چین، روس سے لاحق خطرات کیا امریکہ مصنوعی ذہانت سے لیس ہتھیاروں کی منظوری دینے والا ہے؟
امریکی صدر اور کانگریس کے لیے مرتب کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی آرٹیفیشیل اِنٹیلیجنس (اے آئی) یعنی مصنوعی ذہانت کے حامل خودمختار ہتھیاروں کے متعلق عالمی پابندی کے مطالبات کو مسترد کر دیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اے آئی ’کسی فیصلے پر پہنچنے کے لیے درکار وقت‘ کافی حد تک گھٹا دے گا اور ایسے عسکری قیصلوں کی ضرورت پڑے گی جو انسان اے آئی کی مدد کے بغیر نہیں لے سکے گا۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ روس اور چین کی جانب سے ایسے کسی معاہدے پاس رکھنے کا امکان نہیں ہے۔
مگر ناقدین کہتے ہیں کہ رپورٹ میں دی گئی تجاویز کے نتیجے میں اسلحے کی ایک ’غیر ذمہ دارانہ‘ دوڑ شروع ہو جانے کا خطرہ ہے۔
کیمپین ٹو سٹاپ کِلر روبوٹس (قاتل روبوٹس کے خاتمے کی مہم) کے ترجمان پروفیسر نوئل شارکی کہتے ہیں کہ ’یہ ایک وحشت انگیز اور خوفناک رپورٹ ہے جس سے کسی کو قتل کرنے کے فیصلے میں اے آئی کے استعمال کو فروغ مل سکتا ہے۔‘
’دنیا میں اے آئی کے سب سے تجربہ کار سائنسدان انھیں خبردار کر رہے ہیں، مگر اس کے باوجود وہ یہ عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کا موجب ہوگا۔‘
رپورٹ میں ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر اوٹانمس ویپنز سسٹمز یعنی خودمختار ہتھیاروں کے نظاموں کی آزمائش ٹھیک طور پر کی جائے اور ان کے استعمال کی منظوری انسانی کمانڈر دے تو پھر یہ بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق ہوگا۔
یہ سفارشات نیشنل سکیورٹی کمیشن آن اے آئی نے پیش کی ہیں۔ اس کمیشن کے سربراہ گوگل کے سابق چیف ایرِک شمِڈ اور صدر اوباما اور صدر ٹرمپ کے ادوار میں ڈپٹی سکریٹری آف ڈیفنس رہنے والے رابرٹ ورک ہیں۔
جوہری حد
750 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کا بیشتر حصہ چین کو 2030 میں منصوعی ذہانت کے شعبے میں عالمی لیڈر بننے سے روکنے پر مرکوز ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ فوجی حکام کو خبردار کیا جا چکا ہے کہ اگر چین آنے مصنوعی ذہانت والے نظاموں کو تیزی سے اپنا لے تو ’امریکہ آنے والے برسوں میں اپنی فوجی تکنیکی برتری کھو سکتا ہے‘، مثال کے طور پر اے آئی کے ذریعے ایک وقت میں ایک ڈرون کی بجائے وہ دشمن ملک کی بحریہ پر ڈرونز کے جھُنڈ بھیج کر حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’لمبے عرصے سے محکمۂ دفاع کی توجہ ہارڈویئر یعنی بحری اور ہوائی جہازوں اور ٹینکوں پر مرکوز تھی، مگر اب وہ سافٹ ویئر کے میدان میں تیزی سے پیش رفت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔ اگر ہماری افواج اے آئی کے جدید نظاموں سے لیس نہ ہوئیں جو دشمن کے نظام ان سے کہیں بہتر ہوں گے تو ہمارے افواج جنگ کی پیچیدگیوں میں مفلوج ہو کر رہ جائیں گی۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اے آئی جنگ کے تمام حربی پہلوؤں کو بدل کر رکھ دے گی اور مستقبل میں ایسا لگے گا کہ ایلگوردم ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔
اگرچہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ناقص طریقے سے تیار کردہ اے آئی نظام، جنگ کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے، مگر ’اے آئی سے لیس دشمن کے مقابلے میں بغیر اے آئی کے میدان میں اترنا بربادی ہوگی۔‘
تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے لیے صدر کی واضح منظوری لازمی ہوگی۔
وائٹ ہاؤس کو مشورہ دیا گیا ہے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے معاملے میں وہ ماسکو اور بیجنگ پر دباؤ ڈالے کہ وہ بھی اس سلسلے میں کھل کر اپنے عزم کا اظہار کریں۔
’ذہانت کا خُرُوج‘
کمیشن نے مارچ 2019 میں اپنا جائزہ شروع کیا تھا اور یہ اس کی حتمی رپورٹ ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اے آئی سے لاحق خطرات کے بارے میں پچھلی تنبہوں کو نظر انداز کر دیا گیا تھا، البتہ اگر صدر بائیڈن اور دوسرے سیاستدان اب بھی تیزی سے کام کریں تو مجوزہ تبدیلیاں لانے کے لیے اب بھی وقت ہے۔
رپورٹ میں صرف عسکری شعبے پر ہی توجہ نہیں دی گئی ہے، بلکہ کہا گیا ہے کہ اے آئی سے متعلق غیر فوجی تحقیق اور ترویج کے لیے مختص رقم بھی 2026 تک دگنی یعنی 32 ارب ڈالر کی جانے چاہیے۔
رپورٹ میں دیگر تجاویز کے ساتھ تارکین وطن سے متعلق قوانین میں نرمی کی بھی سفارش کی گئی ہے تاکہ چین سے ’برین ڈرین‘ یعنی ذہین افراد کے انخلا کو تیز کیا جا سکے۔
اگرچہ کمیشن کے اکثر ارکان ذاتی حیثیت میں کام کرتے ہیں، مگر جن کمپنیوں کے لیے وہ کام کرتے ہیں انھوں نے مصنوعی ذہانت کے معاہدوں کے لیے پینٹاگون یعنی محکمۂ دفاع اور دوسرے سرکاری اداروں سے رابطے کیے ہیں۔
ان میں مائکروسافٹ کو دیا جانے والا 10 ارب ڈالر کا ٹھیکہ بھی شامل ہے، جسے ایمازون عدالت میں چیلنج کر رہا ہے۔
کمپیوٹر چپس بنانے کی صلاحیت
رپورٹ میں چین کے جدید ترین چِپ تیار کرنے کی صلاحیت کو محدود کرنے کے لیے امریکی کردار پر بھی توجہ دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ’اگر ممکنہ دشمن طویل عرصے کے اندر سیمی کنڈکٹرز کے شعبے میں امریکہ پر برتری حاصل کر لے یا صفِ اوّل کی چِپس تک امریکی رسائی بالکل ہی ختم کر دے، تو وہ تمام حربی شعبوں میں سبقت حاصل کر لے گا۔‘
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ امریکہ کو چین کے مائکرو الیکٹرانکس (خُرد برقیات) کی صلاحیتوں کے مقابلے میں کم سے کم دو قدم آگے رہنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس مقصد کے حصول کے لیے امریکی سر زمین پر سرمایہ کاری کرنے والی چِپ ساز کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ دی جانی چاہیے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ سب سے چھوٹے ٹرانزسٹرز والی جدید ترین چِپوں کے لیے درکار فوٹولیتھوگرافی مشینوں کی چین کو برآمد پر پابندیاں عائد کی جائیں۔
اس مقصد کے لیے نیدرلینڈ اور جاپان کے تعاون کی ضرورت ہوگی کیونکہ وہ ان آلات میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔
مزید کہا گیا ہے کہ چین کو چِپ برآمد کرنے والی کمپنیوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اس بات کی تصدیق کریں کہ یہ چِپیں ’حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں‘ میں استعمال نہیں ہو رہی ہیں، اور یہ کمپنیاں محکمۂ تجارت کو ایک سہہ ماہی رپورٹ بھی پیش کریں جس میں چین کو فروخت کی گئی تمام چِپس کی تفصیل ہو۔
یہ سفارش ان الزامات کی روشنی میں کی گئی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ چین نے امریکی فرم اِنٹل اور نویڈیا سے خریدی گئی چِپس سنکیانگ کے علاقے میں اویغر مسلمانوں کی نگرانی کے لیے استعمال کی ہیں۔
صدر بائیڈن پہلے ہی امریکہ میں سیمی کنڈکٹرز کی صنعت کے اسرِنو جائزے کا حکم دے چکے ہیں، اور گذشتہ ہفتے انھوں نے مقامی پیداوار بڑھانے کے لیے کانگریس کی جانب سے 27 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ بھی کیا ہے۔
اس وقت توجہ کاروں کی صنعت میں استعمال ہونے والی چِپس کی کمی پر ہے۔
چین بھی اس معاملے کو اپنے اہداف کے لیے اہم سمجھتا ہے، اور پیر کے روز چینی وزارتِ صنعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اپنے چِپ سازوں کی بھرپور مدد کرنے کا وعدہ کیا۔
بیجنگ کہہ چکا ہے کہ وہ 2025 تک مقامی طور پر استعمال ہونے والی چِپس کا 70 فیصد خود بنانا چاہتا ہے۔
تجارتی روزنامے نِکی ایشیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس مقصد کے لیے چینی سیمی کنڈکٹرز بنانے والوں نے مارکیٹ میں دستیاب سیکنڈ ہینڈ فوٹولیتھوگرافی آلات کا تقریباً 90 فیصد خرید لیا ہے۔
تاہم یہ مشینیں صف اوّل کے سمارٹ فون، برقیاتی پرزہ جات اور فوجی مقاصد کے لیے جدید ترین چِپس بنانے کی اہل نہیں ہیں۔