باجوڑ دھماکہ دعا کرتا گیا کہ اللہ کرے میرا بیٹا

باجوڑ دھماکہ دعا کرتا گیا کہ اللہ کرے میرا بیٹا

باجوڑ دھماکہ دعا کرتا گیا کہ اللہ کرے میرا بیٹا سلامت ہو، تابوت پر نظر پڑی تو حالت غیر ہو گئی

یہ اتوار کا دن تھا جب خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کے کنونشن میں کارکنان بڑی تعداد میں موجود تھے جب ایک دھماکہ ہوا جس میں اب تک 45 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہو چکے ہیں۔

بیٹے کی تلاش میں دل کو دھڑکا لگا ہوا تھا لیکن ایک امید تھی کہ اللہ کرے بیٹا مردہ خانے میں نہ ہو ، لیکن جب ایک تابوت پر پڑی قمیض کا ٹکڑا دیکھا تو میری حالت غیر ہو گئی۔

دل نے پھر ایک امید باندھی کیا یہ قمیض میرے بیٹے کی ہے؟ نہیں شاید، پھر گھر جا کر بیٹیوں سے تصدیق چاہی دل کہہ رہا تھا کہ شاید بیٹیاں نہیں کہہ دیں لیکن انھوں نے کہا ہاں یہ قمیض ابوذر کی ہے، انھوں نے پوچھا کہاں ہیں ابو ذر، میں نے کہا وہ ادھر تابوت میں ہے۔

بچوں کے جنازے زیادہ بھاری ہوتے ہیں؟

ُابو ذر
ابوذر کے والد جاوید

جاوید محنت مزدوری کرتے ہیں اور ایک ریڑھی پر سامان فروخت کرتے ہیں۔ ان کی سات بیٹیاں ہیں۔ ابو ذر بڑی بیٹی سے ایک سال چھوٹا تھا اور اس کی عمر لگ بھگ 13 سال تھی اور ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ایک بیٹا ابھی چند ماہ پہلے پیدا ہوا ہے۔

ابوذر لاڈلا بھی تھا اور بہنوں کا چہیتا تھا۔ وہ شنڈی موڑ کے ایک کوچے میں کچے گھر میں رہتے ہیں۔ گھر کے باہر چارپائیاں رکھی ہوئی تھیں، جہاں لوگ آکر فاتحہ خوانی کر رہے تھے۔

ابوذر اپنے والد کی مدد کے لیے مدرسے سے واپس آنے کے بعد گھر کے پاس چپس اور ٹافیاں فروخت کرتا تھا جس سے والد کی مدد ہو جایا کرتی تھی۔

جاوید نے بتایا کہ اتوار کو رات کے وقت جب وہ کام سے واپس آیا تو پوچھا ابو ذر کہاں ہے تو مجھے بتایا گیا کہ وہ تو نہیں ہے، میں نے کہا کب سے نہیں ہے تو گھر واالوں نے بتایا کہ وہ تو دھماکے سے پہلے سے نہیں ہے۔

مجھے پریشانی لاحق ہوئی تو محلے میں معلوم کیا لیکن ان کا پتہ نہیں چلا پھر شہر میں جگہ جگہ دیکھا کچھ پتہ نہیں چلا۔ اس کے بعد ہسپتال پہنچا اور دل میں یہ دعا کرتا گیا کہ اللہ کرے میرا بیٹا سلامت ہو، زحمیوں میں نہیں ملا تو میں نے پوچھا اور بھی کہیں ہیں تو بتایا گیا کہ مردہ خانے میں کچھ لاوارث لاشیں پڑی ہیں۔ میں نے کہا کیا ان میں کوئی بچہ بھی ہے تو بتایا گیا ہاں ایک بچہ بھی ہے۔

دل تھا کہ زور زور سے دھڑکنے لگا دل میں دعائیں کرتا جا رہا تھا، سامنے پڑے تابوت پر نظر پڑی تو اس کے اوپر قمیض کا ایک ٹکڑا پڑا تھا اسی وقت دل نے جیسے دھڑکنا چھوڑ دیا ہو، سانس جیسے رک گئی ہو۔ میں نے لڑکے سے کہا دیکھو تو انھوں نے بتایا کہ اس کا صرف دھڑ پڑا ہے دھماکے سے سر غائب ہے۔

جاوید کی آنکھیں آنسوں سے بھری پڑی ہیں لیکن بہتے نہیں ہیں، بس ضبط کیے ہوئے ہیں۔ ان سے جب پوچھا کہ ماں اور بہنوں کا کیا حال انھوں نے مختصراً کہا کیا بتاؤں ان کا حال کیا ہوگا۔ وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ ابوذر مدرسے سے آیا اور قران پاک رکھ کر ماں سے کہا مجھے کپڑے دو میں بھی جلسے میں جاؤں گا۔

ان کے مطابق ’ابوذر نے تیار ہو کر نئے کپڑے پہنے اور جلسے میں چلا گیا۔ لوگوں نے بتایا کہ ابوذر سٹیج کے قریب کہیں موجود تھا۔‘ جاوید خود دوسرے لوگوں کی مدد کر رہے تھے، زحمیوں کو ہسپتال پہنچ رہے تھے، انھیں معلوم نہیں تھا کہ ان کا اپنا بچہ لاپتہ ہے پھر رات دیر سے اس کی لاش ملی۔

پیاروں کی تلاش

Bajor

اس دھماکے کے بعد کچھ لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں جلسہ گاہ سے سیدھا اپنے گھروں کو لے گئے، کس کو مکمل جسم یا دھڑ نہیں ملا کوئی صرف ایک ٹوپی اٹھائے مارا مارا پھرتا نظر آیا ہمارا پیارا نہیں مل رہا۔

وحید اللہ اور ان کے رشتہ دار ایک ٹوپی اٹھائے جلسہ گاہ میں پریشان کھڑے تھے۔ وہ اور ان کے ساتھی اپنے ایک کزن کو تلاش کر رہے تھے۔ ان کے پاس شناخت کے لیے صرف دو ہی چیزیں تھیں ایک ٹوپی اور ایک لاش جس کا چہرہ اور جسم جل چکا ہے، صرف اس کے ہاتھوں کے انگلیاں سلامت ہیں، جہاں سے انگلیوں کے نشان لے کر اس کی شناخت کی جا سکتی ہے۔

وحیداللہ نے بتایا کہ وہ کل سے تلاش کر رہے ہیں۔ آج صبح یہ ٹوپی ملی ہے لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ یہ ٹوپی اس کی ہی ہے۔ ہم نے پشاور تیمر گرہ اور یہاں باجوڑ میں ہر ہسپتال میں ڈھونڈا ہے لیکن اب تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔

وحید اللہ نے کہا کہ خار ہسپتال میں ایک لاش پڑی ہے اگر متعلقہ حکام مدد کریں تو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ان کا کزن ہے یا نہیں لیکن اب تک انھیں کبھی کس کے پاس اور کبھی کس کے پاس بھیجا جا رہا ہے لیکن اتنا کوئی نہیں کرتا کہ اس کے فنگر پرنٹ لے لیے جائیں اور معلوم کیا جائے یہ لاش کس کی ہے اس سے ہماری تسلی ہو جائے گی۔

باجوڑ میں سوگ کی فضا

Bajor

اس دھماکے بعد ایسے ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے۔ ایک نوجوان کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس کی شادی ابھی 19 روز پہلے ہوئی تھی اور اگلے روز دلہن واپس ماں باپ کے گھر چلی گئی تھی، جس روز دھماکہ ہوا اسی روز دلہن بھی واپس اپنے دولہا کے گھر آئی تھیں لیکن شادی کے بعد ان کی ملاقات نہیں ہو سکی اور دولہا اس دھماکے میں ہلاک ہو گیا۔

ہم جب صبح خار پہنچے تو لوگ غمزدہ تھے۔ ہم پہلے اس جلسہ گاہ پہنچے جہاں یہ دھماکہ ہوا تھا۔ شامیانے اور خیمہ اب بھی موجود تھا لیکن گر چکا تھا۔ کرسیاں بکھری پڑی تھیں، جگہ جگہ خون موجود تھا وہ خون جو کل تک انسانی جسم میں گردش کر رہا تھا آج مٹی میں مل چکا تھا کہیں دیوار پر دھبوں کی شکل میں اور کہیں کرسیوں پر نشانات چھوڑ گیا تھا۔

ایک چھوٹا سا سٹیج تھا، جس پر سادہ سی کرسیاں رکھی گئی تھیں سٹیج کے بالکل سامنے جگہ پر دھماکہ ہوا تھا لیکن وہاں کوئی گڑھا نہیں تھا۔

وہاں تفتیشی افسران موجود تھے جو فارنزک کے لیے جوتے اور دیگر سامان اکٹھا کر رہے تھے۔ وہ لوگ جو اپنوں کو تلاش کر رہے تھے یا وہ جو اپنوں کی گمشدہ اشیا تلاس کر رہے تھے وہاں موجود تھے۔ اس علاقے کے لوگ بھی وہ جگہ دیکھنے کے لیے وہاں آ رہے تھے کہ اندازہ کریں کہ دھماکہ کیسے ہوا اور اب کیا صورتحال ہے۔

اس مقام پر بڑی تعداد میں پولیس اہلکار اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکارموجود تھے۔ وہاں بتایا گیا کہ آئی پولیس اور ملٹری حکام بھی علاقے کا دورہ کر رہے ہیں۔ ایک ساتھی نے بتایا کہ ان حکام نے وہاں مقامی لوگوں سے ایک جرگہ میں ملاقات کی ہے، جہاں انھیں جمعیت علما اسلام کے ایک مقامی رہنما نے بتایا کہ اس ورکر کنونشن کے لیے پولیس سے سیکیورٹی مانگی گئی تھی لیکن انھیں سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی اور اب اس کے لیے اعلیٰ حکام کے دورے ہو رہے ہیں اور سیکڑوں اہلکار تعینات ہیں اگر اس کے چوتھائی بھی اس کنونش کی سیکیورٹی کے لیے تعینات کر دیے جاتے تو آج یہ واقعہ پیش نہ آتا۔

کل رات سے خار شہر اور قریبی علاقوں میں مرنے والے کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد تدفین کر دی گئی ہے۔ گھروں اور حجروں میں فاتحہ خوانی کی جا رہی ہے۔ پشاور اور دیگر علاقوں سے صحافی بھی خار پہنچے تھے جو اس واقعہ کی کوریج کر رہے تھے۔

ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں لگ بھگ 20 زخمی زیر علاج ہیں اور ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر لیاقت علی نے بتایا کہ دھماکے کے بعد بڑی تعداد میں زخمی لائے گئے اور محدود وسائل میں انھیں طبی امداد فراہم کی گئی لیکن جیسے جیسے تعداد بڑھتی گئی تو پھر زحمیوں کو پشاور اور تیمر گرہ بھیج دیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *