سندھ میں سیلاب ریلیف کیمپوں میں خواتین

سندھ میں سیلاب ریلیف کیمپوں میں خواتین

سندھ میں سیلاب ریلیف کیمپوں میں خواتین کس حد تک محفوظ ہیں؟

’رات تین بجے وہ بہانے بہانے سے ہمارے خیمے کے پاس آتا اور ہم سے اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیتا۔ ہمارے گھر کی عورتیں بھی وہیں سو رہی ہوتی ہیں۔ ہم برسات میں لٹ کر آئے ہیں، ہمارے پاس پورے کپڑے بھی نہیں۔ جیسے تیسے گزارا کر رہے ہیں۔۔۔ اُس کا کیا کام کہ ایسے راتوں میں یہاں چلا آئے۔ جب یہ سلسلہ دو تین دن جاری رہا تو ہم نے اس کی شکایت کر دی۔‘

صوبہ سندھ کے علاقے دادو کے قریب سڑک پر بیٹھے سیلاب متاثرین میں سے ایک اللہ ڈنو نامی شخص ہم سے سماجی رضاکار معشوق برہمانی کے فون سے بات کر رہے تھے۔

اللہ ڈنو، دادو کے ایک مقامی شخص رحیمو ( فرضی نام) کا ذکر کر رہے تھے جس نے سیلاب میں لٹنے والے اللہ ڈنو کے خاندان کو اپنی دکان کے برابر میں زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا دیا تھا تاکہ وہ عارضی طور پر وہاں رہ سکیں۔

اللہ ڈنو کے خاندان کے پاس خیمے تک نہیں تھے اور نہ کہیں سے ملنے کا آسرا تھا، سو اپنی مدد آپ کے تحت پلاسٹک کی شیٹ لکڑیوں سے باندھ کر عارضی رہائشگاہ بنائی گئی تھی۔

پلاسٹک کی شیٹ صرف دھوپ یا برسات سے بچاﺅ کے لیے تھی۔ کسی کھڑکی دروازے یا دیوار کا کوئی تکلف اس ’گھر‘ میں نہ تھا۔

اللہ ڈنو کی بات کا سیاق و سباق ہمیں سجاگ سنسار آرگنائزیشن کے سی ای او معشوق برہمانی نے بتایا۔

  • پاکستان میں جاری سیلابی صورتحال سے آپ کیسے متاثر ہو رہے ہیں، ہمیں بتانے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔

معشوق برہمانی اپنی تنظیم کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے ریلیف اور ریسکیو کا کام کر رہے ہیں اس لیے علاقہ مکین انھیں جانتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اللہ ڈنو دادو کے نزدیک ایک گاﺅں کے رہائشی ہیں۔ سیلابی پانی گاﺅں میں داخل ہونے کے بعد وہ کسی نہ کسی طرح جان بچا کر اپنے گاؤں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے البتہ اُن کے تین جانور سیلابی پانی میں ڈوب گئے۔

حکومت نے متاثرین کے لیے اگرچہ کیمپوں کا انتظام کیا ہے مگر اُن کی تعداد محدود ہے اس لیے بہت سے لوگ خشک مقامات پر بکھرے ہوئے بیٹھے ہیں۔

ہر خاندان اپنے پردے کی خاطر دوسرے خاندانوں سے کچھ دور اپنا ٹھکانہ بناتا ہے۔ اس طرح پردے کا تو واجبی سا اہتمام ہو جاتا ہے مگر رات کے اندھیرے میں یہ خاندان غیر محفوظ بھی ہو جاتے ہیں۔

سیلاب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی بھی ہے (فائل فوٹو)
سیلاب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی بھی ہے (فائل فوٹو)

انھوں نے مزید وضاحت کی کہ رحیمو ایک مقامی شخص ہیں جنھوں نے اللہ ڈنو کو پریشان دیکھ کر اپنی زمین پر عارضی رہائش اختیار کرنے کی پیشکش کی مگر پھر اللہ ڈنو نے معشوق برہمانی سے رابطہ کر کے بتایا کہ انھیں رحیمو کی ’نیت ٹھیک نہیں لگتی۔‘

اللہ ڈنو کی دو بیٹیاں بھی اسی کیمپ میں موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ زیادہ فکرمند تھے۔ معشوق برہمانی نے رحیمو سے جا کر ملاقات کی اور انھیں سمجھانے کی کوشش کی جس پر وہ ناراض ہو کر چلے گئے۔

بعدازاں اللہ ڈنو کے مطابق رحیمو نے انھیں دھمکی دی کہ ’میں نے تمھیں جگہ دے کر تم پر احسان کیا اور تم میری شکایتیں لگا رہے ہو۔ میں تمھیں کھڑے کھڑے یہاں سے نکال سکتا ہوں۔‘

معشوق برہمانی نے بتایا کہ اس سے پہلے کہ لڑائی جھگڑا ہوتا یا کوئی حادثہ ہوتا، انھوں نے اللہ ڈنو کی فیملی کو وہاں سے کسی اور محفوظ جگہ شفٹ کر دیا اور رحیمو کی شکایت بھی کر دی۔

شکایت کے اندراج کے حوالے سے انھوں نے وضاحت کی کہ ایک تو ان حالات میں سڑکیں موجود نہیں ہیں کہ وہ کسی پولیس سٹیشن وغیرہ تک پہنچ سکتے، دوسری بات یہ کہ عموماً خواتین کے حوالے سے کوئی بات ہو تو علاقے کے لوگ جرگے کے ذریعے ہی معاملات سلجھا لیتے ہیں۔

معشوق کے مطابق اس علاقے کے بڑے بوڑھوں نے رحیمو پر پابندی لگائی ہے کہ آئندہ وہ اللہ ڈنو کی فیملی کے قریب نظر نہ آئیں۔

پاکستان میں مون سون کے غیرمعمولی طویل موسم کے دوران بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلابی ریلوں سے این ڈی ایم اے کے مطابق گذشتہ ڈھائی ماہ میں 1314 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق مجموعی طور پر تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ آبادی اس قدرتی آفت سے متاثر ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق اس سیلاب کے نتیجے میں کم از کم 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو اور بحالی کے عمل میں پانچ برس لگ سکتے ہیں لیکن آزاد ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اعدادوشمار کی کمی کے سبب متاثرین کے تعداد اور نقصانات کی شدت کہیں زیادہ ہو سکتی ہے جو دھیرے دھیرے سامنے آئے گا۔

اس صورتحال سے بلوچستان اور سندھ کے اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اِن دونوں صوبوں میں مجموعی طور پر 23 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا جبکہ ایک کروڑ 45 لاکھ سے زیادہ آبادی اس سے متاثر ہوئی ہے۔

متاثرین میں بیشتر افراد ایسے ہیں جن کے گھر ہی نہیں بلکہ گاﺅں کے گاﺅں صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ زرعی زمینیں، کھڑی فصلیں، گھر، ساز و سامان اور جانور کچھ نہیں بچا۔

یہ لاکھوں لوگ اب امداد کے منتظر ہیں۔ متاثرین میں بیشتر کا الزام ہے کہ حکومت کی جانب سے انھیں کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کی عارضی رہائش کا بندوبست کیا گیا ہے اور یہ کہ صرف نجی امدادی ادارے اُن کی تھوڑی بہت مدد کر رہے ہیں۔

سیلاب، بینر

دادو میں سیلاب متاثرین کے ایک کیمپ کا منظر
سیلاب متاثرین کا دعویٰ ہے کہ حکومتی اقدامات انتہائی ناکافی ہیں اور فی الوقت ان کی مدد نجی فلاحی تنظیمیں کر رہی ہیں

بہت سے لوگ سڑک کنارے چارپائیاں کھڑی کر کے یا پلاسٹک کی شیٹوں سے عارضی گھر بنا کر سر چھپائے بیٹھے ہیں۔ ایسی بے سروسامانی کی حالت میں خواتین کے لیے بہت سے خطرات پیدا ہوتے ہیں جن میں ہراسانی سرفہرست ہے۔

اللہ ڈنو کی فیملی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔

دادو ہی کی ایک تحصیل جوہی سے بھی ایسا ہی ایک واقعہ رپورٹ ہوا ہے۔ مہتاب سندھو ایک مقامی این جی او ’زندگی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن‘ سے وابستہ ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ جوہی کے قریب ایم این ای وی ڈرین پر بہت سے سیلاب متاثرین عارضی پناہ گاہ بنائے بیٹھے ہیں۔ ایک گھر کے مرد امداد کی تلاش میں کہیں دور نکلے ہوئے تھے، صرف ماں اور دو بیٹیاں اپنے عارضی خیمے میں تھیں جب ایک اجنبی مرد وہاں چلا آیا اور لڑکیوں سے الٹی سیدھی باتیں کرنے لگا۔ لڑکیوں کے شور مچانے پر وہ شخص وہاں سے بھاگ گیا۔ وہ کون تھا یہ شناخت نہیں ہو سکی۔

اس حوالے سے ہم نے ایس ایس پی ضلع دادو عرفان علی سموں سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ہزاروں لوگ کیمپوں سے باہر سڑکوں پر موجود ہیں۔

’اگرچہ ہم نے اپنے ڈی ایس پیز کی ڈیوٹی لگا رکھی ہے لیکن پھر بھی ایسے واقعات پیش آ سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اب تک باقاعدہ کوئی شکایت درج نہیں کروائی گئی‘ تاہم انھوں نے معشوق برہمانی کی بات کی تائید کی کہ لوگ خواتین سے متعلق معاملات پر تھانہ کچہری جانا اپنی رسوائی اور بدنامی تصور کرتے ہیں اس لیے آپس میں بیٹھ کر معاملات طے کر لیتے ہیں۔

ایسا ہی ایک اور واقعہ جو اگرچہ میڈیا کے سامنے لانے کی کوشش تو کی گئی مگر اسے اہمیت نہ دی گئی وہ دادو کی تحصیل جوہی کے ایک عارضی کیمپ میں پیش آیا۔

ہراساں ہونے والی خاتون اپنی فریاد لے کر داود پریس کلب تک پہنچ گئی تھیں لیکن اُن کا دعویٰ ہے کہ وہاں بھی کسی نے اُن کی بات نہیں سُنی جس کے بعد وہ مایوس واپس لوٹ آئیں۔

اس حوالے سے جب دادو پریس کلب سے رابطہ کیا گیا تو کلب کے ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس واقعے کی تصدیق کی اور کہا کہ اس حوالے سے کوئی تفتیش یا کارروائی نہیں ہوئی اور نہ ہی اسے سنجیدگی سے لیا گیا جبکہ دادو پریس کلب کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری عبد الحی ادل مھیسر نے اس واقعے کو دو افراد کا ’آپسی معاملہ‘ قرار دیا۔

ڈپٹی کمشنر ضلع دادو سید مرتضیٰ شاہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’میرا پورا ضلع اس وقت پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ صرف ضلع دادو میں متاثرین کی تعداد 8 لاکھ 18 ہزار ہے۔ جہاں بھی کوئی خشک علاقہ یا سرکاری سکول وغیرہ ہیں اُن میں ہم نے کیمپ قائم کر دیے ہیں۔ ہمارے قائم کردہ کیمپوں کی تعداد 400 سے زائد ہے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ سندھ کے لوگ اپنی خواتین کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں لیکن چونکہ مرد و عورت کیمپوں میں ساتھ ہی رہائش پذیر ہیں تو ایسے میں ہراسانی کے واقعات ہونے کا امکان موجود ہے لیکن اب تک کسی نے ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں کیا۔

سنہ 2010 میں آنے والے سیلاب کے بعد ترتیب دی گئی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں کم از کم تیس سے چالیسں فیصد اضافہ ہوا تھا۔ سنہ 2005 کے زلزلے کے بعد بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔

قدرتی آفات کے بعد پیدا ہونے والے ماحول میں متاثرہ خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں (فائل فوٹو)

کراچی کی ڈاکٹر تسنیم عبید کا کہنا ہے کہ ’ہم آفات میں ہر نقصان کو روپے پیسے میں تولتے ہیں کہ اتنے گھر، سڑکیں یا زرعی زمینیں ڈوبنے سے اتنا نقصان ہوا لیکن سماجی اور نفسیاتی اثرات کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘

’یہ قدرتی آفات خواتین پر مردوں سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں، حتیٰ کہ انھیں مختلف نفسیاتی امراض گھیر لیتے ہیں۔‘

ایک غیر سرکاری تنظیم ’دُعا فاﺅنڈیشن‘ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر فیاض عالم نے بتایا کہ اُن کی تنظیم سیلاب زدگان کی امداد کے لیے دن رات کام کر رہی ہے اور جلد ہی تنظیم کی جانب سے دادو کے قریب ایک کیمپ سٹی قائم کیا جائے گا۔

خواتین کی حفاظت کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ اگر خاندان مرد و عورت پر مشتمل ہے تو انھیں ساتھ رکھا جائے لیکن اگر متاثرہ خواتین اکیلی ہیں تو انھیں علیحدہ دیگر خواتین کے ساتھ رکھا جائے۔ عارضی کیمپس کے زنانہ حصے میں لیڈی پولیس اور خواتین رضاکار ہی تعینات کی جائیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ ہر کیمپ میں اس حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جائے جو نہ صرف سامان کا خیال رکھے بلکہ ایسے واقعات پر بھی کڑی نگاہ رکھے۔

صوبائی دارالحکومت کراچی میں بھی سیلاب متاثرین کے قافلے چلے آ رہے ہیں اور مختلف مقامات پر ان کی رہائش کے لیے کیمپ قائم کر دیے گئے ہیں۔

ان ہی میں سے ایک کیمپ میمن سکول، مشرف کالونی ہاکس بے میں بھی قائم کیا گیا ہے جہاں 300 کے قریب لوگ رہائش پذیر ہیں جن میں 81 خواتین، 70 مرد اور 171 بچے ہیں۔ اس کیمپ میں زنانہ مردانہ حصہ الگ کر دیا گیا ہے اور زنانہ حصے کی نگران رشیدہ بی بی ہیں۔

وہ اس سکول میں چوکیداری کے فرائض انجام دیتی ہیں اور کیمپ قائم ہونے کے بعد اب اس کیمپ میں انھیں زنانہ حصے کا انچارج بنا دیا گیا ہے۔

رشیدہ بی بی نے بتایا کہ ’ہم خواتین اور بچیوں کے پردے کا پورا خیال رکھ رہے ہیں۔ کوئی مرد خواتین کے حصے میں نہیں آ سکتا۔ باہر پولیس بھی موجود ہے اور رضاکار بھی حفاظت کے لیے موجود ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر کسی عورت یا بچی کو رات میں واش روم جانا ہوتا ہے تو میں ساتھ جاتی ہوں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *