سکالرشپ  کیا بیرون ملک تعلیم کے لیے سکالرشپ

سکالرشپ  کیا بیرون ملک تعلیم کے لیے سکالرشپ

سکالرشپ  کیا بیرون ملک تعلیم کے لیے سکالرشپ حاصل کرنا اب ایک مخصوص طبقے تک محدود ہو گیا ہے؟

’اگر سکالرشِپ کے لیے اپلائی کرنا ہے تو ٹیسٹ تو دینا پڑے گا، کیا مطلب آپ ٹیسٹ کا خرچہ نہیں اٹھا سکتیں، یہ تو بہت ہی معمولی رقم ہے جو تمام طلبا دیتے ہیں۔’

‘ٹیسٹ دینے سے پہلے اپنی انگریزی بھی ٹھیک کر لو، اس کے لیے الگ کلاسز ہوں گی۔اور ان کی فیس الگ،’

‘دیکھو جو بھی ہو، آخر اپنا ملک اپنا ہوتا ہے، یہیں ڈھونڈ لو نا یہ سبجیکٹ۔کیا ضرورت ہے باہر جا کر پڑھائی کرنے کی۔’

یہ وہ تمام باتیں ہیں جو سکالرشِپ پر بیرونِ ملک جانے والے پاکستانیوں کو اکثر سننی پڑتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک بڑی تعداد ایسے پاکستانیوں کی بھی ہے جن کا خیال ہے کہ سکالرشِپ اب امیر طبقے کے لیے مخصوص کر دی گئی ہے

اب سوال بنتا ہے کہ آخر طلبا ایسا کیوں سوچتے ہیں؟

اسی فرق کو سمجھنے کے لیے جب اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی کا دورہ کیا، تو ادھر ملاقات ہوئی کوئٹہ سے آئی ہوئی طالبہ اقرا ناصر سے۔

اقرا ناصر نے بتایا کہ اس وقت وہ تاریخ کا مضمون پڑھ رہی ہیں لیکن یہ ان کا اصل سبجیکٹ نہیں تھا۔

’میں دراصل تحقیق کرنا چاہتی تھی کہ بلوچستان کے ترقیاتی عمل نے وہاں کے معاشرے کو کیسے اثر انداز کیا ہے۔ ڈھونڈنے پر پتا چلا کہ یہ سبجیکٹ پاکستان میں پڑھایا ہی نہیں جاتا۔ اس کے لیے میں نے دو بار سکالرشِپ کے لیے اپنا فارم بھرا، اور دونوں مرتبہ مجھے بغیر کوئی وجہ بتائے مسترد کر دیا گیا۔‘

اقرا نے بتایا کہ ناصرف کوئٹہ میں ٹیسٹ سینٹرز نہیں ہیں بلکہ اس کے لیے ان جیسے طلبا کو کراچی، لاہور یا اسلام آباد جانا پڑتا ہے۔ تو ٹیسٹ کی فیس کے ساتھ ساتھ سفر اور رہائش کا خرچہ بھی اٹھانا پڑتا ہے

گریجوئیٹ ریکارڈ ایگزیمینیشن یعنی جی آر آئی، ایلٹس اور ٹوفل وہ تمام امتحانات ہیں جن کے ذریعے بیرونِ ملک قائم یونیورسٹی کسی دوسرے ملک سے آنے والے طالبعلموں کی جانچ کرتی ہے، کہ آیا وہ بیرونِ ملک پڑھائے جانے والے نصاب کو سمجھ بھی سکتے ہیں یا نہیں۔

اسی طرح سال کے 12 مہینوں کے دوران ان امتحانات کی تاریخ کی فہرست شائع کی جاتی ہے جس کو دیکھ کر پاکستان کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے طالبعلم اپنا سینٹر منتخب کر کے ٹیسٹ دینے جاتے ہیں۔

لیکن بلوچستان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی طالبعلم کے لیے بیرونِ ملک سکالرشِپ حاصل کرنا کسی معرکے سے کم نہیں ہوتا۔

اقرا نے بتایا کہ ناصرف کوئٹہ میں ٹیسٹ سینٹرز نہیں ہیں بلکہ اس کے لیے ان جیسے طلبا کو کراچی، لاہور یا اسلام آباد جانا پڑتا ہے۔ تو ٹیسٹ کی فیس کے ساتھ ساتھ سفر اور رہائش کا خرچہ بھی اٹھانا پڑتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے دونوں مرتبہ سکالرشِپ کے لیے 36 ہزار روپے ٹیسٹ کی فیس، بس کا کرایا 3500 روپے، اور ہوٹل میں رہائش کا خرچہ 8000 ہزار روپے بھرا ہے۔ جب میں سکالرشِپ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی تو محسوس ہوا کہ یہ پورا عمل ایک خاص طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے۔‘

اسی طرح کراچی کی رہائشی اور صحافی رابعہ مشتاق نے 2017 میں پہلی مرتبہ ایک امریکی سکالرشِپ کے لیے اپلائی کیا تھا۔ اور ان کی درخواست مسترد ہونے کے ڈیڑھ سال بعد انھوں نے پھر سکالرشِپ میں داخلے کی حامی بھری۔

اس دوران انھوں نے اپنی کمائی میں سے پیسے بچا کر ٹیسٹ کی فیس ادا کی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘لیکن اب تک میں چار مرتبہ سکالرشِپ کے لیے اپلائی کر چکی ہوں اور ہر بار مجھے بغیر کوئی وجہ بتائے مسترد کیا گیا ہے۔ اب یہ حال ہو چکا ہے کہ میں اس پورے عمل سے گھبرا گئی ہوں۔ اور میں نے اب ہار مان لی ہے۔ نہ میں اور نہ ہی میرے والدین یہ خرچہ اٹھا سکتے ہیں۔ اور اس وقت صرف سکالرشِپ میں اپلائی کرنے کے خرچے کی بات ہو رہی ہے۔جو ہر سال بڑھ جاتا ہے۔’

پاکستانی طلبا

ہری پور کی سارہ سلطان عاقب کی بھی یہی کہانی ہے۔ انھوں نے ایک فیلوشِپ کے لیے اپلائی کیا جس دوران انھیں امریکہ جانے کا موقع ملا۔

اس مختصر فیلوشِپ کے دوران انھیں لگا کے انھیں پی ایچ ڈی کے لیے بھی اپلائی کرنا چاہیے۔

‘مجھے سکالرشپ کے لیے اپنی درخواست فارم بھرنے میں مشکلات کا سامنا ہوا لیکن میں کرتی گئی۔ تین، چار مرتبہ ایسا کرنے کے بعد مجھے بالاخر موقع مل ہی گیا۔ اب میں امریکی ریاست ٹینیسی میں رہتی ہوں۔ لیکن میں اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان تمام طالبعلموں کی مدد کرتی ہوں جو درخواست فارم میں اپنی سٹیٹمنٹ صحیح طرح سے نہیں لکھ پاتے۔’

ضرورت مند طلبا اور سیاق و سباق سمجھانے کی ضرورت

پاکستانی طلبا
ڈائریکٹر ٹیچر ڈیویلپمنٹ سینٹر عباس حسین نے بتایا کہ اکثر طلبا سکالرشِپ فارم صحیح سے نہیں بھر پاتے

اس بارے میں ڈائریکٹر ٹیچر ڈیویلپمنٹ سینٹر عباس حسین نے بتایا کہ اکثر طلبا سکالرشِپ فارم صحیح سے نہیں بھر پاتے۔

‘ہاں، یہ ضرور ہے کہ اس میں ایک واضح ترجیح ان طلبا کو دی جاتی ہے جنھوں نے پہلے سے ہی ایک اچھے اور متحرک نظام میں تعلیم حاصل کی ہے۔ تو اب سوال یہ بنتا ہے کہ کیا سکالرشِپ اب بھی ضرورت مند طالبعلموں کے لیے ہیں یا انھوں نے اپنے دائرہ کار میں دیگر بڑے سکولوں اور کالجوں سے پڑھنے والوں کو شامل کرلیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ ان تمام ضرورت مند طالبعلموں کے ساتھ نا انصافی ہے۔’

ساتھ ہی، عباس حسین نے کہا کہ ‘دوسری جانب، ہمارے طلبا کو مضمون نگاری اور جس دلائل کے ساتھ سوچ پیش کرنے کا انداز ہوتا ہے وہ اردو میں بھی کرنا نہیں آتا۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزی میں بھی یہی حال ہے یا معذرت کے ساتھ اس سے برا ہے۔’

انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ‘اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ طلبا اہم واقعات اور تاریخیں بتا دیتے ہیں لیکن اس پر بحث کرنا یا اس کا سیاق و سباق یا تناظر نہیں سمجھا پاتے ہیں۔ اور اس طرح کی سوچ کی بیرونِ ملک یونیورسٹی کی نظر میں بہت اہمیت ہوتی ہے خاص طور سے جب آپ کسی بیرونِ ملک سکالرشِپ کے لیے اپلائی کرتے ہیں۔’

تو وہ کیا پانچ باتیں ہیں جن کا طلبا کو سکالرشِپ فارم بھرتے ہوئے خیال رکھنا چاہیے؟

عباس حسین بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے تو اس بات کا ارادہ یا تعین کر لیں کہ آپ کو یہ سکالرشِپ کیوں چاہیے؟ آپ کو یہ کیوں دی جائے؟ ’آپ کو اس بارے میں پُراعتماد ہونا چاہیے کہ آپ اس سکالرشِپ کے لیے بہترین ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اپنی پرسنل سٹیٹمنٹ میں آپ وہ ساری باتیں اور واقعات گنوا دیں جس کے تحت یہ بات صاف طور پر واضح ہو جائے کہ آپ کو یہ سکالرشِپ کس مقصد کے لیے چاہیے اور آپ کو اسے حاصل کرنے کا شوق کیوں ہوا؟ وہ کیا واقعہ تھا جس کے تحت آپ کو لگا کہ یہ آپ کے لیے بہتر ہے۔

ان تمام اقدامات کا ذکر کریں جو آپ نے اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے کیے ہیں۔ اس میں ان مضامین کا ذکر کریں جو آپ نے پڑھے ہیں، یا ٹریننگ لی ہے۔ اگر نہیں لی اور آپ کو ٹریننگ کی ضرورت ہے جو اس سکالرشِپ کے ذریعے آپ کو مل سکتی ہے۔

اپنی تمام کوششوں کا بہرحال ذکر ضرور کریں۔ جس معاشرے میں آپ رہتے ہیں اس کے بارے میں آپ کی رائے اور آپ کی خدمات کیا رہی ہیں ان کا تذکرہ بھی کریں۔ اور آپ اپنے معاشرے کے لیے کیا کریں گے اگر آپ کو یہ سکالرشِپ ملتی ہے وہ پلان بھی بتائیں۔

پاکستانی طلبا

اکثر اوقات یونیورسٹی اور ان سکالرشِپ کو فنڈ کرنے والی حکومتوں کو یہ بات اچھی لگتی ہے جب آپ اپنے ملک واپس آتے ہیں اور جو سیکھا ہے اس کا اپنے ملک پر عمل کرتے ہیں۔

آخر میں عباس حسین نے کہا کہ آپ یہ ضرور بتائیں کہ آپ کو کن تکالیف سے گزرنا پڑا اور کیسے آپ نے اس کا حل تلاش کیا۔ اور کیسے ان تکالیف سے گزرنے کے بعد آپ اس قابل ہوئے ہیں کہ مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں یا سیکھنے کا عمل جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

پاکستانی طلبا کے لیے بیرونِ ملک پڑھنا کیوں ضروری ہے؟

اس بارے میں تمام تر طلبا نے ایک جواب بار بار دہرایا کہ ان کی پسند کا سبجیکٹ یا مضمون پاکستان میں نہیں پڑھایا جاتا اس لیے بیرونِ ملک پڑھائی حاصل کرنا ضروری بن جاتا ہے۔

قائدِ اعظم یونیورسٹی کے طالبعلم محمد عمیر نے کہا کہ ‘سکالرشِپ کے بعد آپ کے لیے بہت سے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔ کام ملنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اچھی تنخواہ مل جاتی ہے۔’

پاکستانی طلبا
قائدِ اعظم یونیورسٹی کے طالبعلم محمد عمیر نے کہا کہ ‘سکالرشِپ کے بعد آپ کے لیے بہت سے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔ کام ملنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اچھی تنخواہ مل جاتی ہے‘

سمیرا امین نے کہا کہ ‘پاکستان سے باہر جا کر آپ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام بھی کر سکتے ہیں۔ جس سے طلبا کو بہت فائدہ ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں اتنے مواقع نہیں ہیں۔ یہاں پر باہر سے پڑھائی کر کے آنے والے کی بہت عزت کی جاتی ہے۔‘

انعم درانی نے کہا کہ ‘طلبا اور ان کے والدین باہر کی یونیورسٹی کا خرچہ نہیں اٹھاسکتے اس لیے سکالرشِپ ضروری ہو جاتی ہے۔‘

ایک اور طالبہ نے کہا کہ ‘اگر سب اٹھ کر ملک سے باہر نہیں جا رہے تو ٹھیک ہے۔ لیکن باہر ملک میں اپنے مرضی کی تعلیم حاصل کرنے کے بہت فوائد ہیں۔ آپ خود مختار ہوجاتے ہیں، اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ کا کورس پاکستان میں نہیں پڑھایا جاتا تو آپ واپس آکر وہ کورس دیگر طلبا کو پڑھا سکتے ہیں۔’

جہاں تک بات ہے اقرا ناصر کی، تو وہ اب بھی بیرونِ ملک سکالرشِپ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اب سمجھ آیا ہے کہ امریکی اور یورپی ممالک کے علاوہ بہت سے متبادل ملک بھی ہیں جہاں میں تعلیم حاصل کرنے جاسکتی ہوں۔ جیسے کہ چین، جاپان، جنوبی کوریا اور ترکی۔ مجھے لگتا ہے کہ میرے لیے مواقعوں کی کمی نہیں ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *