اسلام کی عربوں کی یا افریقہ کی فتح

اسلام کی عربوں کی یا افریقہ کی فتح

اسلام کی عربوں کی یا افریقہ کی فتح مراکش کی شناخت کا تنازع کیا ہے؟

نمائندہ بی بی سی ماگدی عبدالحادی نے فٹبال ورلڈکپ کے دوران مراکش کی شناخت پر اٹھنے والے سوالات کا جائزہ لیا ہے جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اس سال قطر میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ کے دوران بہت سے تنازعات کھڑے ہوئے، شاید اس سے پہلے ہونے والے ورلڈ کپ مقابلوں میں اتنے تنازعات سامنے نہیں آئے۔

انسانی حقوق کی بُری صورتحال کے باوجود قطر کو ورلڈکپ کی میزبانی دینے سے لے کر ورلڈکپ فائنل میں قطر کے امیر کی جانب سے فاتح ٹیم ارجنٹینا کے کپتان اور فٹبال لیجنڈ لیونل میسی کو ٹرافی دیتے وقت قطر میں شاہانہ علامت سمجھا جانے والا ’بشت‘ یعنی قطری عبا، پہنائے جانے تک، اس ٹورنامنٹ میں بہت سے تنازعات سامنے آئے۔

لیکن اس سب کے دوران ایک اور تنازعے نے بھی جنم لیا جسے شمالی افریقہ کے ممالک سے باہر بہت کم توجہ دی گئی۔ یہ تنازع مراکش کی شناخت کے حوالے سے تھا اور ایک سادہ سے سوال سے شروع ہوا کہ ’آپ مراکش کی ٹیم کی جس نے دنیا کو اپنے بہترین کھیل سے حیران کیا اور سپین اور پرتگال جیسی مضبوط ٹیموں کو ہرایا، تعریف کیسے بیان کر سکتے ہیں؟  کیا یہ سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی ’پہلی عرب‘ یا ’افریقی‘ فٹبال ٹیم تھی؟‘

ثقافتی طور پر مراکش کے شہری خود کو افریقی سے زیادہ عرب باشندے تصور کرتے ہیں اور مراکش میں رہنے والے چند صحرائے صحارا کے افریقی باشندے اس بارے میں نسلی تعصب کی بات کرتے ہیں۔

لیکن سپین کو ہرانے کے بعد مراکش کے کھلاڑی صوفین بوفل کا بیان ملک کی شناخت پر جاری بحث کے معاملے کو سامنے لے کر آیا۔

مراکش

انھوں نے دنیا بھر میں ’مقیم مراکش کے باشندوں، تمام عرب باشندوں اور مسلمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ فتح آپ سب کی ہے۔‘ مگر اس دوران وہ براعظم افریقہ کے باشندوں کا شکریہ ادا کرنا بھول گئے۔

سوشل میڈیا پر ان کے بیان پر آنے والے ردعمل کے بعد انھوں نے اپنے انسٹاگرام پر براعظم افریقہ کے باشندوں کی حمایت پر ان کا شکریہ ادا نہ کرنے پر معذرت کی۔

مراکش کی سیمی فائنل تک رسائی پر ایک موقع پر نائجیریا کے صدر محمدو بوہاری نے بھی مراکش کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’مراکش نے اپنی مہارت اور شاندار کھیل سے پورے براعظم کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔‘

اس پر بوفل نے لکھا تھا کہ ’میں اس فتح کو یقیناً آپ سب کے نام کرتا ہوں، ہمیں اپنے براعظم کے تمام بھائیوں کی نمائندگی کرنے پر فخر ہے۔‘

یہ بحث افریقی براعظم کے ساتھ قریبی تعلقات کی حوصلہ افزائی کرنے والے مراکش کے بادشاہ کی حالیہ کوششوں کی عکاسی کرتی ہے۔ مراکش کو سنہ 2017 میں مغربی صحارا کے متنازعہ علاقے پکی وجہ سے مسلسل 30 سال کی غیر موجودگی کے بعد افریقہ یونین میں دوبارہ شامل کیا گیا تھا، جس موقعے پر مراکش کے بادشاہ محمد ششم نے کہا تھا کہ ’افریقہ میرا گھر ہے، اور میں گھر واپس آ رہا ہوں۔‘ ان کے اس نظریے نے شمالی افریقہ کے ملک مراکش کے دوسرے ممالک خاص کر مغربی افریقہ کے ساتھ کاروباری روابط کو پھلنے پھولنے میں مدد کی۔

لیکن مراکش عرب لیگ کا رکن بھی ہے لہذا یہ سرکاری طور پر دونوں ثقافتی خطوں سے تعلق رکھتا ہے۔

تاہم مراکش کے باشندوں کو جغرافیائی طور پر ’افریقی‘ کہا جاتا ہے جبکہ ان میں سے بہت سوں کے لیے ’عرب‘ شناخت ایسی ہے جس سے وہ منسوب ہونا پسند نہیں کرتے۔

مراکش میں ’بربرز‘ یا امازیخ (شمالی افریقہ کی مقامی مسلمان برادری) کی کافی آبادی ہے اور وہ خود کو ’امازیخ‘ کہلانا پسند کرتے ہیں۔ چند اندازوں کے مطابق ان کی آبادی 34 ملین سے زیادہ ہے اور یہ ملک کی آبادی کا تقریباً 40 فیصد ہیں۔ ان کی ایک مقامی امازیخ زبان کو جسے تمازائٹ  کہا جاتا ہے، اب عربی کے ساتھ سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

مراکش

لیکن مراکش کی شناخت کے حوالے سے تنازعے نے ایک دن سر اٹھانا ہی تھا۔ قطر کو 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کا حق ملنے کے بعد قطر کے میڈیا نے اسے ’اسلام اور عرب دنیا کی فتح‘ قرار دیا تھا اور سنہ 2010 میں ایک اخبار نے یہ سرخی لگائی تھی۔

جیسے جیسے یہ ٹورنامنٹ آگے بڑھا اسلام پسندی اور عرب قومیت جیسے خیالات ایک بار پھر سامنے آئے۔ ٹورنانمٹ کے دوران شراب نوشی اور ہم جنس پرستوں کے ’ون لو‘ ہینڈ بینڈ کے استعمال پر پابندی کے بعد کھڑے ہونے والے تنازعے کے دوران اسلام پسندی اور عرب قومیت کے حامی قطر، اسلام اور روایتی اقدار کے دفاع میں ’سامراجی مغرب‘ کے خلاف میدان میں آئے۔

جب قطری میڈیا کی جانب سے اس ٹورنانمنٹ کو ابتدائی طور پر ’اسلام یا عربوں کی فتح‘ کے طور پر پیش کیا گیا، تب اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی، لیکن جب یہ میچز کے دوران کمنٹری کا حصہ بن گیا تو اس پر ایک ردعمل نے جنم لیا۔

اور جب مراکش کی ٹیم ورلڈکپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے پہلی ٹیم بنی تو اسے مسلم اور عرب دنیا کی فتح قرار دیا گیا۔

ٹورنامنٹ کے دوران اس خطے کی دیگر ٹیمیں تیونس، سعودی عرب اور قطر جب ابتدائی مرحلے میں باہر ہو گئی تھیں ایسے میں اس خطے کے فٹبال شائقین کے لیے مراکش کی حمایت کرنا قدرتی تھا۔

تاہم چند حلقوں کی جانب سے مراکش کی ٹیم کی کامیابی کو کھیل سے زیادہ نظریاتی اور سیاسی کامیابی قرار دیا گیا تھا۔ نتیجتاً مراکش کی ٹیم کو اسلام اور عرب قومیت کی علم بردار کہا گیا۔

اس سوچ کو اس وقت تقویت ملی جب مراکش کے چند کھلاڑیوں نے فتح کا جشن فلسطین کا پرچم لہرا کر منایا۔

اس طرح کی بیان بازی نے شمالی افریقہ میں بہت سے لوگوں کو مشتعل کیا، لیکن خاص طور پر مراکش کے ان لوگوں کو جو ان نظریات اور عالمی تناظر کو قبول نہیں کرتے۔

مراکش

’ثقافتی جنگ‘

مراکش سے تعلق رکھنے والے ایک باغی یوٹیوبر نے ایک گھنٹہ طویل گفتگو میں ان لوگوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جو کھیل کو سیاست کی نذر کرتے ہیں اور اسے ایک عالمی ثقافتی جنگ میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

راشد نامی اس یوٹیوبر نے اپنے تین لاکھ 85 ہزار سبسکرائبرز کو یہ بھی یاد کروایا کہ مراکش کی ٹیم کے کوچ سمیت نصف کھلاڑی درحقیقت یورپ میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں۔ یہ اب مراکش سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کے بچے ہیں جنھوں نے یورپ میں آنکھ کھولی اور وہاں پیشہ ور فٹبالرز بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ مراکش کی ٹیم کے کھلاڑیوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کریں تو آپ کو علم ہوگا کہ ان میں سے بیشتر آمازیخ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ ترعربی نہیں بولتے اور اگر انھیں ٹوٹی پھوٹی عربی آتی ہے تو اس لیے کیونکہ وہ مغرب میں پروان چڑھے ہیں۔‘

مراکش

مراکش میں اسلام اور آزادی اظہار کا  معاملہ قدرے حساس تصور کیا جاتا ہے۔ مراکش وہ ملک ہے جہاں کا شاہی خاندان اپنا شجرہ پیغمبر اسلام سے جوڑتا ہے اور بادشاہ اپنے لیے ’خلیفہ‘ کا خطاب استعمال کرتا ہے۔ خلیفہ ابتدائی مسلمان حکمرانوں کے لیے ایک تاریخی اصطلاح تھی۔

اگرچہ مراکش میں مذہب اسلام پر بات کرنا ایک حساس موضوع ہے تاہم یوٹیوبر نے اس پر بھی بات کی۔

انھوں نے کہا ’مراکش مشرق وسطیٰ سے مختلف ملک ہے، کیونکہ بنیادی طور پر یہ آمازیخ معاشرہ ہے، یہاں عربوں کی آمد ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوئی۔ آج مراکش میں عرب، آمازیخ، مسلمان، یہودی، بہائی، شیعہ، سُنی، ملحد اور مذہب سے انکار کرنے والے سب بستے ہیں۔‘

’اور اس صورتحال میں مراکش کی فتح کو عربوں اور اسلام کی فتح قرار دینا مراکش کی سوسائٹی کے بہت سے حصوں پر حملے کے مترادف ہے۔‘

اپنے اپنے مقاصد کے لیے مراکش کی فتح کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کرنے والے عربوں یا اسلام پسندوں کے جواب میں سوشل میڈیا پر اس نوعیت کی پوسٹس کی گئیں کہ یہ صرف مراکش کی فتح ہے۔ بعض پوسٹس میں کچھ ایسی تصویریں بھی پوسٹ کی گئیں جن میں آمازیخ برادری کی علامتیں بنی ہوئی تھیں۔

چند ناقدین نے فٹ بال کے کھیل کو مذہبی یا نسلی تعصب کی جنگ میں تبدیل کرنے کی مضحکہ خیزی پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ دلیل دی کہ یہ ناقابل فہم ہے کہ فرانس، برازیل یا ارجنٹائن کی جیت کو مسیحی مذہب کی فتح قرار دیا جائے۔

دلیل کی بنیاد پر بات کرنے والے ان افراد نے نشاندہی کی کہ یورپ کے ممالک کی کچھ فٹ بال ٹیموں میں موجود نسلی اور مذہبی امتزاج کو دیکھتے ہوئے یہ ناممکن ہو گا۔

مراکش کی ٹیم کی حقیقی شناخت کا تنازع اس ’ثقافتی جنگ‘ کا تازہ ترین مظہر ہے جو شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے جاری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *