سائفر کیس ایک مقدمہ، تین اہم گواہ اور وکیل صفائی

سائفر کیس ایک مقدمہ، تین اہم گواہ اور وکیل صفائی

سائفر کیس ایک مقدمہ، تین اہم گواہ اور وکیل صفائی کا مؤقف ’عمران خان وزیراعظم تھے، کلرک نہیں

بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر گمشدگی کیس میں تین اہم گواہوں کی جانب سے خصوصی عدالت کے روبرو بیانات ریکارڈ کروائے جانے کے بعد یہ مقدمہ اب فیصلہ کُن مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔

ان تین اہم گواہان میں عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان، سابق وزیر خارجہ سہیل محمود اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید شامل ہیں۔

ان تینوں کی جانب سے ریکارڈ کروائے گئے بیانات کو استغاثہ کی جانب سے اہمیت دی جا رہی ہے اور پراسیکوشن کا دعویٰ ہے کہ یہ بیانات اس کیس کے مرکزی ملزمان (عمران خان اور شاہ محمود قریشی) کو مجرم ثابت کرنے میں معاون ہوں گے جبکہ دوسری جانب ملزمان کے وکیل کا دعویٰ ہے کہ ان بیانات میں کچھ ایسا نہیں جو اُن کے موکلین کے خلاف جاتا ہو۔

سائفر کیس میں اب تک ہونے والی پیش رفت کے مطابق اس مقدمے میں پراسیکوشن کے 25 گواہان کے بیانات خصوصی عدالت میں ریکارڈ ہو چکے ہیں۔ اس مقدمے میں مجموعی طور پر 28 گواہان تھے جن میں سے تین گواہوں کو عدالت میں پراسکیوشن کی جانب سے پیش ہی نہیں کیا گیا۔

مزید آگے بڑھنے سے قبل عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان، سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کے بیانات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

’سائفر کی کاپی عمران خان نے اپنے پاس رکھ لی جو بعد میں نہ ملی‘: سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان

اعظم خان

سابق وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے سائفر کے معاملے میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں اُس وقت کے سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے ٹیلی فون کر کے سائفر ٹیلی گرام کے متعلق بتایا تھا۔

عدالت میں بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی سائفر کے معاملے میں اُن سے بات کرنے سے پہلے اس وقت کے وزیر اعظم یعنی عمران خان سے پہلے ہی بات کر چکے تھے جس کی تصدیق عمران خان نے بھی کی تھی۔

اعظم خان کا کہنا تھا کہ مارچ 2022 کو اُن کے آفس کے سٹاف نے انھیں سائفر کی کاپی فراہم کی جو انھوں نے اگلے ہی روز سابق وزیر اعظم عمران خان کو دے دی۔

اعظم خان نے اپنے بیان میں کہا کہ عمران خان نے سائفر کے معاملہ پر عوام کو اعتماد میں لینے کی بات کی جبکہ انھوں (اعظم خان) نے بطور پرنسپل سیکرٹری اس معاملے پر وزارت خارجہ سے باقاعدہ میٹنگ کا مشورہ دیا تھا۔

اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے اعظم خان نے مزید کہا کہ عمران خان کی رائے تھی کہ امریکی حکام نے سائفر بھیج کر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی۔ اعظم خان کے بقول عمران خان نے کہا کہ یہ میسج اندرونی ایکٹرز کے لیے ہے کہ اپوزیشن منتخب حکومت کو تبدیل کرے اور ہمارے (تحریک انصاف) خلاف عدم اعتماد لائی جائے۔

اعظم خان نے عدالت کو دیے گئے بیان میں کہا کہ اس کے بعد سائفر کی کاپی وزیر اعظم نے اپنے پاس رکھ لی جو بعد میں نہ ملی اور بعدازاں عمران خان نےاپنے ملٹری سیکریٹری، اے ڈی سی اور دیگر سٹاف کو معاملہ کو دیکھنے کا کہا لیکن سائفر کی کاپی عمران خان کے وزارت عظمیٰ سے ہٹنے تک نہیں ملی۔

انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم ہاؤس اور وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے عملے نے بھی سائفر کی کاپی نہ ملنے کی تصدیق کی۔

اعظم خان کا کہنا تھا کہ اُن کے چارج چھوڑنے تک سائفر کی کاپی واپس نہیں بھجوائی گئی تھی جبکہ روایت کے مطابق سائفر کی کاپی واپس وزارت خارجہ کو بھجوائی جاتی ہے۔

اعظم خان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں ایک اجلاس عمران خان کی بنی گالہ میں رہائش گاہ پر بھی ہوا جس میں اُس وقت کے سیکریٹری خارجہ نے سائفر پڑھ کر سنایا اور بنی گالہ میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ سائفر معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا جائے اور پھر وفاقی کابینہ میٹنگ میں معاملہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے سامنے رکھنے کا فیصلہ ہوا۔

وزیر اعظم کے سابق سیکریٹری نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی میں فیصلہ ہوا کہ متعلقہ ملک (امریکہ) کو اندرونی معاملے میں مداخلت پر ڈی مارش جاری کیا جائے۔

’امریکی حکام نے وزیر اعظم عمران خان کی پبلک سٹیٹمنٹ پر تشویش کا اظہار کیا‘: سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود

Sohail

سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ 8 مارچ 2022 کو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر اسد مجید سے ان کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا اور سفیر نے امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ برائے ساؤتھ و سنٹرل ایشیا سے ہونے والی ملاقات کی بابت انھیں آگاہ کیا۔

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ اس ملاقات میں سفیر کے ساتھ ڈپٹی ہیڈ آف مشن اور ڈیفنس اتاشی بھی موجود تھے۔ سابق سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر نے انھیں اس معاملہ کی حساسیت سے متعلق بتایا اور کہا کہ سفیر کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے متعلق انھوں نے وزارت خارجہ کو سائفر ٹیلی گرام بھجوایا ہے۔

سہیل محمود نے عدالت کو بیان دیا کہ انھوں نے بطور سیکریٹری خارجہ اپنے دفتر جا کر سائفر ٹیلی گرام کی کاپی وصول کی اور اس سائفر ٹیلی گرام کو ’کیٹاگرائز‘ کیا اور احکامات دیے کہ اس کی سرکولیشن نہیں کرنی بلکہ یہ صرف سیکریٹری خارجہ کے لیے ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی ہدایات کے ساتھ سائفر ٹیلی گرام کی کاپی کی تقسیم کی منظوری دی گئی اور سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو سربمہر لفافے میں بھجوانے کی ہدایت کی گئی۔

سہیل محمود کا کہنا تھا کہ 27 مارچ 2022 کو ہونے والے جلسے میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک خط لہرایا اور اس کے اگلے روز انھیں (سہیل محمود) ایڈیشنل سیکریٹری امریکہ کی جانب سے انٹرنل نوٹ موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی حکام نے وزیر اعظم عمران خان کی پبلک سٹیٹمنٹ (عوامی جلسے میں دیے گئے بیان) پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

سہیل محمود کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس نوٹ کو اس وقت کے وزیر خارجہ کو بھیجتے ہوئے مشورہ دیا کہ امریکہ سے منسلک رہنا سمجھداری ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ اس مشورے کا مقصد اہم ملک (امریکہ) کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا تحفظ اور سیکرٹ کمیونیکیشن کی عوامی سطح پر بحث سے گریز کرنا تھا۔

انھوں نے کہا کہ 29 مارچ 2022 کو عمران خان نے انھیں ملاقات کے لیے بنی گالہ بلایا۔ یہ پہلے سے طے شدہ میٹنگ نہیں تھی بلکہ مختصر نوٹس پر بلائی گئی تھی اور اس میٹنگ میں سابق وزیر اعظم کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پرنسپل سیکریٹری اعظم خان بھی موجود تھے۔

سابق سیکریٹری خارجہ نے عدالت کو بتایا کہ انھیں میٹنگ کے دوران سائفرٹیلی گرام پڑھنے کا کہا گیا اور سائفر پڑھنے کے دوران شرکا نے یو ایس اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ اور واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کے درمیان ہونے والی بات چیت پر اپنے اپنے کمنٹس دیے۔

انھوں نے کہا کہ بنی گالہ ہونےو الی میٹنگ مختصر تھی جو بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو گئی اور وہ سائفر ٹیلی گرام کی کاپی اپنے ساتھ لے گیے اور جو سائفر محفوظ رکھنے کے لیے ڈائریکٹر ایف ایس او کے حوالے کر دی گئی۔

انھوں نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے مزید کہا کہ 8 اپریل 2022 کو کابینہ میٹنگ ہوئی جس میں سیکریٹری کابینہ، سیکریٹری قانون و انصاف اور وہ بطور سیکریٹری خارجہ موجود تھےاور اس میٹنگ انھیں بھی اپنے خیالات شیئر کرنےکا کہا گیا اور اس اجلاس میں انھوں نے اپنی بریفنگ میں سائفر ٹیلی گرام کی ڈی کلاسیفیکیشن، سائفر سکیورٹی گائیڈ لائنز، قانونی پوزیشن اور خارجہ پالیسی کے مضمرات کے حوالہ سے بریف کیا۔

سہیل محمود نے بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے مزید کہا کہ انھوں نے بتایا کہ سائفر سکیورٹی گائیڈ لائنز سائفر ٹیلی گرام کو صرف مجاز افراد کے ساتھ شیئر کرنے کی اجازت دیتی ہیں اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ سائفر کی ڈی کلاسیفیکیشن سے سفارتی مشن کے کام پر اثر پڑ سکتا ہے کیونکہ اس سے امریکہ اور کچھ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ میٹنگ کے بعد فیصلہ ہوا کہ پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس میں سائفر کی صداقت اور نمایاں خصوصیات کے حوالے سے بریفنگ دی جائے گی۔

سہیل محمود کا کہنا تھا کہ اس دوران 29 ستمبر 2022 کو وہ وزارت خارجہ سے ریٹائر ہو گئے اور ان کی ریٹائرمنٹ کے دن تک اس وقت تک ایس پی ایم سے سائفر کی کاپی وزارت خارجہ کو واپس موصول نہیں ہوئی تھی۔

سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود جب اپنا بیان ریکارڈ کروا رہے تھے تو اس وقت کمرہ عدالت میں موجود صحافی اسد ملک کے مطابق اس مقدمے کے ملزم شاہ محمود قریشی بھی روسٹم پر موجود تھے اور اسد ملک کے بقول جب سابق سیکریٹری خارجہ نے سائفر کی کاپی متعلقہ حکام کو بھیجنے کا ذکر کیا تو شاہ محمود قریشی نے سابق سیکریٹری خارجہ سے پوچھا کہ جو کاپی انھوں نے مجھے بھجوائی تھی وہ تو انھوں نے واپس کر دی تھی؟ جس پر سابق سیکریٹری خارجہ نے ’ہاں‘ میں جواب دیا۔

’سائفر ٹیلی گرام میں ’خطرہ‘ یا ’سازش‘ جیسے الفاظ کا کوئی حوالہ نہیں تھا‘: امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید

Majeed

اس مقدمے کے ایک اہم گواہ اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے سائفر مقدمے میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ سات مارچ 2022 میں امریکی اسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو سے ہونے والی ملاقات اور پھر اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو کو جو اسلام آباد میں ڈپلومیٹک کیبل کے ذریعے رپورٹ کیا گیا تھا اس خفیہ سائفر ٹیلی گرام میں ’خطرہ‘ یا ’سازش‘ کے الفاظ کا کوئی حوالہ نہیں تھا۔

انھوں نے کہا کہ سائفر کے حوالے سے کو 22 اپریل 2022 کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا اس میں انھیں بھی طلب کیا گیا اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں ڈی مارش ایشو کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اسد مجید کا کہنا تھا کہ انھوں نے ہی پاکستان میں امریکن ایمبیسی اور امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ڈی مارش ایشو کرنے کی تجویز دی تھی۔

انھوں نے کہا کہ سائفر کے معاملے جو کچھ کیا گیا وہ پاکستان امریکہ تعلقات کے لیے دھچکا تھا۔

اسد مجید کا کہنا تھا کہ جنوری 2019 سے مارچ 2022 تک وہ امریکہ میں پاکستان کا سفیر تھے اور سات مارچ 2022 کو امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور مسٹر ڈونلڈ لو کو ورکنگ لنچ پر مدعو کیا تھا اور یہ ایک پہلے سے طے شدہ ملاقات تھی جس کی میزبانی واشنگٹن میں پاکستان ہاؤس میں کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ ملاقات میں ہونے والی کمیونیکیشن کا سائفر ٹیلی گرام سیکریٹری خارجہ کو بھجوایا گیا اور پاکستان ہاؤس میں ہونے والی اس ملاقات میں ڈپٹی ہیڈ اف مشن اور ڈیفنس اتاشی بھی موجود تھے۔

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر کا کہنا تھا کہ ملاقات میں دونوں سائیڈز کو معلوم تھا کہ میٹنگ کے منٹس لیے جا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سائفر کو سازش قرار دینے کا فیصلہ اس وقت کی سیاسی قیادت کا تھا۔

عمران خان اور شاہ محمود نے بیانات پر عدالت میں کیا ردعمل دیا

تصویر

کمرہ عدالت میں موجود صحافی اسد ملک کا کہنا تھا کہ جب اسد مجید اپنا بیان ریکارڈ کروا رہے تھے تو سابق وزیر اعظم عمران خان اُن (اسد مجید) کے ساتھ کھڑے تھے۔ انھوں نے کہا کہ عمران خان امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر کی تمام باتوں سے بظاہر اتفاق کر رہے تھے لیکن جب اسد مجید نے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے یہ کہا کہ اس سائفر میں خطرہ یا سازش کا ذکر نہیں تھا تو عمرا ن خان غصے میں آ گئے اور انھوں نے کہا کہ ’اگر یہ سازش نہیں تھی تو پھر ان کی منتخب حکومت کیوں گرائی گئی‘ اور یہ کہہ کر وہ اپنی نشست پر واپس بیٹھ گئے۔

اسد ملک کا کہنا تھا کہ اعظم خان اور اسد مجید جب اپنا بیان ریکارڈ کروا رہے تھے تو عمران خان روسٹم پر موجود تھے اور جب سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود اپنا بیان ریکارڈ کروا رہے تھے تو شاہ محمود قریشی روسٹم پر موجود تھے اور شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سابق سیکریٹری خارجہ دیانتدار آدمی ہیں اور وہ اُن کا حترام کرتے ہیں۔

اسد ملک کا کہنا تھا کہ اعظم خان اور سہیل محمود نے جو بیانات ریکارڈ کروائے ہیں ان میں زیادہ زور سائفر کی گمشدگی کے بارے میں دیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ نیشنل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اگر کوئی دستاویز گم ہو جائے تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ دستاویز کسی دشمن ملک یا غیر متعقلہ شخص کو فراہم کی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب تک اس مقدمے میں جتنے بھی گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق وزارت خارجہ اور ایف آئی اے سائبر کرائم سے ہے۔

استغاثہ چین آف کسٹڈی ثابت کرنے میں کامیاب رہا: پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی

اس مقدمے کے پراسیکوٹر ذوالفقار نقوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مقدمہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے جس سے اس مقدمے کے ملزمان نے کبھی انکار نہیں کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ استغاثہ نے چین آف کسٹڈی کو ثابت کرنا تھا جس میں وہ کامیاب ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ استغاثہ نے ثابت کیا کہ کس طرح سائفر کو وصول کرنے والے وزارت خارجہ کے اسسٹنٹ محمد نعمان سے ہوتا ہوا یہ حساس دستاویز اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان تک پہنچی۔

ذوالفقار نقوی نے دعویٰ کیا کہ استغاثہ یہ بھی ثابت کرنے میں کامیاب ہوا کہ کس طرح قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ملک کے سکیورٹی سسٹم کو کمپرومائز کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ اگر سائفر اس وقت کے وزیر اعظم سے گم ہو گیا تھا تو کیا انھوں نے اس ضمن میں کوئی تحققیات کروائی ہیں اور اگر کروائی ہیں تو اس کی رپورٹ تو ابھی تک عدالت میں پیش نہیں کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ اس کیس میں صرف اعظم خان، سہیل محمود اور اسد مجید کے ہی نہیں بلکہ استغاثہ کے دیگر 22 گواہان کے بیانات بھی اتنے ہی مضبوط ہیں۔

چیف جسٹس کے چیمبر سے فائل گم ہو جائے تو ذمہ داری چیف جسٹس پر نہیں ہو گی: شعیب شاہین

PTI

سابق وزیر اعظم اور اس مقدمے کے مرکزی ملزم عمران خان کے وکیل شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ اسی دن اپنی موت آپ مر گیا تھا جب سپریم کورٹ نے سائفر مقدمے میں ضمانت کی درخواستوں پر اس مقدمے میں کی جانے والی تفتیش پر سوالات اٹھا دیے تھے۔

انھوں نے کہا کہ قانونی طور پر اگر سائفر عمران خان سے گم ہو بھی گیا تو وہ (عمران خان) کوئی کلرک تو نہیں ہیں، وہ ملک کے وزیر اعظم تھے اور اس کو ڈھونڈنے کی ذمہ داری اس وقت کے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری پر عائد ہوتی تھی۔

شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنے ملٹری سیکریٹری اور دیگر عملے کو اس سائفر کو تلاش کرنے کا حکم دیا تھا۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر چیف جسٹس کے چیمبر سے کوئی فائل گم ہو جائے تو ذمہ داری چیف جسٹس پر نہیں بلکہ عدالتی عملے پر عائد ہوتی ہے۔

انھوں نے سوال کیا کہ کیا استغاثہ اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ سائفر کے ذریعے امریکہ نے پاکستانی معاملات میں مداخلت نہیں کی؟

’فوجداری مقدمات میں شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ہی جاتا ہے‘

khan

فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کاشف ملک کا کہنا ہے کہ سائفر ایک حقیقت ہے۔ انھوں نے کہا کہ استغاثہ کے گواہان پر جب جرح کی جائے گی تو اس وقت سب سے زیادہ ذمہ داری ان تین اہم گواہان پر ہی ہوں گی جو اہم عہدوں پر فائض تھے اور براہ راست سائفر کے معاملے سے جڑے ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ اس کیس میں ابھی استغاثہ کے گواہان پر جرح ہونا باقی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اُن کی نظر میں استغاثہ کے ان گواہان کے لیے شاید یہ ثابت کرنا مشکل ہو گا کہ پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف سازش نہیں ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ اس مقدمے کا ایک نقطہ جو ملزمان اور بلخصوص عمران خان کے خلاف جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان نے بطور وزیر اعظم ایک عوامی اجتماع میں ایک پرچہ لہرایا تھا جس کو انھوں نے سائفر کا نام دیا تھا اور اس کا انھوں نے خود اعتراف بھی کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سائفر کی بازیابی کی ذمہ داری بھی اس مقدمے کی تفتیش کرنے والی ٹیم کی تھی۔ کاشف ملک کا کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق ابھی تک سائفر کی کاپی عمران خان سے برآمد نہیں کی گئی۔

کاشف ملک کا کہنا تھا کہ استغاثہ کے گواہان پر جرح مکمل ہونے کے بعد اگر عمران حان 342 کے تحت اپنے بیان میں یہ کہہ دیں کہ انھوں نے 27 مارچ 2022 کو عوامی اجتماع میں جو پرچہ لہرایا تھا وہ سائفر نہیں تھا تو پھر بھی استغاثہ کو یہ ثابت کرنا ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ فوجداری مقدمات میں شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ہی جاتا ہے۔

سیکرٹ ایکٹ کی سیکشن پانچ کے سب سیکشن سی اور ڈی کے تحت اگر کوئی سرکاری ملازم یا اہم عہدے پر فائز کوئی شخص ان دستاویزات کی جو کہ سیکرٹ ایکٹ کے زمرے میں آتی ہیں، کی حفاظت نہ کر سکے یا متعقلہ حکام کو واپس نہ کر سکے تو وہ اس جرم کا مرتکب ہو گا جس کی سزا دو سال قید ہے۔

صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کا کہنا ہے سائفر کو لہرانے یا پھر امریکی مداخلت کا بیانیہ بنانے میں بظاہر عوام میں ان کی مقبولیت تو ہوئی ہے لیکن وہ اس کا سیاسی طور پر فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *