افغانستان میں طالبان دلی ایئرپورٹ سے واپس بھیجی گئی

افغانستان میں طالبان دلی ایئرپورٹ سے واپس بھیجی گئی

افغانستان میں طالبان دلی ایئرپورٹ سے واپس بھیجی گئی افغان رکن پارلیمان رنگینہ کارگر کہتی ہیں کہ’انڈیا کے اس سلوک کی توقع نہ تھی

افغانستان کی رکن پارلیمان رنگینہ کارگر نے کہا ہے کہ وہ اب انڈیا نہیں آئیں گی کیونکہ انھیں نئی دہلی کے ایئرپورٹ سے واپس کر دیا گیا تھا۔

ترکی کے شہر استنبول سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رنگینہ کارگر نے کہا کہ وہ افغانستان کی منتخب نمائندہ ہیں اور انھیں انڈیا سے بہتر سلوک کی توقع تھی۔

رنگینہ کارگر دراصل افغانستان کے صوبہ فاریاب کی باشندہ ہیں اور ان کا خاندان ان دنوں کابل میں ہے جبکہ خود رنگینہ، ان کا ایک سال کا بچہ اور ان کے شوہر اس وقت استنبول میں ہیں۔

رنگینہ نے بی بی سی کو بتایا: ’میں 21 اگست کی صبح چھ بجے دلی ایئرپورٹ پہنچی، بدقسمتی سے انھوں نے مجھے انڈیا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ انھوں نے مجھے دبئی کے راستے استنبول واپس بھیج دیا۔‘

رنگینہ نے بتایا ’میں نے افسران سے کہا کہ میں اکیلی عورت ہوں اور رکن پارلیمان ہوں لیکن انھوں نے مجھے سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے واپس روانہ کر دیا۔‘

رنگینہ کے مطابق ان واقعات کے بعد انڈیا کی حکومت کے نمائندے نے ان سے رابطہ کیا اور انھیں انڈیا کے لیے ہنگامی ویزا دینے کی پیشکش کی ہے۔

رنگینہ کارگر

ایئرپورٹ پر کیا ہوا؟

رنگینہ سفارتی پاسپورٹ پر انڈیا پہنچی تھیں۔ اس طرح کے پاسپورٹ ہولڈرز کے لیے افغانستان کے ساتھ دو طرفہ معاہدے کے تحت ویزا کے بغیر انڈیا میں داخلے کی اجازت ہے۔ افغانستان انڈیا کے سفارت کاروں کو بھی یہ سہولت دیتا رہا ہے۔

لیکن ایئرپورٹ پر تعینات عملے نے رنگینہ کارگر کو دبئی کے راستے استنبول بھیج دیا۔

رنگینہ کہتی ہیں کہ ’انڈیا سے جے پی سنگھ نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ مجھے ایمرجنسی ویزا کے لیے درخواست دینی چاہیے۔ میرا ایک سال کا بچہ ہے، میں اسے بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھی اور میں نے اس کے لیے ای ویزے کی درخواست کی تھی لیکن ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔‘

جے پی سنگھ انڈیا کی وزارت خارجہ میں جوائنٹ سیکرٹری ہیں اور ایران، پاکستان اور افغانستان سے متعلقہ معاملات کے انچارج ہیں۔

رنگینہ کہتی ہیں کہ ’میں نے انڈیا کے لیے اپنی فلائٹ سے پہلے اپنے بچے کے لیے ویزے کی درخواست کی تھی لیکن ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ایک بار انڈیا نے مجھے واپس کر دیا تو اب میں مستقبل قریب میں انڈیا نہیں آ سکوں گی۔‘

کابل ایئرپورٹ

انڈیا کے رویے پر تنقید

رنگینہ اس وقت اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ استنبول میںہیں لیکن ان کے خاندان کے زیادہ تر افراد کابل میں ہیں۔ وہ اپنے خاندان کی حفاظت کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔

رنگینہ کہتی ہیں کہ ’میرے خاندان کے افراد حکومت کی جانب سے طالبان کے خلاف لڑ رہے تھے لیکن اب طالبان اقتدار میں ہیں۔ افغانستان کے حالات بہت خراب ہیں۔ میں ہر وقت اپنے خاندان کے بارے میں پریشان رہتی ہوں۔‘

’میں انڈین حکومت سے کہنا چاہتی ہوں کہ ان کے افغانستان کی حکومت سے تعلقات بہت اچھے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کو بہت سپورٹ کیا۔ میں رکن پارلیمان ہوں۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ انڈیا میں میرے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے گا۔ میں ایک عورت ہوں، میں اکیلی سفر کر رہی تھی۔‘

وہ کہتی ہیں ’دنیا نے افغانستان کے لوگوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں لیکن انڈیا نے مجھے واپس کر دیا۔ میں اس رویے کی مذمت کرتی ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے ایئرپورٹ سے لوٹائے جانے کے بعد ہی انڈیا نے افغانستان کے ہندوؤں اور سکھوں کو اپنے ملک آنے کی اجازت دی تھی۔ ہم انڈیا کے اتحادی ہیں اور ہمیں انڈیا سے بہتر سلوک کی توقع تھی۔‘

دہلی میں انڈین وزارت خارجہ کا دفتر

انڈین وزارت خارجہ کا کیا کہنا ہے؟

اطلاعات کے مطابق انڈین حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ رنگینہ کے معاملے میں غلطی ہوئی اور اس کے بعد ان سے رابطہ کیا گیا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ جمعرات کو ہونے والی آل پارٹی میٹنگ میں اٹھایا گیا تھا اور اسی دوران حکومت نے یہ بات کہی تھی۔

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں انڈین قونصل خانے اور سفارت خانے میں موجود افغان شہریوں کے پاسپورٹ طالبان نے چھین لیے تھے، جس کے بعد سکیورٹی ایجنسیاں افغانستان سے انڈیا آنے والے لوگوں کے بارے میں چوکس تھیں اور اسی وجہ سے رنگینہ کو واپس کر دیا گیا۔

افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال مسلسل خراب ہوتی جا رہی ہے۔ کابل ایئرپورٹ پر جمعرات کو ہونے والے بم دھماکوں میں امریکی فوجیوں سمیت کم از کم 170 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ امریکہ 31 اگست کو کابل میں اپنا سکیورٹی آپریشن ختم کر رہا ہے۔ اس کے بعد کابل ایئرپورٹ کی سکیورٹی بھی طالبان کے پاس ہو گی۔

طالبان نے 15 اگست کو کابل پر قبضہ کیا تھا اور اس دوران افغانستان کے اس وقت کے صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ انڈیا نے افغانستان کے شہریوں کے لیے ایمرجنسی ای-ویزا کا اعلان کیا لیکن افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ انھیں یہ ویزا آسانی سے نہیں مل رہا۔

ایئرپورٹ

ای-ویزا میں مسائل

کابل میں رہائش پزیر ایک 19 سال کی طالبہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے انڈین سفارت خانے میں تعلیمی ویزا کے لیے درخواست دی تھی لیکن انھیں ویزا نہیں مل سکا۔

یہ طالبہ انڈیا کی پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں اور فی الحال کابل میں رہتے ہوئے آن لائن کلاسز لے رہی تھیں۔ اب ان کی کلاسز شروع ہو چکی ہیں لیکن ویزا نہ ملنے کی وجہ سے وہ انڈیا نہیں آ سکیں۔

طالبہ نے کہا کہ ’میں اس وقت اپنے خاندان کی پانچ خواتین ارکان کے ساتھ گھر میں قید ہوں۔ طالبان ہمارے گھر کے باہر کھڑے ہیں۔ ہم کھڑکی بھی نہیں کھول سکتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں انڈیا آ کر اپنی کلاس لینا چاہتی تھی لیکن انڈیا نے مجھے ویزا نہیں دیا۔ میں نے ای-ویزا کے لیے درخواست دی لیکن ابھی تک جواب نہیں ملا۔‘

31 اگست کے بعد کابل ایئرپورٹ کی حفاظت پر مامور امریکی اور نیٹو فوجی دستے واپس آجائیں گے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے بعد کابل ایئرپورٹ پر سکیورٹی کی صورتحال کیا ہو گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *