا نے ’اپنے ایک ڈیزائنر کے بیان سے تمام مسلمانوں کو دُکھ پہنچایا ہے۔’

ٹوئٹر

اسی طرح لائبہ عرفان کا کہنا تھا کہ ’میں زارا کے کپڑوں سے متاثر ہوں لیکن میں تب تک ان کی کوئی چیز نہیں خریدوں گی جب تک وہ معافی نہیں مانگتے! زارا، آپ اپنے لاکھوں مسلمان خریدار کھو دیں گے۔‘

ماہین نے اصرار کیا کہ ’زارا‘ کی ڈیزائنر کو ‘مسلمان ملکوں کے دورے پر آنا چاہیے۔۔۔ مسلمان ماڈلز سے ملیں اگر آپ نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔’ انھوں نے ‘زارا کو معافی مانگنا ہو گی’ کا ہیش ٹیگ استعمال کیا ہے۔

ترکی میں بھی فیشن برانڈ ’زارا‘ کو تنقید کا سامنا ہے اور یہاں کی سرکاری ویب سائٹ ٹی آر ٹی ورلڈ نے یہ سارا معاملہ سمجھانے کے لیے ایک ویڈیو شیئر کی ہے۔ یوٹیوب پر اس ویڈیو پر ایک صارف عینی رضوی نے تبصرہ کیا ہے کہ ’ایسے برانڈ کو بائیکاٹ کرنا چاہیے جو انسانی حقوق کی حمایت نہیں کرتا۔‘

جبکہ ردا کا کہنا تھا کہ وہ آج ہی اپنی الماری سے اس برانڈ کے کپڑے نکال دیں گی۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’انھیں پھینک کر ہی میں پُرسکون انداز میں زندگی گزار سکوں گی۔‘ اور ہالا کہتی ہیں کہ انھوں نے زارا سے خریدے گئے 100 ڈالر کے کپڑے واپس کردیے ہیں۔

سحر کے مطابق وہ اس لیے مایوس ہیں کیونکہ زارا ان کے پسندیدہ برانڈز میں سے ایک ہے۔ ‘ایسا رویہ قابل قبول نہیں۔’

مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی ایک صحافی لیلیٰ حاطوم کا ٹوئٹر پر کہنا تھا کہ اس تمام معاملے پر زارا کا ردعمل توقعات پر پورا نہیں اترا اس لیے برانڈ کے بائیکاٹ کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے وینیسا کے پیغام کو ‘فلسطین مخالف، عرب مخالف اور مسلمان مخالف’ قرار دیا ہے۔

لیلیٰ

دوسری طرف کچھ صارفین نے زارا کی حمایت بھی کی ہے اور کہا ہے کہ اس پورے معاملے میں فیشن برانڈ کا کوئی قصور نہیں۔

ایک صارف نے لکھا کہ ’زارا کو اس مشتعل آن لائن ہجوم کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکنے چاہییں ۔۔۔ مسلمان ممالک میں ہم جنس پرستوں کے ساتھ امتیازی سلوک ایک سچ ہے۔‘

موہی ہاشمی لکھتے ہیں کہ ‘ہر دن کسی ایسے کاروبار کے خلاف ٹرینڈ چلتا ہے جس سے پاکستانیوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ زارا دنیا میں کپڑوں کا سب سے بڑا ریٹیلر ہے اور یہ پاکستان سے کافی زیادہ درآمدات منگواتا ہے۔’

ٹوئٹر

جبکہ ایک دوسرے صارف نے لکھا کہ پاکستان پہلے سے ’زارا‘ کا بائیکاٹ کر رہا ہے کیونکہ یہاں زارا کا کوئی آفیشل سٹور نہیں ہے اس لیے یہ آسان ہے۔‘

اسی دوران طنزیہ طور پر کچھ لوگوں کی جانب سے یہ بھی لکھا گیا کہ آخر کتنے ہی لوگ زارا کے کپڑے خریدنے کی مالی استطاعت رکھتے تھے۔

مگر وردا کے لیے زارا کے بائیکاٹ کی وجہ کچھ اور تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘شکر ہے بائیکاٹ زارا ٹرینڈ کر رہا ہے۔ بہت ہی مہنگا برانڈ ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *