سیلاب ڈائری سندھ میں ٹرانسپورٹرز

سیلاب ڈائری سندھ میں ٹرانسپورٹرز

سیلاب ڈائری سندھ میں ٹرانسپورٹرز، کشتی چلانے والوں کا چمکتا ہوا کاروبار اور خیر پور ناتھن شاہ کے لاوارث کتے

پاکستان میں غیرمعمولی طویل مون سون کے دوران شدید بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ حکام کے مطابق اس سیلاب سے سوا تین کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔

بی بی سی اردو کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہے ہیں جنھیں ایک ڈائری کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔اس سلسلے کی اگلی قسط میں خیر پور ناتھن شاہ سے ریاض سہیل اور لسبیلہ سے سحر بلوچ کی رپورٹ پیش کی جا رہی ہے۔

ریاض سہیل، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دادو

سندھ کے شہر خیرپور ناتھن شاہ میں پانی میں ڈوبے اللہ والا چوک پر ایک شخص موجود تھا جس نے بغل میں ایک کتا اٹھا رکھا تھا۔

اس شخص نے قریب سے گذرنے والی نیوی کی کشتی کو اسے ساتھ لیکر جانے کو کہا تو انھوں نے کتے کی طرف اشارہ کیا اور اشارے سے منع کر دیا۔

سامنے والے شخص نے ہاتھ جوڑ کر جوابی اشارہ کیا کہ وہ اس کتے کو اکیلا نہیں چھوڑے گا۔

سندھ

مکمل طور پر زیر آب اس شہر میں جہاں انسانوں کی مشکلات کی دردناک داستانیں ہیں، وہیں لاتعداد جانور ایسے ہیں جن پر کسی کی توجہ نہیں۔ لیکن ایسی کہانیاں بھی سننے اور دیکھنے کو ملیں جہاں خود مشکل میں پھنسے لوگوں نے بے زبان جانوروں کا خیال رکھنے کی کوشش کی۔

خیر پور ناتھن شاہ میں ایک ریسکیو آپریشن کے دوران ہم جب لونڈ محلہ میں گئے تو وہاں ایک معذور ٹیچر رفیق احمد نے مجھے بتایا کہ ان کے پڑوسی نے کتوں کی حالت زار دیکھ کر ’اپنے بیٹے کو کہا کہ چاول کا دیگچہ بناؤ اور ان کتوں کو دیکر آؤ یہ بھی خدا کی مخلوق ہیں۔‘

کالج کے قریب ایک خاتون اور ایک نوجوان کو ریسکیو کیا گیا تو نوجوان نے بتایا کہ ان کا بھائی اپنے کتے کو بچانے کے لیے ڈوبے ہوئے گھر میں واپس گیا۔

فتح پور میں مظہر علی نے بتایا کہ وہ گھر کے اندر اور ان کا کتا باہر چوکیداری کر رہا ہے۔ وہ جو کھاتے ہیں اس میں سے بچا ہوا کھانا کتے کو دیتے ہیں۔

ہمیں متاثرہ علاقے میں کئی کتے نظر آئے جو لاغر تھے۔ ایسے میں مظہر علی کو ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ بھوک سے بدحال یہ جانور اب کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔

شہر میں کئی مکانات کے قریب لاوارث کتے نظر آئے۔ یہ واضح تھا کہ اگر انہیں خوراک دستیاب نہ ہوئی تو یہ زیادہ عرصہ جی نہیں سکیں گے۔ اس کے نتیجے میں تعفن کے علاوہ امراض پھیلنے کے خدشات بھی ہیں۔

سندھ

ایک نوجوان، جس کو سب لاہوتی کے نام سے پکار رہے تھے، ریسکیو کشتی میں تین کبوتر پکڑے بیٹھا تھا۔

میں نے اس سے پوچھا کہ ان کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے تو اس نے جواب دیا کہ ’یہ بچے ہیں، ان کے پر کٹے ہوئے ہیں، اڑ نہیں سکتے۔ اگر ان کو چھوڑ دیا تو جانور کھا جائیں گے۔‘

خیرپور ناتھن شاہ میں ہمارا دوسرا دن بھی ریسکیو مشن کے ساتھ گذرا۔ کئی لوگ یہ سوال کر رہے تھے کہ ان کو کہاں رکھا جائے گا کیوں کہ ان کے پاس کرایہ بھی نہیں۔

کشتیوں کا چمکتا ہوا کاروبار

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے اس اعلان کے باوجود کہ میھڑ اور جوہی شہر کو کوئی خطرہ نہیں، لوگ بائی پاس کے علاقے سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔

رات کو ساڑھ نو بجے کے قریب دادو کے قریب ایک ہوٹل پر مردوں اور بچوں سے بھری ہوئی ایک مزدا نظر آئی جو میھڑ سے آئے تھے۔

سندھ

ان کا کہنا تھا کہ پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے انہیں حکومت کی باتوں پر یقین نہیں اس لیے نقل مکانی کی ہے۔

خیرپور ناتھن شاھ اور سیتا ولیج کے قریبی علاقے بھوڑی کے رہائشی افراد سے بھرا ہوا ایک ٹرک نظر آیا جن کا کہنا تھا کہ اس وقت باہر نکلنے کا راستہ موجود ہے لیکن پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے، اسی لیے خواتین اور بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے جا رہے ہیں۔

شھدادکوٹ، قمبر، گڑھی خیرو، خیرپور ناتھن شاھ سمیت متعدد علاقے زیر آب آنے کے بعد کشتی پر ٹرانسپورٹیشن کا بزنس چمک اٹھا ہے۔

ایک سوزوکی پر موجود کشتی دیکھ کر میں نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہیں تو ڈرائیور نے بتایا کہ ٹھٹہ سے آرہے ہے، قمبر جائیں گے اور یہ کشتی کرائے پر چلائیں گے۔

سندھ

یہاں پر سعد ایدھی بھی موجود ہیں جنھوں نے بتایا کہ حالیہ بارشوں میں ایدھی فاونڈیشن کی تین بوٹس بلوچستان اور ایک ملیر ندی میں پھٹ چکی ہے۔

ان کا گلہ ہے کہ چین سے ایسی بوٹ دو ڈھائی لاکھ میں ملتی ہے جبکہ اس پر چار لاکھ روپے ٹیکس لگ جاتا ہے۔

اگر حکومت مدد کرے تو مزید کشتیاں منگوا سکتے ہیں جس سے ریسکیو میں آسانی ہو گی۔

سیلاب

سحر بلوچ، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لسبیلہ

لسبیلہ کے گاؤں اوڑکی تک جانے والا پُل ٹوٹ چکا ہے۔ یہ جگہ اب ایک کھنڈر جیسا منظر پیش کررہی ہے۔

یہاں کی تمام آبادی کو ایک مذہبی تنظیم نے بحفاظت نکال کر، ٹینٹ دے اور اسی گاؤں سے 10 کلومیٹر دور فاصلے پر جگہ دی۔

یہاں لوگوں سے بات کرنے پر پتا چلا کہ وہ 13 گھنٹے تک بھوکے رہے۔

لسبیلہ

یہاں ہماری ملاقات اوڑکی گاؤں کے رہائشی رانجھن سے ہوئی جو 16 گھنٹے تک درخت پر اپنے بچوں کے ساتھ مدد آنے کا انتظار کرتے رہے۔ ان کو 16 گھنٹے بعد ایک رضاکار نے بچایا۔

ہمت علی سے بھی ہماری بات ہوئی جنھوں نے شکوہ کیا کہ ان کو راشن نہیں دیا گیا اور ان کو بتایا گیا کہ ان کے حصے کا راشن زمیندار کو دیا جاچکا ہے جو ان کو 12 کلومیٹر دور جا کر زمیندار کے گھر سے لینا ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ ’میرا ایک سوال شہر والوں تک پہنچا دیں، میرے حصے کا کھانا میں زمیندار سے کیوں لوں؟ سارا راشن زمینداروں کے پہلے سے بھرے گھروں میں بھیجنے کے بجائے ہاریوں میں کیوں نہیں بانٹا جارہا؟‘

لسبیلہ

وہ کہتے ہیں کہ کپاس کی فصل پر کام کرنے والے ہاریوں کی ابتر حالت ہے۔

مجھے بتایا گیا کہ کچھ دیر پہلے ہی لوگوں میں فوج کے ایک بڑے ٹرک سے چپس اور چاکلیٹ بانٹی گئی ہیں۔

یہاں ایک اور شکوہ بھی سننے کو ملا جو میڈیا سے متعلق تھا۔

ایک مقامی صحافی نے کہا کہ ’پہلی بار آنے والے صحافی ہمارے دیہات میں پانی کی ویڈیو بنانے آرہے ہیں۔ انھیں لوگوں سے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘

’بات کرنے کے نام پر ایک صحافی ایک خاندان کو پورا ڈائیلاگ بتا کر، زبردستی کشتی میں بٹھا کر ان کی ریکارڈنگ کر گئے۔‘

انھوں نے شکوہ کیا کہ ’کچھ صحافیوں کو یہ مسئلہ ہے کہ ہماری عورتیں اردو کیوں نہیں بول سکتیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *