فیس بک ریپسٹ جو اپنی خود کشی کا ڈرامہ

فیس بک ریپسٹ جو اپنی خود کشی کا ڈرامہ

فیس بک ریپسٹ جو اپنی خود کشی کا ڈرامہ رچا کر جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا

قتل اور ریپ کے ایک مجرم کو، جو جنوبی افریقہ کی جیل سے اپنی موت کا ڈرامہ رچا کر فرار ہونے میں کامیاب ہوا تھا، تنزانیہ سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

تھیبو بیسٹر ایک سال سے مفرور تھا۔ اس کے بارے میں حکام کا خیال تھا کہ اس نے جیل میں خود کو آگ لگا کر خود کشی کر لی ہے۔

تاہم گذشتہ ماہ ایک نئی پوسٹ مارٹم تفتیش میں انکشاف ہوا تھا کہ جیل سے جو لاش ملی وہ کسی اور کی تھی۔ اس کے بعد تھیبو بیسٹر کی تلاش شروع کر دی گئی تھی۔

جمعے کے دن بیسٹر کو گرل فرینڈ کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ اب ان کو جنوبی افریقہ منتقل کیا جائے گا۔

ان کے ساتھ ایک اور ملزم بھی موجود تھا۔ پولیس کا ماننا ہے کہ تینوں کینیا فرار ہونے کی تیاری کر رہے تھے۔

بیسٹر کو ’فیس بک ریپسٹ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیوں کہ وہ اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے جرم کرتے تھے۔

2012 میں بیسٹر کو اپنی ماڈل گرل فرینڈ کے ریپ اور قتل کے مقدمے میں سزا ہوئی۔ اس سے ایک سال قبل ان کو دو اور خواتین کے ریپ اور ڈکیتی کرنے کے مقدمے میں سزا ہوئی تھی۔

مئی میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ انھوں نے جیل میں خود کو آگ لگا کر خود کشی کر لی اور ان کی لاش ملی ہے۔

تاہم مقامی میڈیا نے گذشتہ سال سے بیسٹر کی خود کشی پر سوالات اٹھانا شروع کیے۔

مارچ میں مقامی پولیس نے اس وقت ایک نئی تفتیش کا آغاز کر دیا جب یہ معلوم ہوا کہ ہلاک ہونے والا شخص کوئی اور تھا جس کو سر پر گہری چوٹ آئی تھی۔

جس جیل میں بیسٹر کو قید کیا گیا تھا اس کی سکیورٹی برطانوی کمپنی جی فور ایس کے پاس ہے۔ اس کمپنی کے ملازمین پر الزام ہے کہ انھوں نے بیسٹر کو فرار ہونے میں مدد دی۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے اس واقعے میں ملوث تین افراد کو نوکری سے نکال دیا ہے۔

بی بی سی نے اس کمپنی سے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔

گذشتہ ایک سال میں بیسٹر کے بارے میں متعدد اطلاعات ملیں جن میں سے ایک میں دعوی کیا گیا کہ وہ جنوبی افریقہ میں ہی ہے اور جوہانسبرگ میں شاپنگ کرتے دیکھا گیا ہے جہاں وہ ایک حویلی نما مکان میں رہائش پذیر ہے۔

جنوبی افریقہ میں بیسٹر کے فرار کی خبر نے طوفان کھڑا کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ جنوبی افریقہ کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں جنسی ہراسانی کے کیسز دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *