لگان کے 20 سال: عامر خان کو ’لگان‘ فلم کے لیے

لگان کے 20 سال: عامر خان کو ’لگان‘ فلم کے لیے

لگان کے 20 سال: عامر خان کو ’لگان‘ فلم کے لیے ’ہاں‘ کرنے میں دو سال کیوں لگے؟

انڈین ہدایتکار آشوتوش گواریکر کی فلم ’لگان‘ کو ریلیز ہوئے آج 20 سال ہو گئے ہیں۔ سنہ 2001 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو بالی ووڈ کی بہترین اور یادگار فلموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس فلم میں عامر خان کا کردار ’بھون‘ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہے۔

لیکن بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اگر آشوتوش گواریکر فلم ’لگان‘ کی کہانی نہ لکھتے تو عامر خان خود کبھی بھی فلمساز نہیں بن پاتے۔

اور شاید یہ بات بھی کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ جب شروع شروع میں آشوتوش گواریکر نے عامر خان کو اس فلم کا مرکزی خیال یعنی آئیڈیا سُنایا تو اس وقت عامر خان کو اس کی کہانی زیادہ متاثر کُن نہیں لگی اور انھوں نے اس فلم میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔

لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو ’لگان‘ نے نہ صرف باکس آفس پر کمائی کی بلکہ اسے آسکر ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔

آپ نے اس سکرپٹ کے لیے اپنے تین مہینے ضائع کر دیے

فلم ’لگان‘ کی ریلیز کے 20 سال بعد بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عامر خان نے اس فلم کو ایک ’یادگار‘ اور ’خوبصورت سفر‘ بتایا ہے۔

انھوں نے کہا ’جب آشوتوش نے پہلی بار لگان کی کہانی سنائی تو ابتدائی دو منٹ میں کچھ ایسا کہا کہ ایک گاؤں ہے، جہاں بارش نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے گاؤں کے لوگ قابل نہیں ہیں کہ وہ خود پر لگا لگان یعنی ٹیکس ادا کریں۔ لیکن لگان معاف کرانے کے لیے وہ لوگ شرط لگاتے ہیں اور کرکٹ کھیلتے ہیں۔‘

عامر خان کہتے ہیں کہ جب انھوں نے یہ کہانی سُنی تو انھیں بہت بری لگی کہ یہ کیا آئیڈیا ہے کہ سنہ 1893 میں کوئی کرکٹ کھیل رہا تھا اور اس کے ذریعے ٹیکس معاف کروانا چاہتا تھا۔

’میں نے آشوتوش کو سمجھایا کہ آپ اور فلمیں بنائیں جو قدرے بہتر ہوں۔ میری یہ باتیں سُن کر آشوتوش تھوڑا مایوس ہو گئے اور کہا کہ ٹھیک ہے۔ اس کے بعد وہ تین ماہ کے لیے غائب ہو گئے۔‘

عامر خان نے بتایا کہ تین ماہ بعد آشوتوش گواریکر نے انھیں دوبارہ فون کیا اور کہا کہ ایک سکرپٹ ہے جس کو میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔

’جب میں نے اُن سے کہا کہ بتائیں، تو انھوں نے کہا کہ میں صرف مل کر ہی بتاؤں گا۔ مجھے شبہ ہوا کہ یہ دوبارہ سے وہی کرکٹ کی کہانی بتائیں گے۔ میں نے اُن سے پوچھا بھی، لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا۔ میں نے اُن سے کہا کہ اب میں نہیں سُننا چاہتا اور یہ ایسی بُری کہانی ہے جس کے پیچھے آپ نے اپنے تین مہینے ضائع کر دیے، لیکن آشوتوش اسی آئیڈیا پر پھنس گئے تھے۔‘

میں اس فلم کو بنانے سے کیوں ڈر رہا تھا؟

आमिर ख़ान

عامر خان نے کہا کہ چونکہ آشوتوش ایک دوست ہے اس لیے انھوں نے ان کے بے حد اصرار پر فلم کا مکمل سکرپٹ سُن ہی لیا۔

’اس بار جب اس نے سکرپٹ کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا تو اس نے مجھے حیران کر دیا۔ میں کہانی سنتے ہوئے ہنس رہا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ بہت مہنگی فلم کی طرح لگتی ہے۔ کون بنائے گا؟ میں ایک اداکار ہوں، پروڈیوسر نہیں۔‘

میں نے انھیں کہا کہ ’اگر آپ کی فلم ’بازی‘ کام نہیں کرتی تو پھر اس فلم کے لیے کون پیسہ لگائے گا۔ پہلے ایک پروڈیوسر لائیں جو اس پر پیسہ لگانے کے لیے تیار ہو پھر میں اس فلم میں کام کروں گا۔‘

عامر خان بتاتے ہیں کہ انھوں نے آشتوش کو مزید یہ بھی کہا کہ کسی پروڈیوسر کو یہ نہ بتائیں کہ عامر خان فلم میں کام کر رہے ہیں کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ وہ نام سُن کر رضامندی ظاہر کرے بلکہ فلم کی کہانی سُن کر راضی ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ بعد میں آشوتوش نے پوری انڈسٹری کے اداکاروں اور پروڈیوسروں کو یہ کہانی سُنائی لیکن کوئی بھی کہانی کو سمجھ نہیں پایا۔

’اس دوران ہر چھ ماہ بعد میں اس فلم کے بارے میں اپ ڈیٹ سُنتا اور اس طرح میں نے اس فلم کی کہانی کو تین بار سُنا۔ ہر بار تعریف کی لیکن اس کو بنانے کی ہمت نہیں کی۔ پھر ایک دن میں نے سوچا کہ میں اس فلم کو بنانے سے کیوں ڈر رہا ہوں؟ گروت دت، وی شانتارام، کے آصف، ومل رائے، کیا وہ اسے بنانے سے ڈرتے؟‘

عامر خان کا کہنا ہے کہ انھوں نے خود سے سوال کیا کہ میں ان بڑے پروڈیوسرز کی طرح بننا چاہتا ہوں اور اگر وہ میرے ہیروز ہیں تو پھر انھی کی طرح ہمت دکھانی ہو گی۔

’وہاں سے مجھے ہمت پیدا ہوئی۔ پھر میں نے سوچا کہ اگر میں اس میں کام کرنا چاہتا ہوں تو مجھے خود اس کو تیار کرنا پڑے گا۔‘

کبھی پروڈیوسر نہیں بننا چاہتا تھا

लगान

عامر خان کے والد طاہر حسین ایک مصنف اور پروڈیوسر تھے اور عامر نے اپنے والد کی جدوجہد کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔

’میں ہمیشہ پروڈیوسر بننے سے کتراتا تھا کیونکہ میں نے اپنے والد کی حالت دیکھی تھی۔ لیکن میں جانتا تھا کہ اگر میں اس فلم میں کام کرنا چاہتا ہوں تو مجھے خود اس کی تیاری کرنی پڑے گی۔ پھر میں نے سکرپٹ کو اپنی والدہ، والد اور اپنی اہلیہ سے بیان کیا۔ میں نے پہلے کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب انھوں نے سکرپٹ سنا تو انھیں بہت پسند آیا، لیکن میرے والد سمجھ گئے کہ یہ بہت مہنگی فلم ہے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ اگر کہانی اچھی ہے تو فلم ضرور کرنی چاہیے۔‘

اس فلم کے لیے ’ہاں‘ کرنے میں عامر خان کو دو برس کا عرصہ لگا۔

عامر خان کا کہنا ہے کہ ’لگان میرے لیے ایک سفر ہے۔ اس فلم سے میرا جو رشتہ ہے، اس کا خاص تعلق ہے۔ ہم شوٹنگ کے لیے چھ ماہ تک ایک ہی عمارت میں رہتے تھے۔ شوٹنگ کے لیے ہر صبح چار بجے اٹھتے تھے۔ اس کے بعد شوٹنگ کے لیے بس پر سوار ہوتے تھے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ایک دن کسی نے بس میں گائیتری منتر کا نعرہ لگایا اور تب سے فلم کی شوٹنگ ختم ہونے تک ہم جب بھی کسی جگہ جاتے تھے ہم 45 منٹ کے لیے گائیتری منتر سنتے تھے۔ اور نہ صرف ہم بلکہ بس میں موجود انگریز بھی ہمارے ساتھ روزانہ گائیتری منتر پڑھتے تھے۔‘

ایوارڈز کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے

عامر خان کئی برسوں سے کسی ایوارڈ فنکشن کا حصہ نہیں رہے ہیں۔ فلمی ایوارڈز کا ذکر کرتے ہوئے عامر خان کہتے ہیں کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ میں ایوارڈز کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتا۔

आमिर ख़ान अपनी पहली पत्नी के साथ
عامر خان اپنی سابقہ اہلیہ کے ہمراہ

‘کوئی ایوارڈ بھی ہو، چاہے آسکر ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آج کی تاریخ میں آپ سے پوچھتا ہوں ‘لگان’، ‘دنگل’، تھری ایڈیٹس’ اور ‘تارے زمین پر’ میں سے کون سی فلم بہتر ہے، اس کا موازنہ کرنا بہت مشکل ہے۔ دس افراد نے ایوارڈ شوز میں لگان کو پسند کیا ہوتا، دس لوگوں نے تارے زمین پر کو پسند کیا ہوتا اور کچھ نے دنگل کو پسند کیا ہوتا۔‘

عامر کا کہنا ہے کہ ایوارڈز کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے کیونکہ یہ کھیلوں کی طرح نہیں ہے۔

’جو بھی 100 میٹر ریس پہلے ختم کرتا ہے وہ جیت جاتا ہے۔ کھیلوں میں یہ واضح ہے کہ کون جیتتا ہے۔ فلموں میں ایسا نہیں ہے۔ ہر ایک کے جذبات مختلف ہوتے ہیں۔‘

عامر خان کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے کام کی تعریف کرنی چاہیے۔

عامر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی ایوارڈ شو میں نہیں جاتے لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے۔

‘میں ہندوستان میں دو ایوارڈز کی تقریبات میں جاتا ہوں۔ ایک لتا جی کا دینہ ناتھ منگیشکر ایوارڈ ہے اور دوسرا گولپودی ایوارڈ۔ یہ دو ایوارڈز ہیں جہاں میں خود حاضر ہوتا ہوں۔ جہاں مجھے لگتا ہے کہ یہ ایوارڈز ٹھیک ہیں، وہاں میں وہاں جاتا ہوں۔ میں آسکر گیا تھا تاکہ میں اپنی فلم کی مارکیٹنگ کر سکوں۔ سب نے اسے انڈیا میں دیکھا لیکن اسے بیرون ملک بھی پہچانا جانا چاہیے۔ میری فلم آسکر کے لیے نامزد کی گئی تھی، یہ کافی ہے اور یہ میرے لیے کسی ایوارڈ سے کم نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *