انڈیا اور چین روس کے سستے تیل اور گیس

انڈیا اور چین روس کے سستے تیل اور گیس

انڈیا اور چین روس کے سستے تیل اور گیس سے کیسے مستفید ہو رہے ہیں؟

انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ملک کی توانائی کا تحفظ بہت ضروری ہے اور توانائی کی فراہمی پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد انڈیا بڑی مقدار میں سستا روسی تیل خرید رہا ہے اور چین کی روسی تیل کی درآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

کتنا روسی تیل ایشیا میں جا رہا ہے؟

انڈیا اور چین اس وقت روسی خام تیل کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ انڈیا کی روسی تیل کی درآمدات رواں برس کے آغاز میں بڑھ کر جون اور جولائی میں اپنے عروج پر پہنچ گئی اور اکتوبر تک یہ سلسلہ برقرار رہا۔ چین کی طرف سے روسی تیل کی خریداری میں اس سال اتار چڑھاؤ آیا ہے، جو فروری میں روس کے یوکرین پر حملے کے شروع میں کم ہوئی، لیکن پھر اگلے مہینوں میں نمایاں طور پر اس میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔

یوکرین کے حملے کے بعد روس اس سال مارچ سے رعایتی نرخوں پر تیل فروخت کر رہا ہے۔ مارچ میں روس سے چین اور انڈیا کی مشترکہ تیل کی درآمدات یورپی یونین کے 27 رکن ممالک کی تیل کی مجموعی درآمدات سے بھی بڑھ گئی تھی۔

واضح رہے کہ ان دو کے علاوہ دوسرے ممالک نے بھی رعایتی روسی خام تیل کا فائدہ اٹھایا ہے۔ مثال کے طور پر سری لنکا، جو شدید اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔

چین

روس کے سستے تیل کا بہاؤ ایشیا کی طرف بڑھ رہا ہے

یوکرین پر حملے کے بعد روس کے یورل نامی خام تیل کے خریداروں میں واضح کمی واقعی ہوئی۔ کچھ غیر ملکی حکومتوں اور کمپنیوں نے روس کی توانائی کی برآمدات کو روکنے کا فیصلہ کیا جس سے روسی تیل کی قیمت گرنا شروع ہو گئی۔ رواں برس کے آغاز میں ایک موقع پر روسی یورال خام تیل عالمی معیار کے برینٹ کروڈ کے مقابلے میں 30 ڈالر فی بیرل سے زیادہ سستا تھا۔ ستمبر کے آخر تک، یہ تقریباً 20 ڈالر فی بیرل سستا تھا۔ انڈین حکومت نے روس سے اپنی خریداری کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے تیل وہاں سے حاصل کرنا ہوگا جہاں سے یہ سستا ملے گا۔

امریکی حکومت ان خریداریوں پر تنقید کرتی رہی ہے، حالانکہ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ قبول کرتی ہے کہ انڈیا رعایتی روسی تیل خریدنا جاری رکھ سکتا ہے۔ دنیا کے امیر ممالک کے G7 گروپ جس میں برطانیہ، امریکہ، فرانس، جرمنی، جاپان، اٹلی اور کینیڈا شامل ہیں نے روسی تیل کی قیمت کو محدود کرنے کا منصوبہ تجویز کیا ہے تاکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو کم کیا جا سکے۔

لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس کا انڈیا اور چین جیسے ممالک پر کیا اثر پڑ سکتا ہے جو پہلے ہی رعایت پر روسی تیل خرید رہے ہیں۔

ماسکو نے کہا ہے کہ وہ تیل ان ممالک کو فروخت کرنا بند کر دے گا جو اس کی خام برآمدات پر قیمتوں کی حدیں لگانے کی کوشش کریں گے۔

اس کے علاوہ دسمبر میں یورپی یونین کو یوکرین پر حملے کے بعد روس کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کے سلسلے میں سمندری راستے سے روسی تیل کی درآمد مکمل طور پر روکنے کا منصوبہ بھی بنا رکھا ہے۔

انڈیا

روس کے خلاف پابندیوں کا کیا اثر ہوگا؟

اگرچہ روسی خام تیل کی قیمت پرکشش ہے مگر انڈیا کی ریفائنریوں کو خریداری کے لیے مالی اعانت کی کوشش کرنے کے لیے ایک چیلنج کا سامنا ہے، کیونکہ روسی بینکوں پر پابندیاں ادائیگی کے لین دین کو متاثر کر رہی ہیں۔

انڈیا جس آپشن پر غور کر رہا ہے ان میں سے ایک مقامی کرنسیوں پر مبنی نظام ہے، جہاں روس کو انڈین برآمد کنندگان کو ڈالر یا یورو کے بجائے روبل میں ادائیگی کی جاتی ہے اور درآمدات کی ادائیگی روپے میں کی جاتی ہے۔

چین کے سرکاری تیل کے ادارے بیرون ملک سے تیل کی خریداری کے لیے امریکی ڈالر کے بجائے چینی کرنسی کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔

روس

،تصویر کا ذریعہCHINA CUSTOMS

کتنی روسی گیس ایشیا میں جاتی ہے؟

انڈیا کی گیس کی کل ضروریات کا تقریباً 50 فیصد بیرون ملک سے آتا ہے۔۔ لیکن یہ زیادہ تر خلیجی ریاستوں سے ہے اور روس سے بہت کم ہے۔

روسی ایل این جی (مائع قدرتی گیس) کی انڈیا کو ترسیل نایاب ہے، ارگس میڈیا کے ساتھ کام کرنے والے کموڈٹی انڈسٹری کے ماہر انتونیو پیکیسیا کہتے ہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ اس سال اب تک پانچ کارگو ہیں، جو ایک سال پہلے کے سات کارگو سے کم ہیں۔

چین اپنی زیادہ تر گیس پائپ لائن کے ذریعے وسطی ایشیا سے درآمد کرتا ہے۔ اس وقت ترکمانستان سب سے بڑا سپلائی کرنے والا ملک ہے۔

لیکن ایک بار ایک نئی پائپ لائن، جسے پاور آف سائبیریا کہا جاتا ہے، اس دہائی کے آخر میں مکمل ہو جائے گی، جس کے بعد روس چین کو گیس فراہم کرنے والے سب سے بڑا سپلائر کے طور پر ابھر کر سامنے آ سکتا ہے۔ اور رواں برس روس سے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، حالانکہ چین کی زیادہ تر ایل این جی اب بھی دوسرے ممالک سے آتی ہے۔

چین نے روسی ایل این جی کو بحیرہ آرکٹک کے رستے منتقل کرنے کے نئے معاہدوں پر بھی دستخط کیے ہیں۔ ستمبر میں، روس کی گیز پروم اور چائنا نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن نے روسی گیس کی ادائیگی کے لیے ڈالر کے بجائے روسی روبل اور یوآن استعمال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *