کابل ایئرپورٹ حملہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ یا داعش خراسان

کابل ایئرپورٹ حملہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ یا داعش خراسان

کابل ایئرپورٹ حملہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ یا داعش خراسان کیا ہے اور کابل میں اتنا بڑا حملہ کرنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟

اگرچہ مغربی ممالک کے پاس مصدقہ اطلاعات تھیں کہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ خراسان کی جانب سے کابل ایئرپورٹ کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، پھر بھی اس کے حملہ آور کابل کے ہوائی اڈے اور اس کے قریب واقع بیرن ہوٹل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

اس حوالے سے کئی لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہ تنظیم کیا ہے اور اگر طالبان کا واقعی پورے ملک پر قبضہ ہے تو دولت اسلامیہ خراسان کابل کی سب سے اپم عمارت یعنی ہوائے اڈے کو نشانہ بنانے میں کیسے کامیاب ہوئی؟

اس سوال کا جواب دینے سے قبل ہمیں اس تنظیم کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

دولتِ اسلامیہ 2019 تک افغانستان اور پاکستان میں داعش خراسان کے نام سے سرگرم تھی تاہم اسی برس مئی میں پاکستان کو ایک علیحدہ صوبہ قرار دے دیا گیا۔

خراسان اس خطے کا ایک تاریخی نام ہے اور اس میں موجودہ پاکستان، ایران، افغانستان اور وسطیٰ ایشیا کے کچھ علاقے شامل ہیں۔

اس تنظیم کی بنیاد 2015 میں رکھی گئی اور اطلاعات کے مطابق اس میں پاکستانی اور افغان طالبان کے سابق اراکین شامل ہیں۔

داعش جنگجو

دولتِ اسلامیہ خراسان کی موجودہ صورتحال

اقوامِ متحدہ کے مبصرین کے مطابق تنظیم نے کابل سمیت افغانستان اور پاکستان کے کئی علاقوں میں سلیپر سیل بھی قائم کیے ہوئے ہیں۔

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق یہ گروہ افغان طالبان سے بھی زیادہ سخت گیر ہے اور خیال ہے کہ ان کی طالبان سے جانی دشمنی ہے کیونکہ یہ گروہ طالبان جنگجوؤں کو واجب القتل تصور کرتا ہے۔

دولت اسلامیہ نے فروری 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے ہونے والے معاہدے پر تنقید کرتے ہوئے لڑائی جاری رکھنے کا عزم کیا تھا۔ پھر حال ہی میں انھوں نے طالبان کے ملک پر قبضے کو بھی رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ انھیں خفیہ معاہدے کے تحت ملک کی چابیاں پکڑا کر چلا گیا۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اندازے کے مطابق اس وقت افغانستان میں دولت اسلامیہ خراسان کے جنگجوؤں کی تعداد 500 سے لے کر کئی ہزاروں میں ہو سکتی ہے۔

یاد رہے کہ تنظیم کو 2019 کے اوآخر میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور اگلے سال کے اوائل میں ہی اس کے سینیئر رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا تھا تاہم اس کے بعد سے اس گروہ کی صلاحیتوں میں دوبارہ اضافہ ہوا ہے اور اس نے امن مذاکرات کے دوران اور اس کے بعد ہونے والے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

اقوامِ متحدہ اور امریکہ کے اندازوں کے مطابق ان شکستوں کے بعد دولتِ اسلامیہ خراسان اب مختلف خفیہ سیلز کے ذریعے اپنے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور ملک کا شاید ہی کوئی علاقہ ان کے باقاعدہ قبضے میں ہے۔

Suspected Islamic State militants captured in Nangarhar province, Afghanistan. File photo
دولت اسلامیہ خراسان کا ٹھکانہ افغانستان کا مشرقی صوبہ ننگرہار ہے

تاریخی پس منظر

محقق عبدالسید کے مطابق افغانستان میں دولتِ اسلامیہ خراسان نے اس وقت سر اُٹھایا جب پاکستانی طالبان کے سابقہ اہم کمانڈروں نے پاکستان کے سابقہ خیبر ایجنسی کی تیراہ وادی میں 2014 کے آواخر میں اس کی بنیاد رکھی۔

القاعدہ کی پاکستانی قیادت کی تحریروں اور بیانات سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ دولت اسلامیہ خراسان کے قیام کے ساتھ ہی خطے میں القاعدہ کے اکثر ارکان نے اس نئی تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی۔

مگر جلد ہی فوجی آپریشن کی وجہ سے وہ وہاں سے دیگر عسکریت پسندوں کی طرح افغانستان کے ملحقہ صوبہ ننگرہار منتقل ہوگئے۔

اگرچہ دولت اسلامیہ خراسان کی بنیاد رکھنے والی قیادت کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے تھا مگر جلد ہی اس کے اندر افغانستان کے لوگوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہو گئی۔

دولتِ اسلامیہ نے جلد ہی یہاں پر افغان طالبان اور افغان حکومتی فورسز کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں اور اس طرح ننگرہار کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

یہاں دولت اسلامیہ کا اثرورسوخ تب مزید مضبوط ہوا جب طالبان اور افغان فوج کے ساتھ شدید جھڑپوں اور امریکی فوجی حملوں میں انھیں شدید جانی نقصانات کی وجہ سے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے جنگجوؤں نے فرار ہو کر کنڑ کے بعض اضلاع کو اپنا گڑھ بنا لیا۔

اس میں سرفہرست دولت اسلامیہ خراسان کے سابق سربراہ شیخ ابو عمر خراسانی کا آبائی ضلع سوکئی اور اس سے متصل پرپیچ پہاڑی ہیں جو کنڑ میں تنظیم کے مضبوط گڑھ بن گئے۔ تاہم طالبان، افغان فورسز اور امریکی فضائی حملے جلد یہاں بھی ان کا پیچھے کرتے آئے اور بلآخر فروری 2020 میں تنظیم کا یہاں سے بھی مکمل صفایا کردیا گیا۔

دولت اسلامیہ خراسان کے باقی ماندہ جنگجوؤں نے طالبان کے ہاتھوں موت سے بچنے کے لیے افغان حکومت کے آگے ہتھیار ڈال دیے جن میں سے اکثریت کو کابل کے بگرام اور پل چرخی جیلوں میں منتقل کیا گیا تھا۔

افغانستان
افغاسنتان کے خفیہ اداروں نے دولت اسلامیہ کے خلاف کئی آپریشن کیے ہیں (فائل فوٹو)

گذشتہ برس مئی میں شیخ ابو عمر خراسانی کو اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ کابل سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

عبدالسید کے مطابق اس کے بعد دولت اسلامیہ خراسان کی سربراہی کے لیے ڈاکٹر شہاب المہاجر نامی ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا گیا جن کا تعلق مشرق وسطٰی سے ہے اور وہ ماضی میں اس خطے میں القاعدہ سے وابستہ رہے ہیں۔

حالیہ دنوں میں جب طالبان نے یہ جیلیں توڑیں تو دیگر قیدیوں کے ساتھ ساتھ دولت اسلامیہ کے بھی کئی قیدیوں نے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم اطلاعات کے مطابق تنظیم کے 80 سے 250 ارکان فرار ہونے کی کوشش میں مارے گئے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ابو عمر خراسانی بھی اسی دوران مارے گئے تھے۔

اتنی سکیورٹی کے باوجود کابل ایئرپورٹ پر حملہ کیسے ممکن ہوا؟

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

محقق عبدالسید لکھتے ہیں کہ جنگجوؤں کے بڑے پیمانے پر مارے یا پکڑے جانے کے بعد دولت اسلامیہ خراسان حالیہ دنوں میں کابل سے نئی بھرتیاں کر رہی ہے۔ یہ نیٹ ورک تجربہ کار، پڑھے لکھے اور انتہائی کٹر سلفی جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔

ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر سجن گوہل کئی برسوں سے افغانستان میں عسکریت پسندوں کے نیٹ ورکس پر تحقیق کر رہے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کے فرینک گارڈنر سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ‘سنہ 2019 سے سنہ 2021 کے درمیان ہونے والے کچھ بڑے حملے حقانی نیٹ ورک، دولت اسلامیہ خراسان اور پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کے باہمی تعاون سے ہوئے تھے۔’

لیکن دولت اسلامیہ کے طالبان سے بڑے اختلافات ہیں۔ وہ ان پر قطر میں ‘پرتعیش’ ہوٹلوں میں بیٹھ کر امن معاہدے کرنے اور میدان جنگ اور جہاد ترک کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔

دولت اسلامیہ کے جنگجو اب آنے والی طالبان کی حکومت کے لیے ایک بڑا سکیورٹی چیلنج ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جو طالبان اور مغربی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے درمیان مشترک ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *