تحریک لبیک دھرنا پنجاب پولیس کی ناکامی پر پولیس کے سربراہ کو خط ’جب سادھوکی پر پولیس کو مار پڑ رہی تھی تو رینجرز اہلکار خاموش تماشائی بنے رہے
کالعدم جماعت تحریک لبیک کے دھرنے کے شرکا کو روکنے میں پنجاب پولیس کے حکام کی ناکامی سے متعلق پنجاب پولیس کے سربراہ کو خط لکھنے والے سب انسپکٹر خالد نواز کا کہنا ہے کہ پولیس حکام اپنی ناکامیوں کا احاطہ کرنے کی بجائے اس احتجاج میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے گھر تعزیت کے لیے جا کر ذاتی تشہیر حاصل کر رہے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایک دو دن پولیس حکام اس احتجاج میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے گھر چلے جائیں گے لیکن ان پولیس اہلکاروں کے ورثا باقی زندگی کیسے گزاریں گے۔
انھوں نے کہا کہ وزیر آباد میں دھرنے کے دوران ڈیوٹی کرتے ہوئے پولیس اہلکار عدنان کو مظاہرین نے مبینہ طور پر تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔
انھوں نے کہا کہ پولیس کے اعلیٰ حکام کو معلوم تھا کہ ان کا ایک کانسٹیبل لاپتہ ہو گیا ہے لیکن کوئی بھی ان کی مدد کے لیے نہیں پہنچا اور نہ ہی پولیس حکام نے اس کانسٹیبل کو مظاہرین کے چنگل سے نکالنے کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا۔
خالد نواز جو اس وقت حافظ آباد میں سی آئی اے میں تعینات ہیں، نے کہا کہ جب کوئی مشن ناکام ہوتا ہے تو اس کا احاطہ کرنے کے لیے سوچ بچار کی جاتی ہے اور ان غلطیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے مشن ناکام ہوا لیکن یہاں پر صرف پولیس حکام کے تبادلوں پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ جب سادھوکی کے مقام پر پولیس اہلکاروں کو مار پڑ رہی تھی اور وہ پسپائی پر مجبور تھے تو اس دوران وہاں پر موجود رینجرز اہلکار خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔
خالد نواز کا کہنا تھا کہ رینجرز اہلکار وہاں پر ایسے کھڑے ہو کر یہ کارروائی دیکھ رہے تھے جیسے گاؤں کے گلی محلوں میں بندر یا ریچھ کا کوئی تماشا ہو رہا ہو۔
انھوں نے کہا کہ اس سے بڑھ کر حکام کی طرف سے یہ بے حسی سامنے آئی کہ پولیس کو رینجرز کے زیر کمان کر دیا گیا۔
خالد نواز سنہ 2003 میں پنجاب پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے اور اب وہ سب انسپکٹر ہیں اور وہ بیس تھانوں میں بطور ایس ایچ او اپنی ذمہ داریاں ادا کرچکے ہیں۔
وہ کچھ عرصہ قبل ہنگری سے اشتہاری مجرم عاطف زمان عرف عاطی لاہوریا کو لے کر ائے تھے جنھیں بعد ازاں پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔
خالد نواز نے اپنے خط میں تحریک لبیک کے مظاہرے کو روکنے سے متعلق پنجاب پولیس کے سربراہ سے متعدد سوالات کیے ہیں۔
جس میں پنجاب پولیس کے سربراہ سے پوچھا گیا ہے کہ سادھوکی پوائنٹ پر شیل کم ہونے سے فورس کا بڑا حصہ بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرار ہوا؟
جب تحریک لبیک کے مظاہرین کو شیخوپورہ کی حدود میں دھکیل دیا گیا تھا تو افسران اور فورس میں شامل اہلکار بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیوں بھاگے؟
خالد نواز نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ بحیثیت پنجاب پولیس جو انتہائی تذلیل ہوئی، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ انھوں نے مطالبہ کیا کہ بزدلی کا مظاہرہ کرنے والے افسران اور جوانوں کا تعین کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ جب فورس ہجوم کو پیچھے دھکیل چکی تھی تو بیک اپ میں افسران اور جوانوں نے بزدلی کا مظاہرہ کیوں کیا؟
خالد نواز نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ پر تشدد ہجوم سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا سکیورٹی پلان جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تھا؟
انھوں نے مطالبہ کیا کہ فرنٹ لائن فورس کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے ذمہ داران کے خلاف فوجداری کارروائی کی جائے۔
خالد نواز کا کہنا تھا کہ انھیں معلوم ہے کہ ان کو پولیس کے اعلیٰ افسران کی طرف سے وضاحت کے لیے طلب کیا جا سکتا ہے اور ان کی نوکری بھی جا سکتی ہے لیکن انھوں نے یہ سارا کچھ اس لیے کیا تاکہ آئندہ کوئی پولیس اہلکار غلط حکمت عملی کی وجہ سے قربانی کی بھینٹ نہ چڑھے۔