ایمن الظواہری کی ہلاکت کی متعدد ذرائع

ایمن الظواہری کی ہلاکت کی متعدد ذرائع

ایمن الظواہری کی ہلاکت کی متعدد ذرائع سے تصدیق کی، لیکن ڈی این اے ثبوت موجود نہیں امریکہ

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکہ کے پاس کابل میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کا کوئی ڈی این اے ثبوت نہیں ہے ۔لیکن اس نے ‘متعدد’ دیگر ذرائع سے الظواہری کی شناخت کی تصدیق کی ہے۔

نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائنڈز تصور کیے جانے والے اایمن لظواہری کو افغان دارالحکومت کابل کے ایک گھر پر امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ چھپے ہوئے تھے ۔

اتوار کی صبح حملے کے وقت ایمن الظواہری اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑے تھے جب ان پر یہ حملہ کیا گیا۔

امریکی قومی سلامتی کونسل کے سٹریٹجک کمیونیکیشن کے کوآرڈینیٹر جان کربی نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام کے پاس ان کی موت کے بعد ڈی این اے کا ثبوت نہیں ہے لیکن امریکی حکام کے پاس’دیگر ذرائع سے جمع کیے گئے اور بصری شواہد ‘ تھے جسے دیکھ کر ہم اعتماد سے کہے سکتے ہیں کہ الظواہری کو ہلاک کر دیا گیا ہے’

امریکی انٹیلی جنس کے ایک اہلکار کے مطابق یہ طالبان کے سینیئر رہنما سراج الدین حقانی کے ایک مشیر کا گھر تھا۔

امریکہ کی اس تصدیق کے بعد کئی طرح کے سوالات لوگوں کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں کہ یہ ڈرون حملہ کیسے ہوا جس میں صرف ایک ہی شخص کی موت ہوئی اور سب سے اہم یہ کہ الظہواری کی لاش کہاں گئی۔

الظواہری

الظواہری کی لاش کہاں گئی؟

اس حملے میں گھر کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے تاہم کوئی اور نقصان نہیں ہوا۔ ہزاروں میل دور بیٹھے بائیڈن کو حملے کی کامیابی کی اطلاع ملی۔ اتوار کو طالبان کی وزارت داخلہ نے طلوع نیوز کو بتایا کہ میزائل ایک خالی مکان میں گرا تھا، اس لیے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ طالبان نے مزید کوئی اطلاع نہیں دی۔

لیکن بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چھاپے کے فوراً بعد ہی حقانی نیٹ ورک اور طالبان کا ایک پرتشدد دھڑا وہاں پہنچ گیا اور ایمن الظواہری کے خاندان کو وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ اس نے پوری کارروائی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ پیر کو جب بی بی سی کے ایک رپورٹر نے اس گھر کے قریب پہنچنے کی کوشش کی تو طالبان نے انہیں وہاں جانے سے روک دیا اور دھمکیاں دیں۔ طالبان نے کہا کہ یہاں دیکھنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انٹیلیجنس حکام نے متعدد سطحوں پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ الظواہری اس حملے میں مارے گئے تھے۔ تاہم اس حملے کے وقت کوئی امریکی اہلکار کابل میں موجود نہیں تھا۔ انہوں نے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں دی کہ آپریشن کیسے کامیاب رہا اور اس کی تصدیق کیسے ہوئی۔

جیمز کلیپر، جو صدر براک اوباما کی حکومت میں نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر تھے انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ کابل میں سابق امریکی اتحادیوں نے تصدیق کی ہوگی۔

لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ الظواہری کی لاش کا کیا ہوا۔ بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ الظواہری کی لاش کو واپس لینے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

حالانکہ اسامہ بن لادن کی لاش برآمد کر کے سمندر میں برد کر دی گئی تھی۔ اسامہ بن لادن کی شناخت کر کے ان کی لاش کو سمندر میں دفن کر دیا گیا تھا تاکہ شدت پسند ان کا مقبرہ نہ بنائیں۔

جان کربی
بصری شواہد ‘ تھے جو جسے دیکھ کر ہم اعتماد سے کہے سکتے ہیں کہ الظواہری کو ہلاک کر دیا گیا ہے’

طالبان کے اعلیٰ رہنماؤں کی میٹنگ

ادھر افغانستان میں طالبان کے اعلیٰ رہنما ایک میٹنگ کر رہے ہیں جس میں اس بارے میں غور کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ہونے والے ڈرون حملے کا جواب کیسے دیا جائے جس میں امریکہ کا کہنا ہے کہ القاعدہ رہنما الظواہری کو ہلاک کردیا گیا ہے۔طالبان نے ابھی تک الظواہری کی موت کی تصدیق نہیں کی ہے۔طالبان نے اتوار کو کابل میں ڈرون حملے کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ وہ مکان خالی تھا۔

ایک اہم طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرروائٹرز کو بتایا کہ طالبان اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ وہ اس حملے کا جواب دیں یا نہیں اور اگر ہاں تو اس کا مناسب طریقہ کیا ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ جس گھر پر حملہ ہوا وہاں ایمن الظواہری موجود تھے یا نہیں۔

اقوامِ متحدہ میں طالبان کی نمائندے سہیل شاہین جو دوحا میں مقیم ہیں انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں طالبان کے موقف کے بارے میں ابھی تک انہیں کوئی اطلاع نہیں ملی ہے ان کا کہنا تھا کہ میں طالبان کے ردِ عمل اور مزید تفصیلات کا منتظر ہوں’۔

امریکہ کی بیرون ملک اپنے شہریوں سے اپیل

ادھر امریکہ نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد بیرون ملک ممکنہ امریکہ مخالف تشدد کے خلاف ہوشیار رہیں۔

محکمہ خارجہ نے کہا کہ الظواہری کی موت القاعدہ کے حامیوں یا دیگر منسلک دہشت گرد گروپوں کو امریکی تنصیبات اور اہلکاروں کو نشانہ بنانے پر اکسا سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *