صدام حسین کا کویت پر حملہ جسے صرف دھمکی سمجھا جا رہا تھا
دو اگست سنہ 1990 کی صبح تقریباً ایک لاکھ عراقی فوجی ٹینکوں، ہیلی کاپٹروں اور ٹرکوں کے ساتھ کویت کی سرحد میں داخل ہوئے۔
اس وقت عراق کی فوج دنیا کی چوتھی سب سے بڑی فوج تھی۔
محض ایک گھنٹے میں ہی وہ کویت سٹی پہنچ گئے اور دوپہر تک عراقی ٹینکوں نے کویت کے شاہی محل دسمان محل کو محاصرے میں لے لیا۔
اس وقت تک کویت کے امیر سعودی عرب فرار ہو چکے تھے۔ انھوں نے اپنے سوتیلے بھائی شیخ فہد الاحمد الصباح کو اپنی جگہ چھوڑا تھا۔ عراقی فوج نے شیخ کو دیکھتے ہی گولی مار دی۔
عراقی فوج کے ایک عینی شاہد کے مطابق ان کی لاش کو ایک ٹینک کے سامنے رکھ کر اس پر سے ٹینک کو گزارا گیا تھا۔
کویت پر حملہ کرنے سے پہلے بعث انقلاب کی 22ویں سالگرہ کے موقع پر صدام حسین نے اپنے مطالبات کی ایک فہرست کویت کے سامنے رکھی تھی۔
ان مطالبات میں بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت کو مستحکم کرنا، خلیجی جنگ کے دوران کویت سے لیے گئے قرض معاف کرنا اور مارشل پلان جیسا عرب منصوبہ تھا جو کہ عراق کی تعمیر نو میں مدد کے لیے بنایا گیا تھا۔
اس وقت کے صدر صدام حسین نے عراقی ٹی وی پر دھمکی دی کہ ‘اگر کویت ہماری بات نہیں مانتا تو ہمارے پاس حالات کو درست کرنے اور اپنے حقوق کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔’
صدام کو منانے کی تمام کوششیں ناکام
سعودی سفارت کار اور شاہ فہد کے قریبی مشیر ڈاکٹر غازی الغوث سیبی نے ایک انٹرویو میں کہا: ’درحقیقت سعودی عرب اور کویت دونوں نے یہ امید چھوڑ دی تھی کہ وہ خلیجی جنگ کے دوران عراق کو دیے گئے قرضے واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
‘لیکن دونوں ممالک نے سوچا کہ اگر انھوں نے عوامی طور پر اعلان کیا کہ انھوں نے قرض معاف کر دیا ہے، تو اس سے غلط پیغام جائے گا۔
‘شاہ فہد نے صدام کو قرضہ معافی کے بارے میں آگاہ کیا لیکن صدام نے ایسا تاثر دیا جیسے وہ سعودی عرب کے اس اقدام سے خوش نہیں ہیں۔ اسی وقت شاہ فہد کو احساس ہو گیا کہ کویت کے برے دن آ گئے ہیں۔’
لیکن کویت کے سامنے مطالبات کی فہرست رکھنے سے پہلے ہی صدام نے حملہ کرنے کا ذہن بنا لیا تھا۔
21 جولائی تک تقریباً 30,000 عراقی فوجیوں نے کویت کی سرحد کی طرف بڑھنا شروع کر دیا تھا۔
25 جولائی کی دوپہر کو تقریبا ایک بجے صدام نے بغداد میں امریکی سفیر اپریل گلیسپی کو طلب کیا۔ صدام کویت میں اپنی مہم پر ان کا ردعمل جاننا چاہتے تھے۔
اس سے پہلے فروری میں امریکی سفیر کا صدام حسین کے ساتھ وائس آف امریکہ کی ایک نشریات پر سفارتی تصادم ہوا تھا جس میں صدام کے عراق کا موازنہ ایلین چاچیسکو کے رمانیہ سے کا گيا تھا۔
گلیسپی نے اس نشریات پر صدام سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا عراقی حکومت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
صدام نے اس ملاقات کو یہ کہہ کر ختم کیا کہ اگر کویت کے ساتھ معاہدہ نہ ہوسکا تو یہ لازم ہے کہ عراق موت کو قبول نہیں کرے گا۔
صدام کے ارادوں کے بارے میں اندازہ غلط نکلا
صدام کے سوانح نگار کون کوفلن ان کی سوانح عمری ‘صدام دی سیکرٹ لائف’ میں لکھتے ہیں: ‘گلسپی اس میٹنگ سے یہ سوچ کر باہر آئیں کہ صدام محض خالی دھمکیاں دے رہے ہیں اور ان کا کویت پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔’
‘پانچ دن بعد وہ صدر بش سے مشاورت کے لیے واشنگٹن روانہ ہو گئیں۔ جب گلسپی کی صدام سے ملاقات کی تفصیلات چند دنوں بعد بغداد میں شائع ہوئیں تو عرب امور میں کافی تجربہ رکھنے والی 48 سالہ سفارت کار پر نادان ہونے کا الزام لگایا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ انھوں نے صدام کی کویت مہم کو سبز بتی دکھا دی۔’
گلیسپی نے اس الزام کی سختی سے تردید کی۔ 1990 کی دہائی میں نیویارک ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے واضح کیا: ‘نہ میں نے اور نہ ہی کسی اور نے سوچا کہ عراق پورے کویت پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔’
اس معاملے میں کویت، سعودی اور مغربی دنیا کی سوچ بالکل غلط نکلی۔ مصری صدر حسنی مبارک نے نجی طور پر واشنگٹن اور لندن کو یقین دلایا کہ صدام کا کویت پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور یہ کہ عرب سفارت کاری بحران کو حل کر لے گی۔
عراقی افواج بلا مقابلہ کویت میں داخل ہوئی
دو اگست سنہ 1990 کو رات کے دو بجے ایک لاکھ عراقی فوجی 300 ٹینکوں کے ساتھ کویت کی سرحد عبور کر گئی۔
کویت کی سولہ ہزار فوجیوں کی فوج ان کا مقابلہ نہ کر سکی۔ کویت کی سرحد پر ایک دم بھی احتجاج نہیں ہوا۔
جب عراقی افواج دارالحکومت کویت سٹی پہنچیں تو انھیں کویتی فوجیوں کی طرف سے معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ جلد ہی ان پر قابو پا گئے۔
کویتی جنگی طیارے فضا میں ضرور اڑے لیکن عراقیوں پر بمباری کرنے کے لیے نہیں بلکہ سعودی عرب میں پناہ لینے کے لیے۔ کویتی بحریہ بھی اپنی جگہ پر کھڑی تماشا دیکھتی رہی۔ صدام کے لیے واحد دھکا امیر کویت اور اس کے تمام وزراء کا سعودی عرب میں محفوظ فرار تھا۔
ریپبلکن گارڈ کی ایک یونٹ کو حکم دیا گیا کہ وہ پہلے دسمان محل میں جائیں اور کویت سٹی میں داخل ہوتے ہی شاہی خاندان اسیر کر لیے جائیں۔
کان کفلن لکھتے ہیں: ‘شاہی خاندان کے واحد فرد شیخ فہد نے سعودی عرب فرار نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ جب عراقی فوج محل میں پہنچی تو وہ کچھ کویتی فوجیوں کے ساتھ محل کی چھت پر پستول لیے کھڑے تھے۔ ایک عراقی فوجی نے انھیں گولی مار دی۔’
برطانوی طیارے میں سوار یرغمالی بنے
سات گھنٹوں کے اندر پورے کویت پر عراقی فوج کا قبضہ ہو گیا۔ حکومت کے ساتھ ساتھ کویت کے تقریباً تین لاکھ شہری بھی ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ اسی لیے صدام کو اچانک برٹش ایئرویز کے طیارے پر قبضہ کرنے کا موقع ملا۔
ہوا یوں کہ جیسے ہی کویت پر حملہ شروع ہوا لندن سے دہلی جانے والی برٹش ایئرویز کی پرواز اس حملے سے بے خبر ایندھن لینے کے لیے کویت کے ہوائی اڈے پر اتری۔
مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اندازہ لگایا تھا کہ عراق نے کویت پر حملہ کیا ہے لیکن کسی نے طیارے کو الرٹ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔
جیسے ہی طیارہ کویت میں اترا، تمام فلائٹ کے عملے اور مسافروں کو قید کر لیا گیا۔ انھیں بغداد لے جایا گیا تاکہ اہم مقامات پر حملوں سے بچنے کے لیے انھیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
حملے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی صدر جارج بش نے عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں اور طیارہ بردار بحری جہاز ‘انڈیپینڈنس’ کو بحر ہند سے خلیج فارس میں آنے کا حکم دے دیا تھا۔
امریکہ نے عراق کا سارا پیسہ ضبط کر لیا
امریکی بینکوں میں جمع عراقی رقم ضبط کر لی گئی۔ اس وقت برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر امریکہ کے دورے پر تھیں۔
انھوں نے کویت پر عراقی حملے کا موازنہ 1930 کی دہائی میں چیکوسلواکیہ پر جرمن حملے سے کیا۔ ہر چند کہ امریکہ اور سوویت یونین نے ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ راہیں اختیار کر رکھی تھیں لیکن دونوں نے عراق پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے مشترکہ بیانات جاری کیے۔
اقوام متحدہ اور عرب لیگ نے بھی عراق کے اس اقدام کی مذمت کی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے عراق پر مکمل اقتصادی اور تجارتی پابندیاں عائد کر دیں۔
ترکی اور سعودی عرب سے گزرنے والی عراق کی تیل کی پائپ لائن کاٹ دی گئی۔ سعودی سرحد پر عراقی فوجیوں کے جمع ہونے کے پیش نظر سعودی عرب نے امریکہ سے فوجی مدد کا مطالبہ کیا۔
عراق کو کویت سے نکالنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے، اگلے چھ ماہ میں تقریباً 60 ہزار فوجیوں کو سعودی عرب کی سرزمین پر بھیج دیا گیا۔
سات اگست کو صدر بش نے ایک قومی ٹی وی نشریات میں کہا کہ وہ 82 ویں ایئر بورن ڈویژن کو سعودی عرب بھیج رہے ہیں۔
یہ آپریشن ‘ڈیزرٹ سٹارم’ کا آغاز تھا اور ویتنام جنگ کے بعد غیر ملکی سرزمین پر امریکی فوجیوں کی سب سے بڑی تعیناتی تھی۔
عرفات اور متراں کی صدام حسین کی حمایت
اسی دوران صدام حسین نے اپنے کزن الحسن الماجد کو کویت کا گورنر مقرر کر دیا۔ یہ وہی مجید تھا جس نے سنہ 1988 میں حلبجہ میں ہزاروں کردوں کو گیس چھوڑ کر ہلاک کر دیا تھا۔
فلسطینی رہنما یاسر عرفات بھی صدام کی حمایت کرنے والے چند لوگوں میں شامل تھے، تجزیہ کار ان کی حمایت پر حیران تھے کیونکہ ایک وقت میں صدام نے عرفات کے طاقت کے مرکز کو کچلنے کے لیے اپنی تمام تر طاقت لگا دی تھی۔
ستمبر میں، صدام کی بالواسطہ حمایت ایک اور ذریعہ سے ہوئی۔ فرانس کے صدر فرانسوا متراں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں کہا کہ وہ کویت میں عراق کے کچھ زمینی دعووں کو جائز سمجھتے ہیں۔
چند ماہ قبل صدام حسین نے کویت میں کام کرنے والے 327 فرانسیسی مزدوروں کو رہا کر کے فرانس کی ہمدردی حاصل کی تھی۔
ان کارکنوں کو اسی دن رہا کیا گیا جب امریکی وزیر خارجہ جیمز بیکر عراق کے خلاف حکمت عملی پر بات کرنے کے لیے پیرس آ رہے تھے۔
صدام کی برطانوی قیدیوں سے ملاقات
امریکہ کے بعد برطانیہ اس معاملے پر عراق کا سب سے بڑا مخالف تھا۔ دریں اثنا، صدام حسین نے عراق میں قید برطانوی لوگوں سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
کان کفلن لکھتے ہیں: ‘ان سے ملاقات کے بعد صدام نے اس بات کا اعادہ کیا کہ عراق میں ان یرغمالیوں کی موجودگی امن کے لیے ضروری ہے۔ انھیں یقین تھا کہ جب وہ وہاں موجود ہون گے تو اتحادی ملک عراق پر بمباری کرنے کے بارے میں نہیں سوچے گا۔
‘اس کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران جسے دنیا بھر میں براہ راست نشر کیا گیا، صدام نے سات سالہ برطانوی لڑکے سٹورٹ لاک وڈ سے عربی میں پوچھا، ‘کیا سٹورٹ کو آج دودھ ملا؟’
بچے کے چہرے پر خوف کے تاثرات نے ان تمام لوگوں کی حالت ترجمانی کر دی جو اس وقت صدام کے قبضے میں تھے۔
اسی دوران سابق عالمی ہیوی ویٹ باکسر محمد علی اور جرمنی کے سابق وزیر اعظم ولی برانڈ اور برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ایڈورڈ ہیتھ بھی صدام کو منانے کے لیے بغداد پہنچ گئے لیکن صدام پر ان کی اپیل کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
کویت میں نئے شناختی کارڈ جاری
کویت کے تین لاکھ افراد یعنی اس کی آبادی کے ایک تہائی لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
اکانومسٹ میگزین نے اپنے 22 دسمبر 1990 کے شمارے میں لکھا: ‘صدام کے انٹیلی جنس ایجنٹوں نے مخالفین پر تشدد کرنے کے لیے خالی محلوں کے تہہ خانوں کو ایوانوں میں تبدیل کر دیا۔ کئی سڑکوں کے نام تبدیل کر دیے گئے اور شہریوں سے نئے شناختی کارڈ اور لائسنس پلیٹس حاصل کرنے کو کہا گیا۔
‘بغداد اور کویت کے درمیان وقت کا فرق ختم کر دیا گیا۔ ایک حکم نامے کے ذریعے کویت کے عوام پر داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کر دی گئی اور اس کی مخالفت کرنے والوں کی داڑھی چمٹے سے کھینچ لی گئی۔’
کویت مہم کے وقت صدام حسین کا مزاج ان کے ایک جرنیل وفیق السمورائی نے اس طرح بیان کیا ہے:
‘صدام نے ہمیں امریکی فوجیوں کو پکڑنے کا حکم دیا تاکہ وہ عراقی ٹینکوں کے ارد گرد انسانی ڈھال کے طور پر استعمال ہو سکیں۔
‘انھیں یہ غلط فہمی تھی کہ اس طرح ہزاروں امریکی فوجیوں کو پکڑ کر انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مجھے اور دوسرے جرنیلوں کو صدام کی اس حماقت پر افسوس اور حیرت ہوئی۔’
امریکیوں کی طویل مدتی لڑائی لڑنے پر شکوک و شبہات
اٹلانٹک میگزین کے مئی 2002 کے شمارے میں ایک انٹرویو میں سمرائی نے کہا: ‘جب میں نے صدام کو بتانے کی کوشش کی کہ ہم تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں، تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا یہ میری ذاتی رائے ہے یا حقیقت؟’
‘میں نے جواب دیا کہ میں نے یہ رائے سامنے موجود حقائق کی بنیاد پر قائم کی ہے۔ اس پر صدام نے کہا، اب آپ میری رائے سنیں، ایران اس جنگ میں مداخلت نہیں کرے گا۔ ہماری افواج آپ کے خیال سے کہیں زیادہ لڑیں گی۔ ہوائی حملوں سے بچنے کے لیے بنکر کھودیں۔
‘وہ طویل عرصے تک لڑیں گے اور دونوں طرف سے بہت زیادہ جانی نقصان ہوگا۔ ہم نقصان برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن امریکی نہیں۔ وہ اپنے فوجیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کو قبول نہیں کریں گے۔’
عراق میں فضائی حملوں سے شدید تباہی
صدر بش نے 16 جنوری 1991 کو عراق پر فضائی حملوں کا حکم دیا۔ یہی نہیں پورے عراق میں زبردست تباہی مچائی گئی، چار ہفتوں میں عراق کے چار نیوکلیئر ریسرچ پلانٹس کا نام و نشان مٹ گیا۔
عراق کے تمام تزویراتی اور اقتصادی اہداف جیسے سڑکیں، پل، بجلی گھر اور تیل کے ذخائر تباہ ہو گئے۔
عراقی فضائیہ کے حوصلے کو اس وقت بڑا دھچکا لگا جب اس کے 100 سے زائد جنگی طیاروں نے ایران میں پناہ لی۔ اطلاعات تھیں کہ عراقی فضائیہ نے یہ قدم صدام کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کے بعد اٹھایا ہے۔
یہ بغاوت اس وقت کی گئی جب صدام نے فضائیہ کے افسروں کو امریکی فضائی حملوں کو روکنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے موت کی سزا سنائی تھی۔
صدام کے فوجیوں نے سعودی سرحد کے اندر 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قصبے خفجی پر قبضہ کر لیا لیکن چند ہی دنوں میں اتحادی افواج نے عراقی فوجیوں سے اس قصبے کو واپس لے لیا۔
58000 عراقی فوجی جنگی قیدی بن گئے
اس دوران جب سوویت رہنما میخائل گورباچوف کے خصوصی ایلچی یوگینی پریماکوف صدام سے ملنے بغداد آئے تو وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ ان کا وزن تقریباً 15 کلو کم ہو گیا ہے۔
18 فروری کو عراقی وزیر خارجہ طارق عزیز ماسکو گئے اور سوویت یونین کی طرف سے عراق کو کویت سے غیر مشروط طور پر نکالنے کی تجویز کو قبول کر لیا۔ لیکن اس وقت تک عالمی رہنماؤں میں صدام کی ساکھ اتنی کم ہو چکی تھی کہ محض یقین دہانی سے کام نہیں چل رہا تھا۔
عراق پر زمینی حملے کے خوف سے صدام حسین نے حکم دیا کہ کویت میں تیل کے تمام کنوؤں کو آگ لگا دی جائے۔
بالآخر صدر جارج بش نے فوجی کمانڈر جنرل نارمن شوارزکوف کو حکم دیا کہ اگر عراقی فوج 24 فروری تک کویت سے نہیں نکلتی ہے تو اسے زبردستی ہٹا دیا جائے۔
امریکی حملے کے 48 گھنٹوں کے اندر عراقی فوج نے شکست تسلیم کر لی۔ چھ ہفتوں کی مسلسل بمباری کے بعد، عراقی فوجی لڑنے کے موڈ میں نہیں تھے۔
حملے کے دوسرے دن کے اختتام تک 20,000 عراقی فوجی قیدی بنائے جا چکے تھے اور 370 عراقی ٹینک تباہ ہو چکے تھے۔
بالآخر صدام حسین کو یکم اگست 1990 کو اپنے فوجیوں کو اپنی پوزیشن پر واپس آنے کا حکم دینا پڑا۔
26 فروری کو کویت میں ایک بھی عراقی فوجی نہیں بچا تھا۔ اسے یا تو جنگی قیدی بنا لیا گیا تھا یا پھر عراق واپس ہو گیا تھا۔
عراق کے جنگی قیدیوں کی تعداد بڑھ کر 58 ہزار ہو گئی تھی اور اس جنگ میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ عراقی فوجی یا تو زخمی ہوئے یا مارے گئے۔
عراقی فوجی حکام نے صرف ایک درخواست کی تھی کہ انھیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے پرواز کی اجازت دی جائے کیونکہ عراق کی تمام سڑکیں اور پل امریکی بمباری سے تباہ ہو چکے تھے۔ امریکی جنرل شوارزکوف نے ان کی درخواست قبول کر لی۔