قومی اسمبلی میں کم نشستیں یا تنظیم سازی کا فقدان

قومی اسمبلی میں کم نشستیں یا تنظیم سازی کا فقدان

قومی اسمبلی میں کم نشستیں یا تنظیم سازی کا فقدان۔۔۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں اب تک بلوچستان میں جگہ کیوں نہیں بنا سکیں؟

سنہ 2018 کےعام انتخابات میں بلوچستان کے سیاسی منظرنامے پرجو دلچسپ تبدیلیاں رونما ہوئیں ان میں سے ایک ان انتخابات سے چند ماہ قبل وجود میں آنے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا اور اس کی قیادت میں صوبے میں مخلوط حکومت بننا تھی۔

بلوچستان میں ایک دوسری تبدیلی یہ آئی تھی کہ پہلی مرتبہ پاکستان تحریک انصاف اس صوبے سے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی سات نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی۔

ان دو جماعتوں کی کامیابیوں کے برعکس پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک پاکستان پیپلز پارٹی 2018 کے انتخابات میں بلوچستان میں ایک بھی نشست جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی جبکہ 2013 کے عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کو اس صوبے میں صرف ایک سیٹ ملی تھی۔

لیکن اب 2024 میں ہونے والے انتخابات سے پہلے بلوچستان کی صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی ہے کیونکہ الیکٹیبلز کی اکثریت اب بلوچستان عوامی پارٹی کو خیرباد کہہ چکی ہے جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جو لوگ کامیاب ہوئے تھے ان کی اکثریت بھی اب سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت کو چھوڑ چکی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق الیکٹیبلز کے جانے سے 2018 کے مقابلے میں اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی کی پوزیشن کمزور نظر آ رہی ہے اور ان ہی میں سے کچھ شخصیات کی ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد دوںوں بڑی جماعتوں کی پوزیشن صوبے میں مستحکم ہوئی ہے۔

موجودہ صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بلوچستان میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا انحصار الیکٹیبلز پر ہی ہوتا ہے۔

الیکٹیبلز بلوچستان عوامی پارٹی کیوں چھوڑ کر چلے گئے اور ان الیکٹیبلز کی بڑی جماعتوں میں شمولیت کے بعد صوبے میں آئندہ کا سیاسی منظرنامہ کیسا ہو گا؟

اس بارے میں تجزیہ کاروں کی رائے کیا ہے اس کا تذکرہ بعد میں کریں گے کیونکہ پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بلوچستان میں مستحکم ووٹ بینک کن جماعتوں یا شخصیات کا ہے اور بڑی سیاسی جماعتوں کا اس صوبے میں اپنا مستحکم ووٹ بینک کیوں نہیں۔

پاکستان مسلم لیگ نون
 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 15 کے قریب الیکٹیبلز سمیت 20 سے زائد سیاسی شخصیات نے پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر نواز لیگ میں شمولیت اختیار کی

بلوچستان میں مستقل اور مستحکم ووٹ بینک کس کا ہے؟

بلوچستان میں 1970 کے بعد ووٹ پڑنے کے رحجان کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صوبے میں مستقل اور مستحکم ووٹ بینک قوم پرست اور مذہبی سیاسی جماعتوں کا ہے جن میں دیوبندی مکتبہِ فکر سے تعلق رکھنے والی جماعت جمعیت علما اسلام فضل الرحمان گروپ بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ یہاں قبائلی اور بااثر خاندانوں سے منسلک افراد کو بھی بڑے پیمانے پر ووٹ ملتے آئے ہیں۔

قوم پرست جماعتوں میں سے بلوچستان نیشنل پارٹی کا بلوچ آبادی والے مختلف علاقوں میں ووٹ بینک موجود ہے، پشتون آبادی والے علاقوں میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو زیادہ نشستیں ملتی رہی ہیں جبکہ عوامی نیشنل پارٹی بھی یہاں سے نشستیں جیتتی رہی ہے۔

قوم پرست جماعتوں کے مقابلے میں جے یو آئی (ف) کو دونوں ہی بڑی آبادیوں کے علاقوں سے نشستیں ملتی رہی ہیں، تاہم یہ جماعت زیادہ تر نشستیں پشتون آبادی والے علاقوں سے حاصل کرتی رہی ہے۔

قومی سطح پر سیاست میں حصہ لینے والی جماعتوں میں پیپلز پارٹی کے پاس سندھ سے متصل بلوچستان کے علاقوں کے بعض حصوں میں ووٹ بینک موجود ہے تاہم بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں ہی جماعتیں یہاں حکومتیں بنانے کے لیے الیکٹیبلز پر انحصار کرتی رہی ہیں۔

پچھلےعام انتخابات میں تحریک انصاف کو پہلی مرتبہ الیکٹیبلز کی وجہ سے بلوچستان سے نشستیں ملیں۔

بلوچستان
 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف بلوچستان سے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی سات نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی

بڑی سیاسی جماعتیں بلوچستان میں جگہ کیوں نہیں بنا سکیں؟

فروری میں ہونے والے انتخابات سے قبل ن لیگ اور پیپلز پارٹی بلوچستان میں الیکٹیبلز کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔

بلوچستان کے حالات پر نظررکھنے والے سینیئر تجزیہ کار انور ساجدی کا کہنا ہے کہ صوبے میں قومی اسمبلی کی نشستیں انتہائی کم ہیں اسی لیے بڑی جماعتیں اسے اہمیت نہیں دیتیں۔

معروف دانشور رفیع اللہ کاکڑ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ان جماعتوں نے بلوچستان میں اپنے کارکنان کو متحرک کرنے یا اپنے تنظیمی ڈھانچہ مضبوط کرنے میں کبھی سنجیدگی ظاہر نہیں کی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’دوسری بات یہ کہ ان جماعتوں کا انحصار بلوچستان میں ہمیشہ صرف الیکٹیبلز پر رہا اور یہ لوگ ہر پانچ یا دس سال بعد اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں اور قومی جماعتیں انھیں واپس اپنا بھی لیتی ہیں۔‘

رفیع اللہ کاکڑ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں قومی سطح کی جماعتوں کی دلچسپی نہ ہونے کا ذمہ دار وفاقی نظام ہے ’جس میں نقائص اور خرابیاں ہیں۔‘

ان کے مطابق پاکستان میں اکثریتی نظام رائج ہے جو قومی جماعتوں کو اس بات کی ترغیب ہی نہیں دیتا کہ وہ یہاں دلچسپی لیں یا اس صوبے کا خیال رکھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی جیسے طاقتور ادارے، جہاں سے اقتدار میں آنے کا دروازہ کھلتا ہے، وہاں بلوچستان کی صرف 19 نشستیں ہیں جس کی وجہ سے اس صوبے کو اتنا وزن نہیں دیا جاتا۔

تاہم سینیئرتجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کی اس سلسلے میں رائے مختلف ہے اور وہ خرابی کی ایک بڑی وجہ قبائلی نظام کو قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ قومی جماعتیں بلوچستان میں اس لیے جگہ نہیں بنا سکیں کیونکہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں اربن سوسائٹی نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’دیہی سوسائٹی میں جو سردار اور عمائدین تھے وہ 1970 کی دہائی تک قوم پرست جماعتوں سے اس لیے منسلک تھے کہ قوم پرست وسائل پر اختیار کی بات کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پشتون آبادی والے علاقوں میں بھی قبائلی نظام ہے لیکن وہاں جے یو آئی ف ایک متبادل کے طور پر سامنے آ گئی ہے جس سے وہاں قوم پرست جماعتوں کی پوزیشن کمزور ہے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری روزی خان کاکڑ نے اس تاثر کو سختی سے مسترد کیا کہ پیپلز پارٹی بلوچستان کو اہمیت نہیں دیتی اور صوبے میں اس کا موثر تنظیمی ڈھانچہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم صرف کوئٹہ شہر کی بات کریں تو یہاں ہمارے دو سو سے زائد بنیادی یونٹس ہیں اور اسی طرح بلوچستان بھر میں ہر ضلع میں ہمارے بنیادی یونٹس موجود ہیں۔۔

نون لیگ بلوچستان کے جنرل سیکرٹری اور سابق سپیکر بلوچستان اسمبلی جمال شاہ کاکڑ نے بھی کہا کہ ایسی بات بالکل نہیں کہ بلوچستان سے قومی اسمبلی کی نشستیں کم ہونے کی وجہ سے نون لیگ اس کو اہمیت نہیں دیتی۔

انھوں نے کہا کہ پورے بلوچستان میں نون لیگ کا تنظیمی ڈھانچہ ہے اور جماعت صوبے میں بھی اپنی تنظیم سازی پر اسی طرح توجہ دے رہی ہے، جس طرج پنجاب اور دوسرے صوبوں میں دے رہی ہے۔

نون لیگ
 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ماہرین کے مطابق آئندہ الیکشن میں بلوچستان میں نون لیگ کی پوزیشن بہتر لگتی ہے کیونکہ اس میں الیکٹیبلز زیادہ ہیں

بڑی تعداد میں الیکٹیبلز بلوچستان عوامی پارٹی کو کیوں چھوڑ گئے؟

بلوچستان عوامی پارٹی میں جو الیکٹیبلز تھے ان کی ایک بڑی تعداد واپس نون لیگ میں چلی گئی جبکہ بعض نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار لی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں حکومت ملنے کے باوجود الیکٹیبلز کی اکثریت بلوچستان عوامی پارٹی کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی؟

انور ساجدی کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ بلوچستان میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں مخلوط حکومتیں بنتی رہی ہیں لیکن 2018 میں اسٹیبلشمنٹ نے مقامی سطح پر بلوچستان عوامی پارٹی کی شکل میں ایک نیا تجربہ کیا جو ناکام ہو گیا۔

شہزادہ ذوالفقارکا بھی یہ کہنا ہے کہ الیکٹیبلز کا ایک گروہ تھا جس کے لیے یہ پارٹی بنائی گئی مگر یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ شاید بلوچستان عوامی پارٹی کے چند لوگ انتخابات جیت بھی جائیں لیکن ان کا وہی کردار ہو گا جو جی ڈی اے یا اس طرح کی دیگر الائنسز اور جماعتوں کا ہوتا ہے۔

انور ساجدی کا بھی کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات میں شاید بلوچستان عوامی پارٹی کو تین چار سیٹیں مل جائیں۔

’جس طرح بلوچستان میں مخلوط حکومتیں بنتی ہیں تو بلوچستان عوامی پارٹی کو اگر تین چار سیٹیں مل گئیں تو وہ بلوچستان میں مخلوط حکومت کا حصہ بنے گی اور یہی اس کا کردار ہو گا۔‘

الیکشن

دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سینیٹر کہدہ بابر نے پارٹی کے قیام میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس پارٹی کو اس سوچ اور نظریے کے تحت قائم کیا گیا کہ ایک موثر پارٹی ہو جس کے پلیٹ فارم سے بلوچستان کی بات کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہماری جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہوتی تو پھر بعض لوگ اس کو کیوں چھوڑ کر چلے گئے، ایسی بات ہوتی تو وہ پارٹی کو چھوڑ کر نہیں جاتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جو دوست پارٹی کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں ہمارے دروازے ان کے لیے اب بھی کھلے ہیں اور ہمارا ان کو کہنا ہے کہ وہ واپس پارٹی میں آئیں اور اپنی پارٹی کی ٹکٹ پر ہی انتخاب لڑیں۔‘

انتخابات کے بعد بلوچستان میں کن جماعتوں کے درمیان الائنس متوقع ہے؟

شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ بظاہر آئندہ الیکشن میں نون لیگ کی پوزیشن بہتر لگتی ہے کیونکہ اس میں الیکٹیبلز زیادہ ہیں تاہم پیپلز پارٹی بھی بلوچستان میں اقتدار کی دوڑ میں شامل ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی بلوچستان میں الیکٹیبلز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے محنت بھی کر رہی ہے۔ اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں بلوچستان میں مقابلہ ہے۔‘

شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ جے یو آئی، بلوچستان عوامی پارٹی اور بعض دیگر قوم پرست جماعتیں نون لیگ کی اتحادی ہیں اور آئندہ الیکشن میں بھی ان کے درمیان الائنس متوقع ہے جس کے باعث ان کی بلوچستان میں مخلوط حکومت کے قیام کے امکانات زیادہ ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *