بیوی شوہر کے گھر پر غیر محفوظ ہو

بیوی شوہر کے گھر پر غیر محفوظ ہو

بیوی شوہر کے گھر پر غیر محفوظ ہو تو وہ تنسیخِ نکاح کا دعویٰ دائر کر سکتی ہے: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے شوہر اور سسرال کے ظلم و ستم اور ناروا سلوک کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کو درست قرار دے دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ بیوی ذہنی یا جسمانی ظلم کی بنیاد پر شوہر سے تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کرنے کا حق رکھتی ہے۔

جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے یہ فیصلہ تنسیخ نکاح سے متعلق  پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے دیا۔

یہ فیصلہ جسٹس محمد علی مظہر نے تحریر کیا ہے جس میں ’قانونِ محمدی‘ کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ ’اگر بیوی پر سسرال میں ظلم ہو رہا ہو اور وہ خاوند کے گھر میں غیر محفوظ ہو تو وہ تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کر سکتی ہے۔‘

عدالت نے تشدد کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کو خلع کے ذریعے شادی کے خاتمے میں تبدیل کرنے کے اپیلیٹ کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فیملی کورٹ کے فیصلے کو بحال کیا ہے۔

فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ ’مرد اور عورت کے درمیان ازدواجی بندھن پاکیزہ رشتہ ہے جو زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہ رشتہ میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کی خوشی اور ہمدردی کے جذبات کو پروان چڑھاتا ہے اور  اس پر ہی خاندانی نسب اور وراثت کا بھی انحصار ہوتا ہے۔‘

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ازدواجی رشتہ نرمی، انسانی اور جذباتی وابستگی کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے جس کے لیے باہمی اعتماد، احترام، وقار، محبت اور پیار کی ضرورت ہوتی ہے اور اس لیے یہ اہم رشتہ معاشرتی اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے جیسا کہ دینِ اسلام شوہر کو خوراک، لباس، رہائش اور دیگر تمام ضروریات زندگی فراہم کرنے کا حکم دیتا ہے، اسی طرح مرد سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ پیار اور محبت کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھے گا۔‘

supreme

معاملہ شروع کب ہوا تھا؟

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ایسا طرزِ عمل یا رویہ جو بیوی کے لیے ذہنی اذیت اور جسمانی تکلیف کا باعث بنتا ہے اس کے لیے ازدواجی بندھن کو برقرار رکھنا ناممکن بنا دیتا ہے تو وہ تنسیخ نکاح کے دعوے کی حق دار ہے۔‘

واضح رہے کہ پشاور کی رہائشی ایک خاتون نے سنہ 2014 میں اپنے شوہر کے ناروا سلوک کی بنیاد پر تنسیخ نکاح اور حق مہر کی ادائیگی کا دعویٰ دائر کیا تھا۔

فیملی کورٹ نے دعویٰ منظور کیا جبکہ اپیلیٹ کورٹ نے فیصلے کے خلاف اپیل جزوی طور پر منظور کر کے ناروا سلوک کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کو خلع میں تبدیل کر دیا اور بیوی کو حق مہر کا پانچ تولہ سونا یا مارکیٹ ریٹ کے مطابق مساوی رقم شوہر کو واپس کرنے کا حکم دیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ نے فیصلے کے خلاف اپیل مسترد کر دی تھی۔

تاہم اب سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ اور اپیلیٹ کورٹ کا فیصلہ کالعدم کر کے فیملی کورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا اور قرار دیا ہے کہ ’شوہر کا بیوی کے دعوے کے جواب میں ازدواجی حقوق پورے نہ کرنے کا مؤقف مہر کی ادائیگی سے بچنے کا محرک ہو سکتا ہے۔‘

supreme

فیصلے میں مزید کیا کہا گیا ہے؟

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’فریقین کے درمیان بنیادی اختلاف کے سبب یہ سوال تھا کہ کیا درخواست گزار طیبہ عنبرین ظلم کی بنیاد پر شادی ختم کرنے کے حکم نامے کا دعویٰ کرنے کی مستحق تھی اور کیا اپیلیٹ فورم نے ظلم کی بنیاد پر نکاح کو ختم کرنے کے بجائے خلع کے ذریعے ختم کر کے ٹھیک فیصلہ کیا؟‘

سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ’بے رحمانہ، ظالمانہ اور جابرانہ طرزِ عمل اور رویے کے باوجود شوہر کی جانب سے ازدواجی حقوق کے دعوے کا واحد اور بنیادی مقصد صرف اور صرف کفالت اور مہر کی رقم کی ادائیگی سے بچنا معلوم ہوتا ہے۔

’مدعا علیہ کی یہ کوشش اس وقت کامیاب ہوئی جب اپیلیٹ کورٹ نے بیوی کو مہر کی رقم واپس کرنے کی ہدایت کرنے کے ساتھ خلع کے ذریعے شادی ختم کرنے کا فیصلہ جاری کیا۔‘

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’فیملی کورٹ نے واضح اور غیر مبہم انداز میں کہا کہ درخواست گزار خاتون نے کئی واقعات کا حوالہ دے کر شوہر کی جانب سے ان پر کیے جانے والے ظلم کو ثابت کیا جبکہ جرح کے دوران بھی خاتون کی جانب سے پیش کیے گئے شواہد کو جھٹلایا نہیں گیا۔ لہٰذا فیملی کورٹ نے مکمل جانچ پڑتال اور شواہد پر غور کرنے کے بعد ظلم کو بنیاد بناتے ہوئے شادی کو ختم کیا۔‘

سپریم کورٹ کے فیصلے میں ان واقعات کا بھی حوالہ دیا کہ فیملی کورٹ کے فیصلے میں کس طرح مختلف حالات و واقعات کی عکاسی کی گئی جو بیوی کے لیے ذہنی اذیت اور تشدد کا باعث بنے جیسا کہ یہ بات کہ شادی کے صرف ایک ہفتے بعد ہی شوہر نے بیوی پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ کرائے پر مکان حاصل کرنے کے لیے رقم کا بندوبست کرے۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ ’شوہر اور اس کے خاندان کے افراد نے بھی خاتون پر جھوٹے الزامات لگائے جس میں یہ الزام بھی تھا کہ درخواست گزار کے بطن سے پیدا ہونے والی بچی مدعا علیہ کی بیٹی نہیں اور اس طرح کی الزامات کے باعث درخواست گزار کو شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔‘

عدالت نے اپنے فیصلے میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ اس کے علاوہ شوہر اور اس کے خاندان کے افراد نے خاتون پر ’یہ سخت شرط عائد کی کہ وہ اپنی تنخواہ شوہر کے ساتھ جوائنٹ اکاؤنٹ میں جمع کرائے اور ذاتی استعمال کے لیے رقم اس کی اجازت سے لے۔‘

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ ’عدالت میں کیس دائر کرنے کے باوجود شوہر کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ اس نے اپنی بیوی کو مزید ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا اور  اس پر مزید جھوٹے الزامات لگانا شروع کر دیے۔‘

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’اپیلیٹ کورٹ نے ثبوتوں پر غور کرنے کے بجائے بغیر کسی وجہ کے قرار دیا کہ جسمانی تکلیف یا ذہنی اذیت کو ظاہر کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *