میوات میں ’ہندو مسلم فسادات‘ کے بعد امام مسجد ہلاک

میوات میں ’ہندو مسلم فسادات‘ کے بعد امام مسجد ہلاک

میوات میں ’ہندو مسلم فسادات‘ کے بعد امام مسجد ہلاک پولیس نے کہا مسجد کی سکیورٹی کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں

انڈیا کے دارالحکومت دہلی سے ملحقہ ریاست ہریانہ کے ضلع میوات میں پیر کو ہندو اور مسلمان گروہوں کے درمیان تشدد کے بعد گروگرام (گڑ گاؤں) کے سیکٹر 57 میں واقع مسجد میں آگ لگا دی گئی ہے جس کے نتیجے ایک مسجد کے نائب امام ہلاک ہو گئے ہیں۔

مسجد کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’تشدد کے اس واقعے میں مسجد کے نائب امام سعد انور کی موت ہو گئی ہے اور یہاں موجود دو دیگر افراد زخمی ہوئے ہیں۔‘

گروگرام پولیس کے ڈی سی پی ایسٹ نتیش اگروال نے بی بی سی کو حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’حملے میں مسجد کے نائب امام کی موت ہو گئی ہے۔ واقعے کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور کچھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔‘

ڈی سی پی کے مطابق ’جب مسجد پر حملہ ہوا تو وہاں سکیورٹی کے لیے پولیس فورس تعینات تھی لیکن حملہ آوروں کی تعداد زیادہ تھی اور انہوں نے اچانک فائرنگ شروع کردی۔ پولیس واقعے سے متعلق ویڈیوز اکٹھی کر رہی ہے اور حملہ آوروں کی شناخت کی جا رہی ہے۔ کچھ مشتبہ حملہ آوروں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔‘

ڈی سی پی کے مطابق کل رات کے واقعے کے بعد سے پورے گروگرام میں فرقہ وارانہ تشدد کی کوئی خبر نہیں ہے۔

خیال رہے کہ سخت گیر ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے پیر کو میوات کے علاقے نوح ضلعے میں مذہبی جلوس نکالا تھا۔ اس جلوس کے دوران دو گروپوں میں تصادم ہوا جس کے بعد کئی جگہوں سے تشدد کی خبریں آئیں جن میں 20 افراد زخمی ہوئے۔

مقامی افراد کے مطابق پولیس کی جانب سے علاقے میں مساجد کو سکیورٹی بھی فراہم کی گئی تھی تاہم اس کے باوجود رات گئے مساجد پر حملوں کی اطلاعات آتی رہیں۔

بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد نے میوات میں ’جلابھشیک یاترا‘ نکالنے کا اعلان کیا تھا تاہم اس یاترا میں مفرور ملزم مونو مانیسر بھی شریک ہونے والے تھے۔

مونو مانیسر اعلانیہ ’گو رکشک‘ ہیں اور وہ دو مسلم نوجوان ناصراور جنید قتل میں مفرور ملزم ہیں۔

میڈیا رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پتھراؤ صرف مونو مانیسر کے اس یاترا میں شرکت کی وجہ سے ہوا ہے۔ میوات کے لوگ شوبھا یاترا میں مونو مانیسر کی شرکت کی مخالفت کر رہے تھے۔

فسادات

’جب تک حالات معمول پر نہ آجائیں، مسجد سے باہر نہ نکلیں‘

مسجد کے امام سعد کے بھائی شاداب انور نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں اب تک صرف اپنے بھائی کا چہرہ ہی دیکھ سکا ہوں۔ ہم ابھی مردہ خانے میں ہیں۔ اب ہم ایف آئی آر درج کروائیں گے۔ میرا بھائی پچھلے سات ماہ سے اس مسجد کا امام تھا۔ میرے بھائی کی عمر صرف 22 سال تھی۔‘

پیر اور منگل کی درمیانی شب ساڑھے گیارہ بجے شاداب نے سعد سے بات کی تھی۔ وہ کہتے ہیں: ’ہم دراصل (انڈیا کی شمالی ریاست) بہار کے رہنے والے ہیں۔ آج میرے بھائی کو گھر واپس آنا تھا، اس کے پاس ٹکٹ تھا، میں نے اسے فون کیا اور سمجھایا کہ ابھی ماحول ٹھیک نہیں ہے۔ جب تک حالات معمول پر نہ آجائیں، مسجد سے باہر نہ نکلیں۔ یہ وہ آخری بات تھی جو میں نے اس سے کی تھی۔‘

ہریانہ انجمن ٹرسٹ کے چیئرمین محمد اسلم خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’میوات میں تشدد کے بعد، پولیس کی ایک ٹیم سوموار کی شام ہمارے پاس پہنچی اور ہمیں سکیورٹی کی یقین دہانی کرائی۔‘

saad

اسلم خان نے بتایا کہ ’مقامی تھانے کی پولیس ٹیم ہمارے پاس آئی تھی اور ہمیں بتایا تھا کہ مسجد کی سکیورٹی کی ذمہ داری پولیس کی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ پولیس کی ٹیم مسجد میں ہی موجود ہو گی۔ جب ہم نے مسجد کے امام اور یہاں رہنے والے دو دیگر ملازمین کے بارے میں بات کی تو پولیس نے کہا کہ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔‘

اسلم خان کا کہنا ہے کہ ’ہم مغرب کی نماز پڑھ کر مسجد سے واپس آئے تھے تو یہاں پولیس بھی موجود تھی۔ پھر اچانک 12 بجے سے 12.30 بجے کے درمیان مسجد پر حملہ ہوا۔ پہلے مسجد کے کیمرے توڑ دیے گئے اور پھر آگ لگا دی گئی۔

’سعد (امام مسجد) کو حملہ آوروں نے ہلاک کر دیا۔ خورشید نامی شخص زخمی ہے جو آئی سی یو میں داخل ہے۔ ایک اور شخص بھی زخمی ہے لیکن اسے معمولی زخم آئے ہیں۔‘

سنہ 2004 میں ہریانہ حکومت نے گروگرام میں 17 مندروں، دو گرودواروں، ایک چرچ اور ایک مسجد کی تعمیر کے لیے زمین الاٹ کی تھی۔

یہ مسجد اسی زمین پر بنائی گئی ہے اور نیو گروگرام کی واحد مسجد ہے۔ آس پاس رہنے والے مسلمان یہاں نماز پڑھنے آتے ہیں۔

ہریانہ حکومت نے علاقے میں امن برقرار رکھنے کے حوالے سے بیانات دیے ہیں۔ ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وج نے بتایا کہ مرکزی حکومت سے اضافی پولیس فورس بھیجنے کو کہا گیا ہے۔

تاہم وشو ہندو پریشد نے ریاستی حکومت اور پولیس انتظامیہ پر سوال اٹھائے ہیں۔ کانگریس پارٹی نے لوگوں سے امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔

ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے فرقہ وارانہ تشدد پر کہا: ’آج کا واقعہ افسوسناک ہے۔ میں تمام لوگوں سے ریاست میں امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کرتا ہوں۔ قصورواروں کو کسی قیمت پر نہیں بخشا جائے گا، ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔’

صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس نے نوح میں فلیگ مارچ کیا۔ اس کے ساتھ ہی انتظامیہ نے آئندہ بدھ کی آدھی رات تک ضلع میں موبائل انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی ہے۔ نوح کے ڈپٹی کمشنر نے رات 8.30 بجے دونوں گروپوں کی میٹنگ بلائی تھی۔

آتشزدگی کے واقعات

’منی پاکستان‘ کیوں ٹرینڈ کر رہا ہے؟

ان پرتشدد واقعات کے بعد وی ایچ پی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اسے پولیس اور انٹیلی جنس کی کوتاہی قرار دیا ہے۔

سوشل میڈیا پر اس کے متعلق کئی ہیش ٹیگ دیکھے جا سکتے ہیں جن میں منی پاکستان بھی ایک ہیش ٹیگ ہے۔

اس کے تحت یہ کہا جا رہا ہے کہ میوات کا علاقہ مسلم اکثریتی آبادی والا علاقہ ہے جہاں 80 فیصد مسلم آباد ہیں۔ یہ علاقہ دہلی سے ملحق ہے جہاں زیادہ تر کسان رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس تعلق سے منافرت بھرے پیغامات نظر آتے ہیں جن میں سے زیادہ تر اشتعال انگیز ہیں۔

بی جے پی کے رہنما کپل مشرا نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’نوح میوات میں آج بے گناہ ہندو خواتین، بچے، غیر مسلح عقیدت مندوں کو جہادیوں نے گھیر لیا، منصوبہ بند قاتلانہ حملہ کیا۔ صحافیوں اور پولیس اہلکاروں کے قتل کی کوشش کی۔ میوات میں ہونے والے اس حملے کے حملہ آور وہی لوگ ہیں جو میوات کو منی پاکستان بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔

انھوں نے مزید لکھا: ‘ملک کی سیکولر سیاست اور صحافت کے شاہین باغ جہادی گینگ نے میوات میں اس طرح کے حملوں کے لیے نظریاتی کردار بنانے کا کام کیا ہے۔’

ان کے اس ٹویٹ کے جواب میں لوگوں نے بڑی تعداد میں انھیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا کہ دونوں جگہ حکومت آپ کی ہے تو پھر ایسا کیونکہ کر ہوا۔ کوئی اسے ووٹ مانگنے کی سازش کہہ رہا ہے تو کوئی منافرت پھیلانے کا الزام لگا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق سوموار کو ہونے والے فسادات میں دو ہوم گارڈ کی موت ہوئی ہے جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

مرنے والوں کی پہچان نیرج اور گروسیوک کے طور پر ہوئی ہے جو کہ کھیدالی دولا پولیس سٹیشن میں تعینات تھے۔ پولیس کے مطابق زخمیوں کو گرگاؤں کے میدانتا ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔

اے این آئی کے مطابق نوح کے ایس پی نریندر بیجرنیا نے سوموار کے واقعے کو افسوسناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ‘نوح میں حالات قابو میں ہیں اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔’

خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق ہریانہ حکومت نے نوح ضلع میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے مرکز سے ایک ہفتے کے لیے ریپڈ ایکشن فورس کی 20 کمپنیاں طلب کی ہیں۔

مرکزی داخلہ سکریٹری سے ایک مراسلے میں ہریانہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری (ہوم) ٹی وی ایس این پرساد نے 31 جولائی سے ایک ہفتے کے لیے آر اے ایف کی 20 کمپنیوں کا ‘فوری طور پر’ مطالبہ کیا ہے۔

مونو مانیسر کی گرفتاری کے لیے ٹیم نوح پہنچی

بی بی سی کے ساتھی صحافی موہر سنگھ مینا نے بتایا ہے کہ شوبھا یاترا میں مونو مانیسر کے اعلان کے بعد بھرت پور پولیس کی ٹیمیں بھی میوات پہنچ گئی ہیں۔

مونو مانیسر نے پیر کو نوح میں منعقدہ ایک ریلی میں اپنے حامیوں کے ساتھ اپنی آمد کا اعلان کرتے ہوئے ایک ویڈیو جاری کی تھی۔

بھرت پور کے سپرانٹینڈنٹ آف پولیس (ایس پی) نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہم نے پولیس کی ایک ٹیم نوح بھیج دی ہے۔

اس معاملے میں بھرت پور کے گوپال گڑھ پولیس سٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

گوپال گڑھ تھانے کے انچارج رام نریش نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’پولیس کی کئی ٹیمیں مونو مانیسر کی تلاش میں مصروف ہیں۔ مونو کے نوح پہنچنے کی اطلاع کے بعد پولیس ٹیم کو نوح روانہ کر دیا گیا ہے۔’

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *