مانع حمل مہم میں کوائل رکھوانے گئی تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ یہ تو میرے جسم میں پہلے سے موجود ہے
گرین لینڈ میں 60 اور 70 کی دہائی میں ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈنمارک کی ایک مہم میں ہزاروں خواتین کے رحم میں ان کی مرضی کے بغیر مانع حمل کوائلز رکھ دی گئیں تھی۔ ان خواتین میں چند کی عمریں اس وقت فقط 12 سال تھی۔
ڈنمارک کی حکومت نے اس نام نہاد ’کوائل مہم‘ سے متعلق آزادانہ تحقیقات کروانے کا اعلان کیا ہے۔
لیکن اس تحقیقات کو مزید آگے بڑھانے کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے دوران بی بی سی نے اس مہم سے متاثرہ متعدد خواتین سے بات کی ہے۔
بیبین جب 21 برس کی تھیں تو وہ اس غرض سے ہسپتال گئیں کہ وہ مانع حمل کی کوائل رکھوائیں، لیکن انھیں وہاں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مانع حمل کے لیے ایک کوائل پہلے ہی ان کے جسم میں موجود تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ میرے آنسو بہہ رہے تھے اور میں نے انھیں بتایا کہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میرے جسم میں مانع حمل کی کوائل پہلے سے کیسے موجود ہے اور مجھے یہ یاد کیوں نہیں ہے کہ میں نے اسے کب اپنے اندر رکھوایا تھا؟‘
بیبین کا خیال ہے کہ ان کے جسم میں بغیر اجازت کے مانع حمل کی کوائل اس وقت رکھی گئی ہو گی جب 2000 کی دہائی کے اوائل میں انھوں نے 16 برس کی عمر میں اسقاط حمل کروایا تھا۔
اس کے اگلے چار برس تک وہ پیٹ میں شدید درد کا شکار رہی تھیں اور اس درد نے انھیں سیڑھیاں چلنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں کئی مرتبہ ہسپتال گئی مگر انھیں کچھ سمجھ نہیں آیا تھا کہ میرے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔ مجھے اس وقت درد ہوتی جب ماہواری ہوتی تھی لیکن کبھی کبھی جب ماہواری نہ بھی ہوتی تب بھی تکلیف ہوتی تھی۔‘
وہ ماں بننا چاہتی تھیں لیکن رشتے میں منسلک ہونے کے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود وہ حاملہ نہ ہو سکی تھی۔
بیبین نے مجھے بتایا کہ ’ہر مرتبہ جب بھی مجھے ماہواری ہوتی میں روتی تھی۔‘
انھوں نے چند ماہ حاملہ ہونے کی کوشش نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مانع حمل کوائل رکھوانے کا فیصلہ کیا جیسا کہ ان کی ایک دوست نے انھیں غلط مشورہ دیا تھا کہ یہ ان کی حاملہ بننے اور افزائش نسل کی صلاحیت کو بڑھا دے گا۔
اس وقت انھیں یہ پتہ چلا کہ ان کے جسم میں پہلے ہی ایک کوائل موجود ہے۔ انھوں نے اسے نکلوایا، نئی کوائل رکھوانے کے ارادے کو ترک کیا اور اس کے چند ماہ بعد ہی وہ حاملہ ہو گئیں۔
بیبین جیسی ہی ایک اور خاتون میرا (فرضی نام) کا تجربہ ان سے بھی زیادہ حالیہ ہے۔ جب سنہ 2019 میں ان کے طبی معائنے کے دوران ڈاکٹر نے انھیں بتایا کہ ان کی رحم میں مانع حمل کے لیے کوائل موجود ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ سن کر ’میں حیران رہ گئی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ یہ ان کی اجازت کے بغیر صرف اس وقت رکھی گئی ہو گی جب وہ سنہ 2018 میں رحم کی ایک معمولی سرجری کے لیے گئی تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سرجری کے بعد انھیں ایک سال تک شدید تکلیف کا سامنا رہا۔ اور ڈاکٹر ان کی درد کی شکایت کو مسلسل رد کرتے رہے جب تک کہ مکمل طبی معائنے کے دوران انھیں اپنی رحم میں کوائل رکھے جانے کا علم نہ ہوا۔
میرا جو اب 45 برس کی ہیں کا کہنا ہے کہ اس کوائل نے ان کی رحم مادر میں زخم کر دیے ہیں۔
طبی پیچیدگیوں سے تنگ آ کر جو ان کے خیال میں اس کوائل کی وجہ سے ہوئی تھیں، انھوں نے اپنی بچہ دانی مکمل طور پر نکلوانے کا فیصلہ کیا۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن کامیاب نہیں رہا اور اب وہ جنسی تعلق قائم نہیں کر سکتی کیونکہ وہ جب بھی سیکس کرتی ہیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے اور زیادہ خون آتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ کوائل وہ واحد مانع حمل طریقہ نہیں ہے جو گرین لینڈ کی خواتین کی آبادی میں سے کچھ میں ان کے علم کے بغیر استعمال کیا گیا ہے۔
انتیا (فرضی نام) جب سنہ 2011 میں اسقاط حمل کے بعد ہوش میں آئیں تو انھیں اپنے بازو میں کچھ محسوس نہ ہونے کا احساس ہوا اور اس پر پٹی بھی بندھی ہوئی تھی۔
ڈاکٹر سے اس بارے میں پوچھنے پر بتایا گیا کہ ان کی بازو میں مانع حمل کے طریقہ کار کے طور پر امپلانٹ کیا گیا ہے۔ یعنی ایک چھوٹا پلاسٹک کا لچکدار راڈ جسے بازوں کے اوپری حصہ میں جلد کے نیچے رکھا گیا تھا۔
31 سالہ انیتا کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ مانع حمل کے لیے امپلانٹ اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ یہ ان کا چوتھا اسقاط حمل تھا۔
انیتا نے مجھے بتایا کہ ’یہ بہت خوفناک تھا۔۔۔ اس نے واقعی حد پار کر دی تھی۔۔۔ مجھے لگا میرا استحصال کیا گیا ہے۔‘
انھوں نے اس امپلانٹ کو نکالنے کا کہا مگر ان کے مطابق ڈاکٹر ایسا کرنے پر ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ تب انھوں نے اپنے بازوں سے پٹی اتارنا شروع کر دی اور ڈاکٹر کو دھمکایا کہ وہ خود اس کو باہر نکال دیں گی جس پر ڈاکٹر آمادہ ہوا اور اس نے وہ امپلانٹ باہر نکال دیا۔
سارہ ( فرضی نام) کہتی ہے کہ انھیں بھی ایک آپریشن کے بعد جب ہوش آیا تو انھیں اپنے جسم میں مانع حمل کے لیے استعمال کیے گئے طریقے کا پتا چلا تھا۔
یہ 2014 کی بات ہے، جب ان کا حمل گرنے کے بعد ایک سرجری کے لیے جنرل اینستھیزیا (بے ہوشی کا ٹیکہ) دیا گیا تھا، لیکن جب انھیں ہوش آیا تو ڈنمارک کی ایک نرس اس وقت انھیں مانع حمل کے لیے ڈیپو پروویرا کا انجیکشن لگا رہی تھی۔
وہ کہتی ہے کہ ’مجھے اس وقت نہیں پتا تھا کہ یہ کیا ہے اور اس نے بھی مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ میں یہ لگوانا چاہتی ہوں، اس نے صرف مجھے بتایا کہ میں ہر تین ماہ بعد ہسپتال آ کر یہ لگوا لیا کروں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ نرس نے انھیں انجکیشن میں لگائی گئی دوا کا نام بھی نہیں بتایا تھا۔ اور جب انھیں اس بارے میں علم ہوا تو انھوں نے اس دوا کے متعلق مزید معلومات انٹرنیٹ سے حاصل کی۔
سارہ نے چند سال تک اس کا استعمال جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، لیکن وہ کہتی ہیں کہ جب انھوں نے دوا لینا چھوڑ دی تاکہ ان کے ہاں بچہ پیدا ہو سکے، تو انھیں حاملہ ہونے میں کئی سال لگے۔
وہ کہتی ہیں کہ انھیں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ڈیپو پروویرا کے آخری انجیکشن کے بعد 12 ماہ تک ان کی ماہواری متاثر ہو سکتی ہے۔
ستمبر میں ڈنمارک اور گرین لینڈ نے دو سالہ تحقیقات شروع کرنے پر اتفاق کیا۔ اس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ 1991 تک کیا ہوا، جب گرین لینڈ نے ڈنمارک سے صحت کے نظام کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
لیکن جن خواتین سے میں نے بات کی ان کے حالیہ تجربات بتاتے ہیں کہ اس تحقیقات کا موجودہ دائرہ کار بہت محدود ہے۔
بیبین کا کہنا ہے کہ ’میں چاہوں گی کہ یہ تحقیقات 1991 تک بند نہ ہوں، بلکہ خواتین کو ان کی رضامندی کے بغیر مانع حمل ادویات دینے کی تحقیقات آج کی تاریخ تک کی جائیں۔‘
میرا کہتی ہیں کہ وہ ایسی دیگر خواتین کو بھی جانتی ہیں جن کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔
گرین لینڈ کی وزیر صحت ممی کارلسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ خواتین کی رضامندی کے بغیر مانع حمل ادویات دینے کے حالیہ واقعات سے لاعلم ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر چند افراد کی طرف سے کوئی ایسا عمل کیا گیا ہے جو قانون اور عمومی اخلاقیات اور دیکھ بھال کے تصور کے خلاف ہے، تو یقیناً یہ ایسی چیز ہے جس پر ہمیں ردعمل دینا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں مناسب طریقہ کار کا تعین کرنے کے لیے، وہ بی بی سی کے نتائج کو قومی صحت بورڈ اور چیف میڈیکل آفیسر کو بھیجیں گی تاکہ ان واقعات کا مکمل جائزہ لیا جا سکے اور واضح کیا جا سکے کہ آیا یہ ایک وسیع مسئلہ ہے اور ملک کی ماضی کی پالیسیوں سے منسلک ہے۔
ناجا لیبتھ ان خواتین میں سے ایک ہیں جنھیں سنہ 1975 میں ڈنمارک کی مانع حمل کی کوائل مہم کے تحت زبردستی کوائل رکھے جانے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’اس وقت میں 13 برس کی تھی اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے مجھے چھریاں ماری گئی تھیں۔‘
ان کی سکول کی سہیلی ہولگا جو اب 62 برس کی ہیں کی عمر اس وقت 14 برس تھی جب ان میں کوائل رکھی گئی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے بہت کچھ بھلا دیا مگر میں وہ درد ہمیشہ یاد رکھوں گی، بہت برسوں تک مجھے بہت تکلیف تھی۔‘
اس دور میں مانع حمل کے لیے استعمال کی جانے والی کوائل کا ابتدائی ورژن جسے لیپس لوپس کا نام دیا گیا تھا اس مہم میں استعمال کی گئی تھیں۔ یہ کوائل ان بالغ خواتین کے لیے بنائی گئی تھیں جو پہلے ہی زچگی کے عمل سے گزر چکی تھی لیکن انھیں بارہ سال کی بچیوں میں بھی رکھا گیا تھا۔
ماہر امراض نسواں آویاجہ سیگٹاڈ کہتی ہیں کہ ’آپ اس درد کا اندازہ نہیں کر سکتے جب لیپس لوپس جیسی کوائل کم سن لڑکیوں کی رحم میں رکھی گئی ہو گی۔‘
انھوں نے مجھ جیسی ایک کم سن لڑکی کی رحم اور لپس لوپس کے بارے میں ایک ماڈل دکھا کر سمجھایا کہ کتنی تکلیف ہو سکتی ہے۔
نوجوان یا کم سن لڑکیوں میں لپس لوپس نامی کوائل رکھنے سے پیدا ہونے والے طبی مسائل میں بہت زیادہ خون بہنا، انفیکشن ہونا، مسلسل درد رہنا اور بانجھ پن شامل تھا۔
ڈاکٹر سیگساٹڈ کہتی ہیں کہ 90 کی دہائی کے وسط تک جن خواتین میں یہ کوائل رکھی گئی تھی ان میں بانجھ پن کے مسائل زیادہ تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ان خواتین کو پتہ بھی نہیں تھا کہ ان میں کوائل رکھی گئی ہے اور وہ یہ جانے بغیر کے ان کے ساتھ مسئلہ کیا ہے وہ 10 سے 15 سال تک حاملہ ہونے کی کوشش کرتی رہیں تھی۔‘
ناجا، جو ایک ٹراما تھراپسٹ کے طور پر کام کرتی ہے، کہتی ہیں کہ کوائل رکھنے کا تجربہ کچھ لوگوں کے لیے پریشان کن تھا، اور بنیادی معلومات کی عدم موجودگی کا مطلب یہ تھا کہ ان جیسی بہت سی خواتین نے اس تجربے کو یادداشت سے مٹا دیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں صدمے کا شکار ہونے والی خواتین کی نسل سے ہوں، اس کے بعد کے اثرات سے نمٹنا بہت مشکل تھا اور یہ ایسا ہی کہ ہم نے مشترکہ طور پر اس کو بھلا دیا۔‘
درحقیقت، ناجا، جو اس سال کی دنیا کی 100 متاثر کن اور بااثر خواتین کی بی بی سی کی فہرست میں شامل ہیں کہتی ہیں کہ انھیں خود اس وقت اس بارے میں یاد آیا تھا جب انھوں نے اپنی پیشہ وارانہ تربیت کے دوران ذاتی صدموں سے گزرنا شروع کیا۔
انھوں نے فیس بک کے ذریعے دیگر خواتین سے رابطہ شروع کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اور کتنی خواتین اس تجربے سے گزریں۔ اگلے چند برسوں میں، پورے گرین لینڈ سے تقریباً 200 لوگوں نے ان کی پوسٹ کا جواب دیا کہ وہ بھی اس تجربے سے گزری ہیں۔ اب وہ سکینڈل سے متاثرہ دیگر خواتین کے حقوق کے لیے مہم چلا رہی ہیں۔
لیکن اس سال کے شروع میں اس سکینڈل کے بارے میں اس وقت تک زیادہ آواز نہیں اٹھی تھی جب تک ایک ڈینش پوڈ کاسٹ نشر نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اس کے نشر ہونے کے بعد اس مانع حمل مہم کا بڑے پیمانے پر انکشاف ہوا۔ اور اس نے قومی سطح پر آواز اٹھائی۔
کوائل مہم کے نام سے نشر کی جانے والی اس پوڈ کاسٹ میں کہا گیا تھا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سنہ 166 سے 1976 کے درمیان گرین لینڈ کی 4500 خواتین اور لڑکیوں میں یہ لیپس لوپس کوائل رکھی گئی تھی۔ اور یہ تعداد اس وقت ملک میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کی حامل نو ہزار خواتین میں سے نصف تھی۔
اس مہم کا مقصد گرین لینڈ میں آبادی میں اضافے پر قابو پانا تھا کیونکہ نوعمر خواتین میں حمل کی بڑھتی ہوئی شرح نے ڈنمارک کے حکام کو پریشان کر دیا تھا۔
1970 میں اس مہم کو ’کامیابی‘ سمجھا جاتا تھا کیونکہ شرح پیدائش میں تیزی سے کمی واقع ہوئی تھی، حالانکہ اس کے بعد کچھ عرصے تک یہ شرح مسلسل گرتی رہی۔ 1966 میں مہم کے آغاز سے لے کر 1974 تک کے آٹھ سالوں میں جب یہ ختم ہو گئی، گرین لینڈ میں عورتوں کے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کی شرح فی عورت سات بچوں سے کم ہو کر 2.3 ہو گئی تھی۔
ڈنمارک کے قائم مقام وزیر صحت میگنس ہیونیک کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ یہ مہم کب بند ہوئی، اس لیے اس کا پتہ لگانا موجودہ تحقیقات میں سے ایک ہے۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’مجھے جس چیز کا خوف ہے وہ یہ ہے کہ یہ کچھ دہائیوں تک جاری رہنے والی مہم ہو سکتی ہے۔‘
برسوں کی تکلیف کے بعد ناجا نے 17 سال کی عمر میں اپنی کوائل نکلوا لی تھی۔ کئی سال تک حاملہ ہونے کی کوشش کے بعد بالآخر 35 سال کی عمر میں وہ ایک بچہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی۔
جہاں تک ان کی دوست ہولگا کا تعلق ہے، وہ کہتی ہیں کہ وہ درد کے باعث اور بعد میں حاملہ ہونے کی کوشش میں کئی بار ڈاکٹر کے پاس گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں بار بار بتایا گیا کہ کچھ بھی غلط نہیں ہے، لیکن ان کا کبھی معائنہ نہیں کیا گیا۔
انھیں اچھی طرح سے یاد نہیں ہے کہ کس عمر میں ان کی کوائل نکالی گئی تھی لیکن انھیں کبھی اولاد نہیں ہو سکی۔
ہولگا نے 2018 میں اپنے ڈاکٹر کے مشورے پر اپنی بچہ دانی نکلوا دی تھی کیونکہ انھیں لپپس لوپس کے نتیجے میں مختلف پیچیدگیاں ہو گئی تھیں۔
مجھے سب سے زیادہ خوفناک کہانی سوزین کیلسن کی لگی جن کی عمر اب 75 برس ہے۔
جب وہ اپنے دوسرے بچے کی مرتبہ پانچ ماہ کی حاملہ تھیں تو معمول کے معائنے کے دوران ان کے گائناکالوجسٹ نے انھیں بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ گائنی کی پیچیدگیوں کے باعث اسقاط حمل کروا لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حالانکہ ’تمام پیچیدگیاں‘ حاملہ ہونے سے پہلے حل ہو گئی تھیں اور وہ اچھی صحت میں تھیں۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود ان کے ڈاکٹروں نے ان کا اسقاط حمل کر دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے لیے انھیں کم از کم 31 ٹیکے لگائے گئے لیکن بچہ مرا نہیں۔ بلآخر ساتویں ماہ میں انھیں زچگی سے گزرنا پڑا اور پیدائش کے ایک گھنٹے کے دوران ہی ان کے بچے کی ہلاکت ہو گئی۔ اور اس کے چند گھنٹوں کے اندر ہی ڈاکٹروں نے ان میں چار مرتبہ کوائل رکھنے کی کوشش کی اور آخر کار انھوں نے ڈاکٹر کو ایسا کرنے سے منع کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد بھی انھیں گھر میں چھوٹے بچے کے رونے کی آوازیں آتی رہیں۔ ’میں اپنے ہی غم میں مبتلا ہو جاتی ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے وہ چاہتی ہیں کہ ڈنمارک کے حکام ان سے معافی مانگیں۔