بشریٰ بی بی بنی گالہ میں قائم کردہ سب جیل میں قید

بشریٰ بی بی بنی گالہ میں قائم کردہ سب جیل میں قید

بشریٰ بی بی بنی گالہ میں قائم کردہ سب جیل میں قید عمران خان کی اہلیہ کون ہیں؟

اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت نے سرکاری تحائف سے متعلق توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 14، 14 سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔

احتساب عدالت کی جانب سے عمران خان کو دس سال کے لیے نااہل بھی قرار دیا گیا ہے جبکہ سابق وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ پر مجموعی طور پر ایک ارب 57 کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

عمران خان کی اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ میں رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا گیا ہے اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اڈیالہ جیل سے بنی گالہ میں ان کی رہائش گاہ منتقل کر دیا گیا ہے۔

سپریٹینڈنٹ اڈیالہ کی جانب سے لکھے گئے خط کے جواب میں چیف کمشنر اسلام آباد نے بشریٰ بی بی کی بنی گالہ رہائش گاہ کو سب جیل قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ خان ہاؤس بنی گالہ موہڑہ نور کو تاحکم ثانی سب جیل قرار دیا جاتا ہے۔

بانی پی ٹی آئی کی بنی گالہ رہائش گاہ کےباہرپولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے اور ان کی رہائش گاہ کےاندر جیل پولیس کا عملہ تعینات رہے گا۔

بشریٰ بی بی پر کیا الزامات تھے؟

بشریٰ بی بی، عمران خان، توشہ خانہ کیس، سعودی عرب

نیب کی جانب سے دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ تحریک انصاف کی ساڑھے تین سالہ حکومت کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان اور اُن کی اہلیہ کو مختلف سربراہان مملکت کی جانب سے 108 تحائف موصول ہوئے جن میں سے انھوں نے 58 تحائف اپنے پاس رکھ لیے اور ان تحائف کی ’کم مالیت‘ ظاہر کی گئی۔

ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ ’ملزمان نے سعودی ولی عہد سے ملنے والا جیولری سیٹ بھی کم مالیت پر حاصل کیا جبکہ بشریٰ بی بی نے سعودی ولی عہد سے ملنے والا جیولری سیٹ توشہ خانہ میں جمع ہی نہیں کروایا۔‘

نیب ریفرنس میں الزام تھا کہ ’ملزمان تحائف توشہ خانہ میں جمع کرواںے کے پابند تھے۔ قواعد کے مطابق ہر تحفہ توشہ خانہ میں جمع کروانا ہوتا ہے۔ سعودی عرب سے ملا تحفہ وزیراعظم کے ملٹری سیکریٹری نے 2020 میں رپورٹ کیا۔ گراف جیولری سیٹ کو رپورٹ کرنے کے بعد قانون کے مطابق جمع نہیں کروایا گیا۔‘

ریفرنس کے مطابق ’نیب نے تحقیقات میں پرائیویٹ مارکیٹ سے بھی تخمینہ لگوایا۔ تحقیقات میں ثابت ہوا کہ گراف جیولری سیٹ کی مالیت کم ظاہر کی گئی۔‘

توشہ خانہ کیس کی تحقیقات اور کارروائی کے دوران بشریٰ بی بی کی اور عمران خان کے ملازم انعام کی بھی ایک مبینہ ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ اس گفتگو کے دوران مبینہ طور پر بشریٰ بی بی ملازم کو گھر میں آنے والے توشہ خانہ کے تحائف کی تصاویر بنانے پر ڈانٹ رہیں تھیں۔

تاہم سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت نے اس آڈیو ریکارڈنگ کو ’غیرتصدیق شدہ‘ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔

اس سزا سے پہلے اڈیالہ جیل میں ہونے والی عدالتی کارروائی میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر عدت میں نکاح کے مقدمہ میں بھی فرد جرم عائد کی جا چکی ہے۔

عمران خان اور بشری بی بی کا نام القادر ٹرسٹ کیس میں بھی زبان زد عام رہا۔ جس میں ان پر الزام تھا کہ القادر یونیورسٹی کے لیے کئی سو کنال زمین بطور عطیہ حاصل کی گئی اور یہ عطیہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے دیا گیا۔

بشریٰ بی بی اور عمران خان

’عمران خان اور بشریٰ بی بی سے یہ غیر منصفانہ سلوک ناقابل قبول ہے‘

عمران خان و بشری بی بی کے قریب سمجھنے جانے والے تحریک انصاف کے رہنما سید ذوالفقارعباس بخاری المعروف زلفی بخاری اس سزا کو ’امتیازی سلوک‘ اور ’غیر منصفانہ‘ قرار دیتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے ہی اس ملک میں لولی لنگڑی جمہوریت ہے اور اب عدلیہ نے ایسے فیصلوں سے اپنا مذاق بنایا ہے۔‘

مقدمے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی عہدے دار قانون کے مطابق قیمت کا 50 فیصد ادا کر چکا ہے تو آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ وہ چیز اب اس شخصیت کی ملکیت ہے، وہ چاہے اس کو رکھے، بیچے، توڑے یا جو مرضی کرے۔ اگر آپ کو وہ شخص یا اس کا یہ فیصلہ پسند نہیں ہے تو آپ اس کو الیکشن میں ووٹ نہ دیں۔ اس پر جیل بھیجنا یا سزا دینا انتہائی غیر منصفانہ اقدام ہے۔‘

زلفی بخاری کے مطابق ’اللہ کا اپنا بھی قانون ہے۔ اس وقت پاکستان میں عمران خان کے لیے الگ اور باقیوں کے لیے الگ قانون ہے۔ دوسری طرف نواز شریف اور آصف زرداری نے غیر قانونی طور پر توشہ خانہ کی دو دو گاڑیاں ابھی تک اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں لیکن اس پر مکمل خاموشی ہے۔‘

انھوں نے کہا ’عمران خان کو تحائف بیچنے پر نہیں بلکہ تحائف کی کم قیمت کے تعین پر سزا سنائی گئی ہے۔ یہ کام ایف بی آر اور کابینہ ڈویژن کے ماہرین سے متعلق تھا۔ جس سے عمران خان کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ عمران خان اور بشری بی بی سے یہ غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک ناقابل قبول ہے۔‘

بشریٰ بی بی کون ہیں؟

بشریٰ بی بی، عمران خان، توشہ خانہ کیس، سعودی عرب
 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

عمران خان نے بشریٰ بی بی سے شادی کی تصدیق فروری 2018 میں کی تھی

پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا پورا نام بشریٰ ریاض وٹو ہے جو اپنی پہلی شادی کے بعد بشری خاور مانیکا بن گئی تھیں تاہم بعدازاں انھوں نے اپنے سابقہ شوہر خاور مانیکا سے طلاق لی اور سنہ 2018 میں ان کی شادی عمران خان سے ہوئی۔

بشریٰ بی بی کی پہلی شادی پاکپتن کے ایک مشہور سیاسی خاندان میں ہوئی تھی جبکہ بشریٰ بی بی کے والد میاں ریاض کوئیکا وٹو ضلع پاکپتن کے ایک معروف زمیندار تھے۔

بشریٰ بی بی کے سابقہ شوہر خاور فرید مانیکا سابق بیوروکریٹ ہیں اور انھوں نے وفاقی حکومت کے کسٹم ڈیپارٹمنٹ میں خدمات سرانجام دیں۔ جبکہ ان کے سابقہ سسرغلام محمد احمد مانیکا مشہور سیاستدان تھے اور وہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے افرادی قوت و سمندر پار پاکستانی رہے۔ میاں غلام محمد احمد مانیکا کے والد میاں نور مانیکا بھی پاکستان بننے سے پہلے پنجاب اسمبلی کے رکن رہے تھے۔

پاکپتن کی موجودہ سیاست میں بھی بشریٰ بی بی کے دو سابق دیور سابق ایم این اے احمد رضا مانیکا اور فاروق مانیکا قومی و صوبائی نشستوں پر امیدوار ہیں جبکہ بشریٰ بی بی کے داماد میاں حیات مانیکا حال ہی میں تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بعد اب صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ 2018 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن میں ناکام رہے تھے۔

جبکہ بشریٰ بی بی کے سمدھی میاں عطا مانیکا کئی مرتبہ وزیر اور صوبائی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں جبکہ بشری بی بی کی سمدھن پروین مانیکا بھی مسلم لیگ ن کی رکن صوبائی اسمبلی رہ چکی ہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے بشریٰ بی بی سے اپنی تیسری شادی کی تصدیق فروری 2018 میں کی تھی۔

عمران خان کے 2018 میں وزیرِ اعظم بننے کے بعد اُن کی اہلیہ بطور خاتون اول مختلف سماجی کاموں میں مصروف نظر آتی تھیں۔ بشریٰ بی بی لاہور میں بنائی جانے والے لنگر خانوں، پناہ گاہوں اور پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے دورے کرتی تھیں اور ان مواقع پر بنائی گئی ان کی تصاویر سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا کی زینت بنتی رہتی تھیں۔

عمران خان انھیں اپنا ’روحانی رہنما‘ بھی قرار دیتے رہے ہیں۔

پانچ برس قبل بشریٰ بی بی نے اینکر پرسن ندیم ملک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان سے شادی کے بعد اپنی زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کا ذکر بھی کیا تھا۔

انھوں نے اینکر ندیم ملک کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’خاتون اول بننے سے پہلے لوگ اللہ اور اس کے رسول سے قریب ہونے کے لیے میرے پاس آتے تھے۔ خاتون اول بننے کے بعد اب لوگ خان صاحب سے قریب ہونے کے لیے میرے پاس آتے ہیں۔‘

بشریٰ بی بی نے اسی انٹرویو میں کہا تھا کہ انسانیت کی خدمت کرنا انھوں نے عمران خان سے سیکھا ہے۔

بشری بی بی نے اسی انٹرویو میں مزید بتایا تھا کہ انھوں نے لاہور اور اسلام آباد سے تعلیم حاصل کی اور ان کی کم عمری میں ہی شادی ہو گئی تھی۔

عمران خان سے شادی کے بعد بشریٰ بی بی کی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کے اہلخانہ بھی مختلف حوالوں سے خبروں میں رہے ہیں۔ عمران خان کے دور حکومت میں اُن کی بہن مریم ریاض وٹو کو ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان میں ایڈوائزر کے طور پر تعینات کیا گیا تھا تاہم کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد مریم ریاض وٹو نے اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

سال 2023 میں اینٹی کرپشن حکام نے بشریٰ بی بی کے بھائی احمد مجتبیٰ وٹو پر غبن کا مقدمہ درج کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے ترقیاتی کاموں میں دو کروڑ روپے سے زائد کی خرد برد کی ہے۔ اس مقدمے میں بشریٰ بی بی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

چند ماہ قبل بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا کو محکمہ اینٹی کرپشن نے سرکاری زمین پر ناجائز تعمیرات کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اُن پر الزام تھا کہ انھوں نے سرکاری زمین پر دکانوں اور شادی ہالز کی غیر قانونی تعمیرات کروائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *