یوکرین جنگ طویل تنازعے کے لیے تیار رہنا ہو گا

یوکرین جنگ طویل تنازعے کے لیے تیار رہنا ہو گا

یوکرین جنگ طویل تنازعے کے لیے تیار رہنا ہو گا چاہے کتنی بڑی قیمت کیوں نہ ہو، نیٹو چیف

مختلف ممالک کے فوجی اتحاد نیٹو کے چیف نے خبردار کیا ہے کہ مغرب کو ایک ایسی جنگ میں یوکرین کی مدد کے لیے خود کو تیار کرنا ہو گا جو کئی سال تک جاری رہ سکتی ہے۔

نیٹو کے سیکریٹری جنرل جنز سٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ ’جنگ کی قیمت بےشک بہت زیادہ ہے لیکن اگر روس اپنے جنگی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اس سے بھی بڑی قیمت ادا کرنا ہو گی۔‘

نیٹو چیف کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی ایک طویل تنازعے کے لیے تیار رہنے کی تنبیہ کر چکے ہیں۔

وزیر اعظم بورس جانسن اور نیٹو چیف سٹولٹن برگ دونوں نے ہی کہا ہے کہ مذید اسلحہ فراہم کرنے سے یوکرین کی جیت ممکن ہو سکتی ہے۔

نیٹو چیف نے جرمنی کے اخبار بلڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں اس بات کے لیے تیار رہنا ہو گا کہ یہ جنگ برسوں جاری رہ سکتی ہے۔ ہم یوکرین کی مدد میں کمی نہیں آنے دے سکتے۔‘

یوکرین جنگ
یوکرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر روس کو شکست دینی ہے تو پھر زیادہ بھاری اور بڑے ہتھیار فراہم کیے جائیں۔

’چاہے اس کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ ہو، صرف فوجی امداد کی قیمت ہی نہیں، بلکہ خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی۔‘

مغربی فوجی اتحاد کے سربراہ نے کہا کہ یوکرین کو جدید اسلحے کی فراہمی سے ملک کے مشرقی ڈنباس علاقے کی آزادی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں جس کا زیادہ تر حصہ روس کے زیر انتظام آ چکا ہے۔

گزشتہ چند مہینوں سے روس اور یوکرین کی افواج کے درمیان مشرقی حصے میں کنٹرول کی جنگ جاری ہے جس کے دوران حالیہ ہفتوں میں روس نے سست رفتاری سے پیش قدمی کی ہے۔

برطانیہ کے اخبار سنڈے ٹائمز میں برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن پر الزام عائد کیا کہ وہ ’پرتشدد مہم کے ذریعے یوکرین کو بربریت سے جھکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

بورس جانسن
بورس جانسن: ’ولادیمیر پوتن یوکرین کو بربریت سے جھکانے کی کوشش کر رہے ہیں‘

بورس جانسن نے لکھا ہے کہ ’مجھے ڈر ہے کہ ہمیں ایک طول جنگ کے لیے خود کو تیار کرنا ہو گا۔ وقت سب سے اہم عنصر ہے۔ ہر چیز کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ کیا یوکرین روس کی جانب سے نئے حملے سے قبل اپنی دفاع کرنے کی صلاحیت مضبوط تر بناتا ہے یا نہیں۔‘

برطانوی وزیر اعظم نے، جنھوں نے گزشتہ جمعے کو ہی یوکرین کے دارالحکومت کا دورہ کیا تھا، کہا کہ ’روس کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یوکرین کو مذید ہتھیاروں، سامان، اسلحے اور تربیت کی ضرورت ہے۔‘

یوکرین کے حکام نے حالیہ دنوں میں دو ٹوک الفاظ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر روس کو شکست دینی ہے تو پھر ان کو زیادہ بھاری اور بڑے ہتھیار فراہم کیے جائیں۔

Image shows rocket firing
روسی حکام نے یوکرین کی جنگی امداد کرنے پر نیٹو کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

بدھ کے دن یوکرین کے وزیر دفاع اولیکسی رسنیکوو نے برسلز میں پچاس ممالک کے نمائندوں سے ملاقات میں ہتھیاروں اور اسلحے کا مطالبہ کیا۔

یوکرین کا ساتھ دینے والے مغربی ممالک نے بھاری ہتھیاروں کی فراہمی کا وعدہ تو کر رکھا ہے لیکن یوکرین کا کہنا ہے کہ اب تک اس کا کچھ ہی حصہ اس تک پہنچا ہے اور اب اس کی جانب سے زیادہ بڑے اور بھاری ہتھیاروں کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے۔

ادھر روسی حکام نے یوکرین کی جنگی امداد کرنے پر نیٹو کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ گزشتہ ہفتے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لیوروف نے حملے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ایک وجہ یہ بھی بتائی تھی کہ یوکرین نیٹو اتحاد میں شامل ہونے والا تھا۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم نے ایک خصوصی فوجی آپریشن کا اعلان کیا کیونکہ ہمارے پاس مغرب کو یہ بات سمجھانے کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا کہ یوکرین کو نیٹو میں گھسیٹنا ایک مجرمانہ فعل تھا۔‘

واضح رہے کہ اس وقت تک یوکرین نیٹو کا رکن ملک نہیں ہے اگرچہ کہ اس کی جانب سے اس خواہش کا اظہار ضرور کیا گیا ہے لیکن اب تک یہ واضح نہیں کہ ایسا کب تک ممکن ہو گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *