الیکشن 2024: ’سیاسی جماعتیں ایلیٹ کلاس کی ان خواتین

الیکشن 2024: ’سیاسی جماعتیں ایلیٹ کلاس کی ان خواتین

الیکشن 2024: ’سیاسی جماعتیں ایلیٹ کلاس کی ان خواتین کو ٹکٹ دیتی ہیں جن کو پارٹی بھی نہیں جانتی

پاکستان کے عام انتخابات میں اس برس چھ کروڑ کے لگ بھگ خواتین ووٹ دے سکتی ہیں۔ ان کے یہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں نے پانچ ہزار سے زیادہ امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ لیکن ان میں خواتین کی تعداد محض تین سو کے قریب ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کے لیے 355 خواتین اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے 672 خواتین کے کاغذاتِ نامزدگی منظور کیے گئے۔

یعنی خواتین نے درخواستیں بھی کم دیں اور ان میں سے بھی سیاسی جماعتوں نے مردوں کے مقابلے میں گنتی کی چند خواتین کو جنرل نشستوں پر انتخاب لڑنے کے لیے ٹکٹیں دی ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں ووٹرز کی اتنی بڑی تعداد کو نظرانداز کر رہی ہیں؟

اگر زیادہ خواتین امیدوار میدان میں ہوں تو کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ زیادہ خواتین ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے باہر نکلیں؟

پاکستان کے گذشتہ انتخابات کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نصف سے بھی کم خواتین ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتی ہیں۔ سنہ 2018 میں یہ تناسب 46 فیصد رہا۔

الیکشن کے عمل پر نظر رکھنے والے ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک یعنی فافن کے مطابق اس کم تناسب کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ’خواتین کی ایک بڑی تعداد کے پاس قومی شناختی کارڈ ہی نہیں ہے جو ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔‘

فافن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق شناختی کارڈ بنوانے کے لیے بھی ان میں سے زیادہ تر خواتین کو گھر کے مردوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ انتخابات سے پہلے مرد امیدوار اپنے حلقوں میں ووٹ لینے کے لیے جو اقدامات کرتے ہیں ان میں مرکزی اقدام شناختی کارڈ بنوانے کا ہوتا ہے۔

تو اگر خواتین امیدوار میدان میں آئیں تو ایسا ممکن ہے کہ وہ خود کوشش کر کے ان خواتین کو شناختی کارڈ دلوانے میں مدد کر سکتی ہیں جو اس اہم دستاویز سے محروم ہوتی ہیں اور نتیجتاً ووٹ نہیں ڈال سکتیں۔

ماہرین کے مطابق انتخابی سیاست کے دھارے میں خواتین کی شمولیت کو بڑھانے کی طرف یہ ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں خواتین کو جنرل نشستوں پر امیدوار کے طور پر سامنے کیوں نہیں لاتیں۔

پاکستان میں الیکشن قوانین کے مطابق ہر سیاسی جماعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کل امیدواروں کا پانچ فیصد خواتین کے لیے مختص کرے گی یعنی پانچ فیصد ٹکٹیں خواتین کو دی جائیں گی۔

پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے الیکشن قوانین کے مطابق پانچ فیصد کا یہ کوٹہ پورا کیا ہے۔ اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔

خواتین

’پانچ فیصد میں تو ان کے خاندان کی عورتیں ہی آ جاتی ہیں‘

ثمینہ خاور حیات بنیادی طور پر پاکستان مسلم لیگ ق میں سابق وزیرِاعلی پنجاب پرویز الہی کے گروپ سے تعلق رکھتی ہیں جو گذشتہ برس پاکستان تحریکِ انصاف میں باقاعدہ طور پر شامل ہوا۔

ثمینہ خاور حیات نے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے پی ٹی آئی کو درخواست دے رکھی تھی تاہم ٹکٹ تقسیم ہونے کے وقت پر انھیں معلوم ہوا کہ ان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ انھوں نے آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ثمینہ خاور حیات کہتی ہیں کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے جو کوٹہ خواتین امیدواروں کے لیے مختص کیا گیا ہے وہ کم ہے۔ ’پانچ فیصد میں تو ان کے خاندان کی عورتیں ہی آ جاتی ہیں۔ ہم جیسی ورکر خواتین کہاں جائیں۔‘

ان کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت زیادہ تر جنرل نشستوں کے پانچ فیصد کوٹہ پر اپنے خاندان اور عزیز و اقارب کی خواتین کو ٹکٹیں دیتی ہے۔

’ایلیٹ کلاس کی وہ خواتین آ جاتی ہیں جن کو پارٹی بھی نہیں جانتی‘

Sana Durrani

بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے ثنا درانی بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کی خواہشمند تھیں اور ٹکٹ نہ ملنے پر اب آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’سیاسی جماعتوں میں تگ و دو اور کام ورکر خواتین کرتی ہیں اور جب ٹکٹ یا مراعات دینے کا وقت آتا ہے تو سیاسی جماعتیں کسی سردار کی ماں بہن، بیٹی یا پھر الیٹ کلاس کی ایسی خاتون کو ٹکٹ دے دیتی ہیں جن کو پارٹی بھی نہیں جانتی۔‘

وہ آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے سے دستربردار نہیں ہوئیں تاہم لاہور سے ثمینہ خاور حیات پی ٹی آئی کے مرد امیدوار کے حق میں دستبردار ہو گئی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے پارٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کرنی تھی اور پھر میری جماعت کے حمایت یافتہ امیدوار کے خاندان کی خواتین میرے گھر آ گئیں اور میری حمایت کی درخواست کی تو میں ان کے حق میں دستبردار ہو گئی ہوں۔‘

تاہم ثمینہ خاور حیات سمجھتی ہیں کہ اگر ان کی جماعت میں ’ٹکٹوں کی تقسیم کرنے والے افراد نے یہ سمجھا کہ وہ خاتون ہیں اور سیٹ نہیں جیت پائیں گی تو انھوں نے غلطی کی اور اس کا جواب میں پارٹی قیادت سے لوں گی۔‘

زیادہ تر وہ خواتین جنھوں نے ٹکٹ نہ دینے کے پارٹی فیصلے کے خلاف آزاد حیثیت سے انتخابات لڑنے کا اعلان کیا تھا وہ بعد ازاں دستبردار ہو گئیں کیونکہ سیاسی جماعتوں نے نوٹیفیکیشن جاری کر کے ایسے تمام امیدواروں کو دستبردار ہو کر پارٹی کے امیدوار کی حمایت کا پابند کر دیا۔

کیا واقعی سیاسی جماعتوں نے عزیز و اقارب کو ٹکٹیں دیں؟

maryam

سیاسی جماعتوں کی طرف سے میدان میں موجود امیدواروں کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر جماعتوں نے ایک مرتبہ پھر ان انتخابات میں بھی ان ہی خواتین کو ٹکٹیں دی ہیں جو گزشتہ کئی انتخابات سے ان کی امیدوار رہی ہیں۔

ان میں زیادہ تر وہ خواتین شامل ہیں جو خاندانی اثر و رسوخ کی وجہ سے ووٹ بینک رکھتی ہیں یا پھر وہ خواتین جن کی پارٹی کی طرف سے مسلسل حمایت کے بعد پہچان بن چکی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے تاہم ایک دو ایسی خواتین امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے جو اقلیتی برادری سے تعلق رکھتی ہیں یا پھر بڑے خاندان سے نہیں ہیں۔ بڑی جماعتوں میں سب سے کم جنرل نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ پاکستان مسلم لیگ ن نے جاری کیے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف نے سب سے زیادہ خواتین کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ صرف قومی اسمبلی کے لیے ان کی 20 سے زیادہ خواتین میدان میں ہیں۔ تاہم ماہرین کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے بہت سے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے تھے۔

اس خدشے کے پیشِ نظر انھوں نے اپنے کورنگ امیدوار کے طور پر اپنے ہی خاندان کی خواتین کو نامزد کر رکھا تھا جو خود بخود ہی امیدوار کے طور پر منظور ہو گئیں۔ ان میں بھی زیادہ تر کا تعلق ان خاندانوں سے ہے جو سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

تو سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں خواتین کو ٹکٹیں دینے میں کیوں ہچکچاتی ہیں۔

Samina Khawar

’ہر پارٹی دیکھتی ہے کہ کیا یہاں سے یہ امیدوار جیت سکتا یا سکتی ہے‘

پاکستان میں پارلیمانی اور انتخابی عمل پر نظر رکھنے والے ادارے پاکستان لیجیسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرینسی یعنی پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ جنرل نشستوں کے معاملے میں زیادہ تر سیاسی جماعتیں مرد اور خواتین دونوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ٹکٹ دیتے وقت پارٹی یہ دیکھتی ہے کہ کیا یہ امیدوار نشست جیت سکتا یا سکتی ہے۔‘

احمد بلال محبوب کے خیال میں بہت سے ایسے مردوں کو بھی پارٹیاں ٹکٹ نہیں دیتیں جو لمبے عرصے سے اس کے ورکر رہ چکے ہوں۔ ان کی جماعت کے ساتھ وابستگی پر کوئی شک نہیں ہوتا لیکن پارٹی قیادت کے خیال میں وہ جنرل نشست پر سیٹ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔

تاہم پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ حالیہ انتخابات میں خاص طور پر پی ٹی آئی نے بہت سی ایسی خواتین کو ٹکٹیں دی ہیں جو پہلی مرتبہ جنرل سیٹ پر الیکشن لڑیں گی۔

وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اس مرتبہ کامیاب نہیں بھی ہو پاتیں تو پارٹی کی حمایت کی وجہ سے ان کی ایک پہچان بن جائے گی جو مستقبل میں ان کی مدد کرے کی۔

تو سوال یہ ہے کہ خواتین اب تک اس سطح پر کیوں نہیں پہنچ پائیں جہاں انھیں سیاسی جماعتیں ایک مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھنا شروع کر دیں۔

’اگر میں خاتون ہوں تو کیا مجھے خود فیصلہ لینے کی اجازت ہے‘

پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ خواتین کو انتخاب لڑنے لے لیے سامنے نہ لانے کا رجحان عالمی سطح پر بھی ایسا ہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بہت کم ایسے ممالک ہیں جہاں مردوں کے مقابلے خواتین کی نمائندگی کو سیاست یا پارلیمان میں بڑھایا جا سکا ہے۔

’دوسری جانب ہماری اپنی کلچرل مشکلات ہیں۔ مثال کے طور پر خواتین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جس کے لیے آزادانہ طور پر اپنے فیصلے لینا ممکن نہیں ہے۔ اور سیاست میں سرگرم ہونے کے کیے یہ سب سے بنیادی پہلو ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر میں ایک خاتون ہوں تو مجھے دیکھنا پڑے گا کہ کیا مجھے خود فیصلہ لینے کی اجازت ہے۔ کیا میں اپنی مرضی سے کہیں بھی آ جا سکتی ہوں، کیا میں اپنی مرضی سے اپنے کیریئر کا انتخاب کر سکتی ہوں۔ زیادہ تر خواتین کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ مخصوص نشستوں پر پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی رکھی گئی ہے۔

’ہم نے الیکشن اتنا مہنگا کر دیا ہے‘

خواتین

کوئٹہ سے آزاد امیدوار ثنا درانی کہتی ہیں کہ ایک خاتون کے پاکستان میں کسی سیاسی جماعت کی حمایت کے بغیر انتخابات لڑنا بہت مشکل بنا دیا گیا ہے۔

’ہم نے انتخابات کو اتنا مہنگا کر دیا ہے، ہم نے ووٹر بیچنے اور خریدنے شروع کر دیے ہیں، ہم نے امیدوار خریدنے اور بیچنے شروع کر دیے ہیں اور خواتین کے لیے تو مالی مشکلات اور بھی زیادہ ہیں۔‘

وہ سمجھتی ہیں کہ خواتین کے لیے مالی طور پر مضبوط ہونا بھی مشکل ہو جاتا ہے اور جب وہ ووٹ مانگنے کے لیے باہر جاتی ہیں تو عوام بھی خواتین کے بجائے مردوں کو زیادہ قابل امیدوار کے طور پر دیکھتے ہیں ’کیونکہ ہمارا کلچر ایسا ہے۔‘

لاہور سے ثمینہ خاور حیات سمجھتی ہیں کہ خواتین کے بارے میں یہ عمومی تاثر درست نہیں ہے کہ مردوں کے مقابلے وہ زیادہ سیاسی اثر و رسوخ نہیں قائم کر سکتیں کیونکہ وہ ’تھانے کچہری‘ کے کام نہیں کر سکتیں۔

’ایک خاتون بھی اتنا ہی اثر و رسوخ رکھ سکتی ہے اگر وہ چاہے تو۔ میں خود یہ تھانہ کچہری کرتی رہی ہوں اور اپنے لوگوں کے ساتھ جا کر تھانوں میں کھڑی ہوتی رہی ہوں۔ بس سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ خواتین پر اعتماد کریں۔‘

پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ انتخابات لڑنے کے لیے مالی طور پر مضبوط ہونا ضروری ہے اور یہ بھی ایک عنصر ہوتا ہے جس کو سیاسی جماعتیں ٹکٹ تقسیم کرتے وقت سامنے رکھتی ہیں۔

تاہم ان کے خیال میں اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ خواتین کے پاس آزادانہ فیصلہ سازی کا اختیار ہو۔

خاتون

کیا خواتین کے لیے پانچ فیصد کوٹہ کافی ہے؟

پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ پانچ فیصد کو بڑھایا جانا چاہیے تاہم وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں یہ پانچ فیصد بھی پورا نہیں کرتیں۔ اور اس کی وجہ قانون میں موجود سقم ہے۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ کوئی بھی جماعت سو فیصد نشستوں پر امیدوار کھڑے نہیں کرتی۔ کچھ نشستیں ایسی ہوتی ہیں جہاں انھیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہیں جیت سکتے کیونکہ ان کی وہاں کوئی حمایت ہی موجود نہیں ہے۔

’یہ نشستیں وہ صرف پانچ فیصد کا کوٹہ پورا کرنے کے لیے خواتین کو دے دیتی ہیں۔ یہاں سے وہ خواتین ہار جاتی ہیں۔‘

پلڈیٹ کے سربراہ کے مطابق الیکشن قوانین میں یہ بھی سقم موجود ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت پانچ فیصد کوٹہ خواتین کو نہیں بھی دیتی تو اس کے خلاف کیا کارروائی کی جا سکتی ہے یہ قانون میں نہیں دیا گیا۔

’جیسا کہ قانون میں یہ ہے کہ اگر آپ سیاسی جماعتوں میں انتخابات نہیں کرواتے تو آپ کا انتخابی نشان لے لیا جائے گا تو میرے خیال میں پانچ فیصد کوٹہ نہ دینے پر بھی کوئی سزا تجویز ہونی چاہیے جیسا کہ انتخابی نشان واپس لے لینا وغیرہ۔‘

احمد بلال محبوب کے خیال میں خاص طور پر خواتین ووٹرز کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اس جماعت کو زیادہ ووٹ دیں جو زیادہ خواتین کو جنرل نشستوں پر سامنے لا رہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *