مودی کے دوست حقیقی یا فرضی ’عباس کو میری

مودی کے دوست حقیقی یا فرضی ’عباس کو میری

مودی کے دوست حقیقی یا فرضی ’عباس کو میری ماں کے ہاتھوں کا کھانا بہت پسند تھا

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ روز جہاں اپنی والدہ اور والد کو یاد کیا وہیں انھوں نے اپنے بچپن کے ایک مسلم دوست کا بھی ذکر کیا۔

ان کے بلاگ کے آنے کی دیر تھی کہ سوشل میڈیا پر مودی کے بچپن کے دوست عباس ٹرینڈ کرنے لگے اور زیادہ تر لوگوں نے اسے ایک فرضی کہانی قرار دیا ہے اور اس کے تعلق سے مختلف قسم کے میمز شیئر کیے جا رہے ہیں۔

عباس کے ذکر کو بہت سے لوگ ملک میں موجودہ صورت حال اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو کم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں جبکہ بہت سے لوگ مسلم ممالک سے آنے والے رد عمل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔

انڈین وزیر اعظم مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد پر ایک عرصے سے خاموش ہیں اور ان پر سنہ 2002 کے مسلم مخالف گجرات فسادات کو دانستہ طور پر نہ روکنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔

مودی نے آخر عباس کا کس طرح ذکر کیا

وزیر اعظم مودی نے اپنی والدہ ہیرا بین کی 100ویں سالگرہ کے موقعے پر اپنے بلاگ میں لکھا کہ ‘ماں ہمیشہ دوسروں کو خوش دیکھ کر خوش رہا کرتی ہیں۔ گھر میں جگہ بھلے ہی کم ہو لیکن ان کا دل بڑا ہے۔ ہمارے گھر سے تھوڑی دور ایک گاؤں تھا جس میں میرے والد کے بہت قریبی دوست رہتے تھے۔ ان کا بیٹا عباس تھا۔’

وہ مزید لکھتے ہیں: ‘ایک دوست کی بے وقت موت کے بعد والد عباس کو ہمارے گھر ہی لے آئے تھے۔ ایک طرح سے عباس نے ہمارے گھر میں ہی رہتے ہوئے تعلیم حاصل کی۔ ہم سب بچوں کی طرح والدہ عباس کا بھی بہت خیال رکھتی تھیں۔ عید کے موقع پر عباس کے لیے اس کی پسند کے پکوان بناتی تھیں، تہواروں میں آس پاس کے کچھ بچے ہمارے گھر ہی آکر کھانا کھاتے تھے، انھیں بھی میری والدہ کے ہاتھوں کا کھانا بہت پسند تھا۔’

مودی نے شاید پہلی بار اپنے والد کا بھی ذکر کیا۔ وزیر اعظم کے بارے میں پہلے کہا جاتا رہا ہے کہ ان کی شادی نہیں ہوئی ہے لیکن پھر بعد میں ان کی شادی کی بات بھی سامنے آئی اور ان کی اہلیہ سے دوری پر بھی باتیں ہوا کیں۔

بہر حال اب جبکہ عباس کا ذکر سامنے آیا تو انڈین میڈیا میں اس بابت تجسس پیدا ہوا کہ آخر عباس کون ہیں؟

مودی کے بھائیوں کا اعتراف

انڈیا میں انگریزی کے مؤقر اخبار دی انڈین ایکسپریس نے عباس کے بارے میں وزیر اعظم مودی کے بھائیوں سے بات کی۔ ان کے حوالے سے اخبار نے لکھا کہ عباس میاں جی بھائی رامسدا مومن گجرات میں مہسانا ضلعے کے کیسمپا گاؤں کے رہنے والے تھے۔

وہ لوگ انھیں گھر کے فرد کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

اخبار کے مطابق عباس نریندر مودی کے سب سے چھوٹے بھائی پنکج بھائی کے ہم جماعت تھے۔

مودی اپنی والدہ کے ساتھ

پنکج بھائی نے عباس کو ‘نیک انسان’ کے طور پر یاد کیا ہے جو پنج وقتہ نمازی تھے اور انھوں نے اب حج بھی کر لیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے والد اور عباس کے والد دوست تھے۔ ‘ان کے گاؤں میں کوئی ہائی سکول نہیں تھا اور وہ ابتدائی سکول کے بعد تعلیم چھوڑنے والے تھے جس کے بعد میرے والد نے عباس کے والد کو ان کے ساتھ بھیجنے کے لیے راضی کر لیا تاکہ وہ اپنی پڑھائی پوری کر سکیں۔’

پنکج بھائی نے بتایا کہ عباس نے ان کے ساتھ آٹھویں اور نویں جماعت کی تعلیم پوری کی۔

پنکج بھائی کا کہنا ہے کہ عباس اب 64 سال کے ہو چکے ہیں۔ وہ گجرات حکومت میں سیکنڈ کلاس افسر کے طور پر ریٹائر ہو چکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ گذشتہ ہفتے ہی وہ اپنے بیٹے کے ساتھ رہنے کے لیے آسٹریلیا کے شہر سڈنی گئے ہیں۔

جشودا بین
پی ایم مودی سے عیلحدہ رہنے والی ان کی اہلیہ جشودا بین

پی ایم مودی کے بڑے بھائی سوما بھائی نے کہا: ‘وہ پنکج کے ہم جماعت تھے، وہ تقریباً دو سال تک ہمارے گھر رہے۔’

پنکج بھائی نے بتایا کہ ‘عباس خاندان کے ایک فرد کی طرح تھے۔ میری والدہ تہواروں پر ان کے لیے کھانا پکاتی تھیں۔ وہ محرم پر میری کالی قمیض پہنا کرتے تھے۔’

کہانی میں بس اتنا سا فرق ہے کہ پی ایم مودی کے مطابق عباس کے والد کی وفات کے بعد عباس ان کے یہاں آئے تھے جبکہ مودی کے بھائیوں کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے عباس کے والد کو قائل کیا تھا کہ وہ بچے کو ان کے ساتھ جانے دیں تاکہ ان کی پڑھائی مکمل ہو سکے۔

گجرات کی ایک صحافی دیپل ترویدی نے ایک شخص کی کافی کے ساتھ تصویر بھی پیش کی ہے جو کہ ان کے مطابق عباس بھائی ہیں اور سڈنی میں مقیم ہیں۔

سوشل میڈیا پر تبصرے

پی ایم مودی کے بلاگ کے بعد سوشل میڈیا پر عباس انگریزی اور ہندی دونوں زبانوں میں ٹرینڈ کر رہا ہے۔

مان امن سنگھ چھننا نامی ایک صحافی نے لکھا: ‘قطر، کویت، ایران، عراق، بحرین، سعودی عرب کا شکریہ کہ انھوں نے عباس کی یاد دلا دی۔ امید کہ وہ گجرات کے فسادات میں بچ گیا ہوگا۔’

t

واضح رہے کہ گجرات فسادات کے لیے گجرات کی مودی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے جس میں ایک ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

کانگریس پارٹی کی قومی سطح کی ترجمان ڈاکٹر شمع محمد نے بھی انھی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے لکھا: ‘عباس کے متعلق نریندر مودی کی یہ کہانی مسلم ممالک کو مطمئن کرنے کے لیے ہے۔’

انھوں نے مزید لکھا کہ ‘اچانک ان کی زندگی میں مسلمان کس طرح آ گیا؟’

ts

آر کھریا نامی ایک صارف نے مزاحیہ انداز میں لکھا کہ ‘اگر عباس کے بعد مشرق وسطی میں درجہ حرارت کم نہیں ہوتا ہے تو ہم لوگ یہ سنیں گے کہ مودی مدرسہ میں پڑھتے تھے۔’

t

بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ اس سے قبل ہم نے کبھی عباس کا یا مودی کے یہاں عید کے جشن کا ذکر کیوں نہیں سنا جبکہ کئی لوگوں نے لکھا ہے کہ مودی جی کے دوست کا نام عباس تھا اور وہ سنہ 2002 سے غائب ہے۔ اشارہ گجرات فسادات کی طرف ہے۔

آر ایل ڈی پارٹی میں ایس سی ایس ٹی ونگ کے قومی صدر پرشانت کنوجیا نے لکھا ’کہاں ہے عباس؟ کون ہے عباس؟ اسے سامنے آنا چاہیے تاکہ وہ مودی جی کے چائے بیچنے کے دعوے کی تصدیق کرے۔ عرب ممالک کے ایک ڈوز نے مودی کو ایک مسلم دوست ایجاد کرنے پر مجبور کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ دوسرے ڈوز کے بعد وہ کہیں گے کہ ‘مترو! وہ عباس میں ہی ہوں۔‘

ts

بہت سے لوگوں نے اس ذکر کو نریندر مودی کی جانب سے ماسٹر سٹروک بھی کہا ہے ان کا خیال ہے کہ ان کی پارٹی کی ایک ترجمان کی جانب سے پیغمبر اسلام کے خلاف بات کہے جانے کے بعد پوری دنیا سے ہونے والی تنقید کہ بعد یہ ضروری ہو گیا تھا اور یہ عباس اسی کا نتیجہ ہے۔

اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ پی ایم مودی نے ہمیشہ مسلمانوں سے دوری برقرار رکھی ہے۔ وہ ہر طرح کے ہیڈ گیئر پہنے نظر آئے ہیں لیکن انھوں نے ٹوپی سے ہمیشہ اجتناب کیا ہے۔

مسلمانوں کے خلاف ہونے والی انہدامی کارووائی پر انھوں نے اب تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ مسلمانوں سے ان کی دوری کا ذکر کرتے ہوئے ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی میں ایک بھی منتخب مسلم رکن پارلیمان نہیں ہے۔

میمز کے نام پر مختلف فلموں کے مناظر پیش کیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ دو بچوں کی تصویر پیش کی گئی ہے جس میں ایک نماز پڑھ رہا ہے تو دوسرا اس کے سر پر سایہ کر رہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *