ممکنہ ’آپریشن‘ سے ’معنی خیز‘ مذاکرات تک ٹی ایل پی کے

ممکنہ ’آپریشن‘ سے ’معنی خیز‘ مذاکرات تک ٹی ایل پی کے

ممکنہ ’آپریشن‘ سے ’معنی خیز‘ مذاکرات تک ٹی ایل پی کے ساتھ معاملات میں کس نے کیا کردار ادا کیا؟

لاہور سے 21 اکتوبر کو شروع ہونے والے کالعدم مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے عید میلاد النبی کے جلوس سے لے کر 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے تک اس کالعدم تحریک کا احتجاجی مارچ مختلف نشیب و فراز سے گزرا۔

اس دوران اس تنظیم کے سرکردہ رہنماؤں اور ریاست کے اہم ترین عہدوں پر فائز بعض شخصیات کے مابین مذاکرات کے کئی دور ہوئے جس میں ان شخصیات نے مختلف اوقات میں مختلف قسم کے مؤقف اختیار کیے۔

ان 10 روز کے دوران کئی مرتبہ انکار ہوا، جو بعد میں اقرار میں بدلا اور کئی بار ایسا بھی ہوا کہ اس احتجاجی مظاہرے کے خلاف ریاستی ایکشن ہوتے ہوتے ٹل گیا۔

حکومت، فوج، آئی ایس آئی، بعض اہم قومی رہنماؤں اور خود اس کالعدم تنظیم کے رہنماؤں نے ان مذاکرات کے دوران مختلف طرح کے مؤقف اختیار کیے اور ریاستی سطح پر متضاد نوعیت کے اشارے ملتے رہے اور فیصلے بدلتے رہے۔

یہ سارا معاملہ شروع اس وقت ہوا جب 21 اکتوبر کی شام کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے عید میلاد النبی کے سلسلے میں نکلنے والا جلوس اپنے مقررہ وقت پر اختتام پذیر ہونے کے بجائے طوالت اختیار کر گیا۔

لاہور پولیس اور قانون نافذ کرنے اور نگرانی کرنے والے اداروں کے ہاتھوں کے طوطے اس وقت اُڑ گئے جب سٹیج سے اعلان ہوا کہ میلاد کا یہ جلوس ختم نہیں ہو گا بلکہ احتجاجی مظاہرے کی شکل اختیار کرتے ہوئے اسلام آباد کا رُخ کرے گا۔

اس اعلان نے پولیس، صوبائی حکومت اور خاص طور پر انٹیلیجنس اداروں کے لیے ناصرف خطرے کی گھنٹی بجا دی بلکہ بعض اداروں کے لیے سبکی کا سامان بھی کر دیا۔

بعض ذرائع بتاتے ہیں کہ اس جلوس کے احتجاجی مارچ میں تبدیل ہونے کے بارے میں کسی بھی قانون نافذ کرنے والے یا انٹیلیجنس ادارے کو پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ ان اداروں کی یہ ’نالائقی‘ بہت سے اہم انٹیلیجنس اہلکاروں کی اپنے اعلیٰ افسران کے ہاتھوں کھنچائی کا باعث بھی بنی۔

ٹی ایل پی

جمعرات کو یعنی گذشتہ روز لاہور پولیس میں اعلیٰ سطح پر ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ کو بھی اسی ’سستی‘ کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔

جوں جوں اس جلوس کا رُخ لاہور کے خارجی راستوں کی طرف بڑھتا گیا، صوبائی کے بعد وفاقی حکومت میں بھی تشویش پیدا ہونی شروع ہو گئی۔ وزیرِ اعظم کو اطلاع فراہم کی گئی جس کے بعد لاہور میں وفاق کے زیر انتظام ایک اہم انٹیلیجنس ادارے کے دفتر میں بعض متعلقہ وزرا اور حکمران اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کا ایک غیر رسمی اجلاس بھی ہوا۔

اس اجلاس کی کارروائی سے باخبر ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں فیصلہ نہیں ہو سکا کہ اس جلوس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ حکمران جماعت کی قیادت اور بعض صوبائی وزرا نے اس جلوس کو بزور طاقت روکنے پر اصرار کیا جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس بارے میں ’اعلیٰ ترین سطح‘ سے تحریری حکم کے بغیر طاقت کے ’بھرپور‘ استعمال کی مخالفت کی۔

وہاں یہ ذکر بھی ہوا کہ اپریل میں اس طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس نے ایکشن لیا تھا جسے سیاسی حمایت نہیں ملی اور پولیس کو سبکی کے ساتھ جانی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

دوسری طرف اس انٹیلیجنس ایجنسی کے ریجنل ذمہ دار، جن کے دفتر میں یہ اجلاس ہو رہا تھا، انھوں نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا کہ ’کسی بھی سیاسی مینڈیٹ کے بغیر اس جلوس کے شرکا سے بات چیت تک ممکن نہیں ہے۔‘

اس شش و پنج میں پہلی رات گزری اور اگلی صبح یہ جلوس لاہور کی حدود سے باہر نکل چکا تھا اور اس دوران تشدد کے واقعات میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں بھی ہو چکی تھیں۔

ذرائع کے مطابق معاملہ وزیرِ اعظم تک پہنچا جنھوں نے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید سے ٹیلی فون پر بات کی اور ہدایت کی کہ یہ جلوس اسلام آباد میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔

پی ٹی آئی

اس مختصر حکم میں سیاسی حکمت عملی یا سمت کے تعین کا عنصر موجود نہیں تھا۔ ان دونوں رہنماؤں نے اگلے روز ملک سے باہر بھی جانا تھا لہٰذا اس مختصر حکم کو پنجاب حکومت کے حوالے کر کے وزیراعظم سعودی عرب اور وزیر داخلہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ میچ دیکھنے دبئی روانہ ہو گئے۔

ٹی ایل پی کا مارچ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا اور اس دوران بغیر کسی سیاسی اور حتمی فیصلے کے پولیس اور انتظامیہ انھیں روکنے کی نیم دلانہ سی کوششیں کرتی دکھائی دی۔ اس دوران تشدد کے واقعات بھی ہوئے اور غیر مسلح پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ان کے زخمی اور ہلاک ہونے کی خبروں میں تیزی آ گئی۔

اس موقع پر وزیر اعظم نے وزیرِ داخلہ کو فوراً واپس پہنچنے اور ٹی ایل پی کے ساتھ ’انگیج‘ کرنے کا حکم دیا۔

شیخ رشید اسلام آباد پہنچے اور وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کے ہمراہ وزیرِ اعلیٰ کے خصوصی طیارے میں لاہور روانہ ہو گئے۔

لاہور میں انھوں نے ٹی ایل پی کی شوریٰ کے بعض ارکان سے مذاکرات کیے جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے۔ شیخ رشید نے اس دوران مختلف ریاستی اداروں کے حکام سے رابطے کیے اور انھیں بھی ان مذاکرات میں کردار ادا کرنے پر راضی کر لیا۔

ان رابطوں سے واقف شیخ رشید کے بعض قریبی ذرائع نے بتایا کہ اس موقع پر طے پایا کہ ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی سے براہ راست رابطہ کیا جائے۔

یہ حربہ کامیاب رہا اور ٹی ایل پی شوریٰ کے بعض ارکان کی موجودگی میں سعد رضوی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں حکومت ان سے کچھ یقین دہانیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

لبیک

ذرائع کے مطابق ان میں سرِ فہرست یقین دہانی یہ تھی کہ جب تک حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان بات چیت جاری رہے گی، ان کا احتجاجی مارچ جہاں ہے وہیں رکا رہے گا اور یہ کہ وہ اسلام آباد کو ملک کے دوسرے حصوں سے ملانے والی شاہراہ جی ٹی روڈ کو کھول دیں گے۔

شیخ رشید نے بعد میں اپنے ایک قریبی ساتھی کو بتایا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ٹی ایل پی کے صفِ اوّل کے رہنماؤں میں سب سے معقول اور لچک دار رویہ سعد رضوی نے اختیار کیا۔

شیخ رشید واپس اسلام آباد آ گئے اور سعد رضوی جیل واپس چلے گئے، لیکن جی ٹی روڈ پر حالات نہیں بدلے۔

وزیرِ اعظم سعودی عرب سے واپس اسلام آباد پہنچے اور اپنی جماعت کی کور کمیٹی سے ملاقات کی۔ شیخ رشید نے صورتحال پر بریفنگ دی جس کے بعد مشاورت کا سلسلہ شروع ہوا اور متعدد ارکان نے اپنی رائے ظاہر کی۔ ٹی ایل پی کی ’سٹریٹ پاور‘ کے ساتھ ساتھ اس کی مستقبل میں انتخابی مقبولیت پر بھی بات ہوئی۔

اس طویل اجلاس کی روداد سے واقف بعض ذرائع کہتے ہیں کہ انھوں نے پی ٹی آئی کے بہت کم ایسے اجلاس دیکھے ہیں جس میں اتنی واضح اور دلیرانہ بات چیت اور مؤقف سامنے آیا ہو۔

بعض رہنماؤں نے اس معاملے کو صلح صفائی سے حل کرنے پر زور دیا جس میں شیخ رشید سرِ فہرست تھے مگر بڑی اکثریت سے یہ رائے مسترد ہوئی اور ٹی ایل پی کو ہر قیمت پر روکنے اور بغیر معاہدے کے گھر واپس بھیجنے پر اتفاق ہوا۔

اس اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وہ معروف جملہ کہا کہ ٹی ایل پی کے ساتھ ’عسکریت پسند گروہ‘ کے طور پر نمٹا جائے گا۔ پنجاب کو رینجرز کے حوالے کیا گیا اور ٹی ایل پی کے خلاف آپریشن کی تیاریاں شروع کر دی گئی۔

اگلے روز سنیچر تھا۔

وزیراعظم نے مسلح افواج اور انٹیلیجنس اداروں کے سربراہان کو بنی گالہ میں مدعو کیا اور اس معاملے پر مشاورت شروع ہوئی۔

وزیرِ داخلہ بھی اس اجلاس میں موجود تھے جن کے قریبی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے مشاورت مکمل ہونے کے بعد اپنا فیصلہ سنایا جو ٹی ایل پی سے کسی بھی قسم کے معاہدے یا بات چیت کے خلاف تھا۔

وزیرِ اعظم نے اجلاس کو واضح طور پر بتایا کہ وہ ریاست کی رٹ ہر حال میں برقرار رکھنا چاہیں گے۔

فائل فوٹو

اگلے روز وفاقی وزیرِ داخلہ سے کہا گیا کہ وہ پریس کانفرنس اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہوئے یہ پیغام سخت ترین لہجے میں ٹی ایل پی تک پہنچائیں۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ اتوار کے روز شیخ رشید کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد وزیرِ اعظم نے انھیں فون کیا اور اپنی ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لہجے اور الفاظ میں وہ ’سختی‘ واضح نہیں تھی جس کی انھیں ہدایت کی گئی تھی۔

اگلے روز قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا اور ذرائع کے مطابق وزیرِ اعظم نے لگی لپٹی رکھے بغیر اپنا مؤقف دہرایا کہ ریاست کی رٹ ہو یا نہ ہو، یہ معاملہ قابل بحث یا قابل مذاکرات نہیں ہے، اس لیے ٹی ایل پی ریاستی رٹ تسلیم کرے، احتجاج ختم کرے اور اپنے گھروں کو جائے، ورنہ طاقت استعمال ہو گی۔

اس اجلاس میں یہ بات تسلیم کی گئی کہ اگر ٹی ایل پی ایسا کر لیتی ہے تو پھر اس کے ساتھ لاہور میں بات ہو سکتی ہے۔ متعلقہ اداروں کو آپریشن ’کلین اپ‘ کی تیاری کی ہدایت کے ساتھ یہ اجلاس ختم ہوا۔

جس وقت نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا یہ اجلاس اسلام آباد میں جاری تھا، اس دوران بریلوی علما کرام کا ایک گروپ اچانک راولپنڈی میں نمودار ہوا۔ اس گروپ کی راولپنڈی اور پھر اسلام آباد میں چند ’خفیہ ملاقاتیں‘ ہوئیں اور واقفان حال کے مطابق اسلام آباد کا ماحول اچانک تبدیل ہو گیا۔

قمر جاوید باجوہ

انھی علما کا وفد مفتی منیب کی سربراہی میں بنی گالہ پہنچا اور ٹی ایل پی کے خلاف آپریشن کا فیصلہ اس کالعدم گروہ کے ساتھ ’معنی خیز‘ مذاکرات میں تبدیل ہو گیا۔ شیخ رشید مذاکراتی کمیٹی سے اور فواد چوہدری فیصلہ سازی کے عمل سے ’باہر‘ ہو گئے اور مفتی منیب اس سارے عمل میں ’اندر‘ ہو گئے۔

بنی گالہ کے بعد یہ وفد کہاں گیا، کس سے ملا، مذاکرات میں کون کون شامل رہا، اس دوران جو معاہدہ ہوا اس میں کیا یقین دہانیاں کروائی گئیں، یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ ریاست کے سیاسی ستونوں کے بعض اہم ترین افراد کو بھی یہ تفصیل معلوم نہیں۔

وزارت داخلہ کے سیکریٹری ان مذاکرات میں وفاق کی نمائندگی کرتے اور نوٹس لیتے رہے جبکہ ان کے باس یعنی شیخ رشید ان کی سرگرمیوں سے بھی لاعلم اور لاتعلق رہے۔

رات گئے ایک تصویر جاری ہوئی اور معاہدے کی کاپی تھامے ‘مذاکراتی ٹیم’ کے ایک رکن کا یہ جملہ سنائی دیا کہ فوجی سربراہ جنرل باجوہ نے ان مذاکرات میں ‘ہزار فیصد’ کردار ادا کیا ہے۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوا کہ یہ اعلان کرنے والے موصوف ان مذاکرات میں کس کی نمائندگی کر رہے تھے۔

ان مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے خفیہ مذاکرات پر عمل کا آغاز ہو چکا ہے اور ٹی ایل پی کے ارکان کی رہائی کے علاوہ اس پر سے کالعدم کا ٹھپہ ہٹانے کے لیے کارروائی بھی جاری ہے۔

لیکن اس سارے معاملے میں وزیراعظم کی رائے اب کیا ہے؟ کیا وہ ذاتی طور پر اپنے اس مؤقف پر قائم ہیں جو انھوں نے اپنی جماعت کی کور کمیٹی کے سامنے رکھا اور پھر فوجی سربراہان کے سامنے قطعی انداز میں اس پر ڈٹے رہے؟

اس سوال کے جواب میں وزیرِ اعظم ہاؤس کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر رابطہ رکھنے والے ایک سرکاری افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ جاننے کے لیے آپ فواد چوہدری اور ان کی ’حرکات و سکنات‘ پر نظر رکھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *