پنجاب کا بحران اسمبلی کی تحلیل

پنجاب کا بحران اسمبلی کی تحلیل

پنجاب کا بحران اسمبلی کی تحلیل، وزیرِاعلیٰ کا ڈی نوٹیفیکیشن، گورنر راج یا عدالت کا رخ؟

پاکستان کے صوبے پنجاب میں ایک مرتبہ پھر آئینی بحران جنم لیتا نظر آ رہا ہے۔ وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کی ہدایت پر اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا۔ سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے گورنر کے حکم نامے کو مسترد کر دیا۔

اپنی رولنگ میں انھوں نے کہا کہ گورنر پنجاب کا حکم نامہ قابلِ عمل نہیں اس لیے مسترد کیا جاتا ہے۔ جواب میں گورنر پنجاب نے سپیکر کی رولنگ کو مسترد کرتے ہوئے اسے ‘غیر آئینی اور غیر قانونی’ قرار دے دیا ہے۔

دونوں کے درمیان اختلاف کا مرکز اسمبلی کا اجلاس ہے۔ سپیکر سبطین خان کا کہنا ہے پنجاب اسمبلی کا اجلاس پہلے ہی سے چل رہا تھا جب گورنر نے انھیں ’وزیراعلٰی کو اعتماد کے ووٹ کے لیے‘ اجلاس بلانے کا کہا۔

وہ کہتے ہیں ’آئینی طور پر ایک چلتے ہوئے اجلاس کے دوران نیا اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔‘

لیکن گورنر پنجاب نے ان کے اس جواز کو مسترد کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آئین کہیں بھی آرٹیکل 130 شق 7 کے اطلاق کو نہیں روکتا، اگر اسمبلی کا اجلاس پہلے سے چل بھی رہا ہو۔‘

قانونی ماہرین زیادہ تر اس پر گورنر پنجاب کے موقف کو درست مانتے ہیں۔ وکیل اسد رحیم خان نے بدھ کے روز بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس پر گورنر پنجاب بالکل درست کہہ رہے ہیں۔‘

تاہم قانونی ماہرین سمجھتے ہیں اگر معاملہ عدالت کی طرف جاتا ہے تو اس نقطے پر بحث ہو سکتی ہے کہ گورنر پنجاب نے جن باتوں کو بنیاد بنا کر وزیراعلٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا کیا وہ آئین کے آرٹیکل 130 شق 7 کی تشریح پر پورا اترتی ہیں۔

معاملہ تاحال سپیکر، گورنر اور پھر سپیکر کے درمیان خطوط کے تبادلے تک محدود ہے جبکہ پنجاب میں حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان اعلان کر چکے ہیں کہ وہ 23 دسمبر کو پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں گے۔

دوسری طرف حزبِ اختلاف کی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ وزیرِاعلٰی پنجاب اپنا عہدہ کھو چکے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے جمعرات کے روز لاہور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے خیال میں آئینی طور پر چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیرِاعلٰی نہیں رہے، صرف گورنر کی طرف سے نوٹیفیکیشن ہونا باقی ہے۔‘

ان کا اشارہ گورنر پنجاب کی طرف سے ممکنہ طور پر وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے لیے جاری کیے جانے والے نوٹیفیکشن کی طرف تھا، تاہم بدھ کے روز گورنر نے ایسا کوئی نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا۔

صوبہ پنجاب کی اس صورتحال میں کئی سوالات جواب طلب ہیں جن میں سب سے نمایاں دو سوال یہ ہو سکتے ہیں کہ کیا 23 دسمبر کو اسمبلی تحلیل ہو سکتی ہے اور کیا گورنر پنجاب وزیرِاعلٰی کو ڈی نوٹیفائی کر سکتے ہیں۔

پنجاب میں حکمراں جماعت پی ٹی آئی اور حزبِ اختلاف دونوں فریقین اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں تاہم کوئی فیصلہ تاحال سامنے نہیں آیا۔ قانونی ماہرین کے خیال میں کسی بھی فریق کی جانب سے کسی انتہائی قدم کی صورت میں معاملہ عدالت کی طرف جا سکتا ہے۔

punjab

کیا پنجاب اسمبلی جمعے کو تحلیل ہو جائے گی؟

پاکستان تحریکِ انصاف کے چند رہنما گزشتہ دو روز کے دوران یہ کہہ چکے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جانب سے وزیرِاعلٰی، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف جمع کروائی گئی عدم اعتماد کی تحریکوں کو جمعے کے روز ہی نمٹا کر اسی دن اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو بھجوا دی جائے گی۔

خیال رہے کہ اگر وزیرِاعلٰی کے خلاف اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد جمع ہو جائے تو وہ اسمبلی تحلیل کرنے کے احکامات نہیں دے سکتے۔ یوں جب تک ان کے خلاف اس تحریک پر ووٹنگ نہیں ہوتی اور وہ جیت نہیں جاتے، اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی۔

قانونی و آئینی ماہر حامد خان نے منگل کے روز بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جمعے کے روز عدم اعتماد کی تحریک کو نمٹانے میں تکنیکی مشکلات کے ساتھ ساتھ ایک دقت یہ بھی ہو گی کہ ’حزبِ اختلاف کی جماعتیں کہیں گی کہ پہلے گورنر کے حکم اور اعتماد کے ووٹ کا معاملہ حل کیا جائے۔‘

جمعرات کے روز لاہور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ’جمعے کے روز اسمبلی تحلیل ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ تحریکِ عدم اعتماد آ چکی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریکوں کو نمٹانے کا معاملہ جنوری کے پہلے ہفتے تک جا سکتا ہے۔

کیا گورنر وزیرِاعلٰی کو ڈی نوٹیفائی کر سکتے ہیں؟

قانونی ماہرین کے خیال میں وزیرِاعلٰی کو عہدے سے ہٹانے کا معاملہ پیچیدہ ہوگا۔ وکیل اسد رحیم خان کے مطابق ’اس میں دو پہلو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک یہ کہ جس بنیاد پر گورنر نے یہ خیال کیا اور وہ مطمئن تھے کہ وزیرِاعلٰی ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں، وہ کتنی معتبر ہے۔‘

اسد رحیم کہتے ہیں کہ آئین گورنر کو یہ اختیار ضرور دیتا ہے کہ وہ وزیرِاعلٰی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں لیکن آئین میں اس کے لیے گورنر کے ’مطمئن‘ ہونے کا لفظ آیا ہے۔ ’مسئلہ یہ ہے کہ اس لفظ کی تشریح کون کرے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسے عدالتی فیصلے موجود ہیں جہاں عدالتوں نے اس نوعیت کے احکامات کی صورت میں گورنر کی نیت کو سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا۔ دوسرا معاملہ آئین کے آرٹیکل 130 شق 7 کی تشریح کا ہو گا۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کے مطابق گورنر کی ہدایت کے مطابق بدھ کے روز 4 بجے تک اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ نہ لینے کے بعد ’قانونی طور پر یہ تصور کیا جائے گا کہ وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں۔‘

ان کے خیال میں اس کے بعد گورنر ان کو وزارتِ اعلٰی سے ہٹانے یعنی ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر سکتے ہیں۔

speaker
سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان

تو گورنر نے وزیرِاعلٰی کو تاحال ڈی نوٹیفائی کیوں نہیں کیا؟

گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے بدھ کی رات لو لگ بھگ دس بجے سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کو ایک خط لکھا جس میں انھوں نے سپیکر کی رولنگ کا جواب دیا اور اسے ’غیر آئینی اور غیر قانونی‘ قرار دیا۔

قانونی ماہر اور وکیل اسد رحیم خان کے مطابق ’ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنے اسی خط میں وزیرِاعلٰی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا کہہ دیں گے مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ انھوں نے صرف اس طرف اشارہ کیا۔‘

اس خط میں گورنر نے سپیکر اور وزیرِاعلٰی کو خبردار کیا کہ ’آئینی ذمہ داری پوری نہ کرنے اور اس کو پوری نہ کرنے میں معاونت پر ان خلاف قواعد کے مطابق کارروائی ہو سکتی ہے۔‘

وکیل اسد رحیم کے خیال میں اس خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ گورنر چاہتے ہیں کہ سپیکر کو مزید وقت دیا جائے یا پھر معاملے کو طول دیا جائے۔ ’بالکل ایسا نظر آتا ہے کہ دونوں فریقین چاہتے ہیں کہ معاملہ طول پکڑے ورنہ اگر گورنر چاہتے تو وہ نوٹیفیکیشن کر سکتے تھے۔‘

اپنے خط میں گورنر نے سپیکر کی ان تمام توجیہات کو مسترد کیا جن کی بنیاد پر سپیکر نے ان کا ہدایت نامہ مسترد کیا تھا۔ انھوں نے لکھا کہ وہ وزیرِاعلٰی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اختیار رکھتے ہیں اور یہ کہ آئین میں کہیں یہ ممانعت نہیں ہے کہ اگر اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہو تو اس معاملے پر ووٹنگ نہیں ہو سکتی۔

انھوں نے سپیکر کو ’اپنے حلف کے مطابق غیر جانبدارانہ طریقے سے اپنے فرائض انجام دینے کی ہدایت کی۔‘

پنجاب اسمنبلی

اس کے بعد کیا ہو گا؟

ایک طرف حزبِ اختلاف کی جماعتیں اپنے آپشنز پر غور کر رہی ہیں جس کے لیے جمعرات کے روز پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماؤں کی بیٹھک گورنر ہاؤس لاہور میں ہوئی۔

تو دوسری طرف سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے گورنر کی طرف سے ان کی رولنگ کے جواب میں لکھے خط کا جواب دے دیا۔ اس جواب میں آئین اور قواعد کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے اس بات کو دہرایا کہ وہ اس معاملے پر رولنگ دینے کا اختیار رکھتے تھے۔

اور یہ بھی کہ ان کی رولنگ کے جواب میں ’گورنر کے خط کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ وہ مضبوط اور معتبر آئینی اور قانونی بنیادوں پر تحریر نہیں کیا گیا۔‘

تاہم قانونی ماہرین کے خیال میں گورنر اور سپیکر پنجاب اسمبلی دونوں کے خطوط کے تبادلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایسے تمام قانونی تقاضے پورے کرنا چاہتے ہیں جو آنے والے دنوں میں ممکنہ طور پر عدالت جانے کی صورت میں ان کے موقف کو مضبوط بنائیں۔

ان کے خیال میں عدالت میں جانے کا مرحلہ فوری طور پر اس وقت آئے گا جب کوئی بھی فریق کوئی انتہائی قدم اٹھائے گا جیسا کہ وزیرِاعلٰی کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹس۔

کیا پنجاب میں گورنر راج لگ سکتا ہے؟

وکیل اور آئینی ماہر حافظ احسن کھوکھر کے خیال میں اگر گورنر پنجاب بلیغ الرحمان جواب میں وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کر دیتے ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ عدالت سے رجوع کریں گے۔

’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گورنر اپنے خطوط کے ذریعے اس صورتحال کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ وہ کل کو عدالت کو بتا سکیں کہ ہم نے تو ان سے کہا تھا لیکن انھوں نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا، اجلاس بھی نہیں بلایا اور ایسا نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ بھی اپنے خطوط میں نہیں بتا سکے۔‘

اسی طرح حکمراں جماعت اور سپیکر پنجاب اسمبلی عدالت میں یہ کہہ سکیں گے کہ انھوں نے گورنر کے تمام خطوط کا قانونی اور منطقی جواب دے دیا تھا جس میں ان کے تمام اقدامات کی وجوہات تفصیل سے لکھی گئی ہیں۔

آئینی ماہر حافظ احسن کھوکھر کے خیال میں دوسری صورت میں اگر گورنر ابھی وزیرِاعلٰی کو ڈی نوٹیفائی نہیں کرتے اور تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے بعد حکومت اسمبلی تحلیل کر دیتی ہے تو بھی گورنر اس کو ماننے سے انکار کر سکتے ہیں۔

’جب سمری ان کے پاس بھیجی جائے گی تو وہ یہ کہہ کر اس کو مسترد کر سکتے ہیں کہ وزیرِاعلٰی پہلے اعتماد کا ووٹ لیں اور وہ اسمبلی صرف اعتماد کے ووٹ سے بچنے کے لیے تحلیل کر رہے ہیں۔‘

تاہم آئین کے مطابق اگر گورنر وزیرِاعلٰی کی طرف سے بھیجی گئی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری کو منظور نہ بھی کریں تو 48 گھنٹے کے اندر اسمبلی کو تحلیل تصور کیا جائے گا۔

اس پر وکیل حافظ احسن کھوکھر کا کہنا ہے کہ اس صورت میں گورنر کے پاس یہ راستہ موجود ہے کہ ’وہ وفاقی حکومت کو ایک ریفرنس بھجوا دیں گے جس میں وہ ان کو صورتحال سے آگاہ کریں گے اور اس میں وہ انھیں گورنر راج لگانے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔‘

تاہم حافظ احسن کھوکھر کے خیال میں کسی بھی قسم کے انتہائی قدم کی صورت میں انھیں معاملہ عدالت میں جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *