عمران خان پر پیمرا کی پابندی سوشل میڈیا

عمران خان پر پیمرا کی پابندی سوشل میڈیا

عمران خان پر پیمرا کی پابندی سوشل میڈیا میں زیر بحث: ’یہ کل بھی درست نہیں تھا، آج بھی درست نہیں

شرم کرو آئی جی۔۔۔ اسلام آباد آئی جی اور ڈی آئی جی، تمھیں تو ہم نے نہیں چھوڑنا۔۔ تمھارے اوپر کیس کرنا ہے ہم نے اور مجسٹریٹ صاحبہ زیبا آپ بھی تیار ہو جائیں۔۔۔ آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے۔ آپ سب کو شرم آنی چاہیے۔۔۔‘

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے دارالحکومت کی پولیس اور خاتون مجسٹریٹ کودی گئی ان دھمکیوں کے بعد پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے 2002 کے آرڈیننس کے سیکشن 27 کے تحت ملکی میڈیا پر سابق وزیراعظم عمران خان کی تقاریر لائیو نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

اس حوالے سے پیمرا کی جانب سے سنیچر کی شب رات گئے ایک تفصیلی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان اپنی اشتعال انگیز تقاریر میں ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کر کے نفرت پھیلا رہے ہیں اور اس قسم کی تقاریر آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہیں۔

عمران خان نے سنیچر کی رات کو اسلام آباد میں ایک جلسے کے دوران اپنی جماعت کے رہنما شہباز گل پر مبینہ طور پر ہونے والے تشدد کے معاملے پر بات کرتے ہوئے دارالحکومت کی پولیس اور مجسٹریٹ کو دھمکی دی تھی کہ ان کے خلاف کیس کریں گے۔

پاکستان تحریکِ انصاف نے پیمرا کے اس حکم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عدالت میں چیلینج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کا کہنا ہے کہ عمران خان کی تقریریں نشر کرنے پر پابندی، سیاسی مسئلے کا انتظامی حل تلاش کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔

ماضی میں کن سیاستدانوں کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگائی گئی؟

یاد رہے یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پیمرا کی جانب سے کسی سیاستدان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگائی گئی ہو۔ الطاف حسین اور نواز شریف، مریم نواز، مولانا فضل الرحمن کے بعد عمران خان پیمرا کی طرف سے پابندی کا سامنا کرنے والے پانچویں سیاسی لیڈر ہیں۔

اس سے قبل عمران خان کے اپنے دورِ حکومت (2020) میں پیمرا نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی تقریر نشر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔

پیمرا کی جانب سے وکیل محمد اظہر صدیق کی جانب سے دی گئی درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے نواز شریف کی تقاریر نشرکرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن کی تقاریر اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصد زرداری کے انٹرویوز نشر کرنے پر بھی پابندی عائد لگ چکی ہے۔

نواز شریف کے اپنے دورِ حکومت میں (2016) بھی لاہور ہائی کورٹ نے ریاست مخالف تقریر کے الزام میں متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔

Social Media

’ایسی پابندی کا کوئی فائدہ نہیں‘

پاکستان میں جہاں کچھ لوگ اس پابندی کو آزادیِ اظہار کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں وہیں دیگر کا یہ بھی ماننا ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں ایسی پابندی کا کوئی فائدہ نہیں۔

اس حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینئیر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور، جس میں الیکٹرانک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا سبھی موجود ہیں، ایسے میں کسی بھی طرح کی پابندیاں مؤثر نہیں رہتیں۔

ماضی میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کی تقاریر پر لگنے والی پابندیوں کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ان پابندیوں کے اثرات منفی رہے ہیں تاہم وہ کہتے ہیں کہ ٹیلی ویژن چینلز کو اپنا ایک میکینزم ضرور بنانا چاہیے کہ کچھ ایسی باتیں نہ جائیں اور کچھ چینلز نے ڈیلے سسٹم لگایا ہوا ہے جسے مزید بہتر کیا جا سکتا ہے مگر کسی چینل یا سیاستدان پر پابندی آزادیِ اظہار پر قدغن ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کی تقریر پر اعتراض ہو سکتا تھا، پیمرا چینلز کو یہ کہہ سکتا تھا کہ آپ عمران خان کی تقریر میں ڈیلے سسٹم کو تھوڑا سا بڑھا دیں، اور فلاں فلاں چیز کا خیال رکھیں، لیکن تقریر پر پابندی تو آپ لگا دیں گے تو سوشل میڈیا پر تو پابندی نہیں لگا سکتے، سوشل میڈیا پر تو لوگ فالو کریں گے اور ان فالورز کی تعداد بڑھتی جائے گی۔

Social Media

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات ہمارے ملک میں آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں، حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ’یہیں جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو آزادیِ اظہار کی چیمپئین ہوتی ہیں اور تنقید کو بھی مثبت سمجھتی ہیں لیکن جب حکومت میں آ جائیں تو حکمرانوں کی روش اپنا لیتی ہیں اور پھر انھیں تنقید نہیں صرف تعریف اچھی لگتی ہے۔‘

’چونکہ مائنڈ سیٹ ابھی تک تبدیل نہیں ہوا اسی لیے عمران خان ہوں، شریف ہوں یا کوئی اور جماعت ہو، ان کی ایک ہی اپروچ نظر آتی ہے اور کسی حکمران نے آج تک آزادیِ اظہار کو یقینی نہیں بنایا۔‘

ایم کیو ایم

سوشل میڈیا پر ردِعمل: ’یہ کل بھی درست نہیں تھا آج بھی نہیں‘

ایک صارف لکھتے ہیں یہ 1990 نہیں جب پی ٹی وی کے علاؤہ کوئی چینل نہیں تھا۔ آج ایک لاکھ سے زیادہ یوٹیوب چینلز اور پانچ بڑی سوشل ایپس ہیں اور ملک کی اسی فیصد آبادی سوشل میڈیا صارفین پر مشتمل ہے۔

امن وزیر کا ماننا ہے کہ عمران خان کے تقریروں پر پابندی دراصل آزادی اظہار رائے پر پابندی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہاں دہائیوں سے سب کے ساتھ ایسا ہوتا آرہا ہے جو غلط ہے۔

جبکہ دوسری جانب کچھ افراد تحریکِ انصاف کو ان کے اپنے دورِ حکومت میں نواز شریف کی تقریر پر لگائی پابندی یاد کروا رہے ہیں۔

عطا اللہ نے لکھا ’اگر مولانا فضل الرحمن، نواز شریف، مریم نواز حتی کہ زرداری کے انٹرویو تک آن ائیر ہونے سے روکنا اور ان کی تقریر پر پابندی لگ سکتی ہے تو عمران پر کیوں نہیں۔ اس وقت کوئی قیامت نہیں ٹوٹی تو اب بھی نہیں آئے گی قیامت۔۔۔ باقی یہ طرز عمل بہرحال کل بھی درست نہیں تھا آج بھی درست نہیں۔‘

شعیب خان نے لکھا کہ ’دو سال پہلے خان دور میں جب پیمرا نے پابندی لگائی کہ نواز شریف کی تقریر نہیں دیکھائی جا سکتی اور نا ہی نواز شریف کی تقریر پر تبصرہ کیا جا سکتا ہے تو تحرکِ انصاف والے بہت خوش ہوئے تھے، اب خان کی تقاریر پر صرف لائیو دکھانے پر پابندی پر اتنا دکھ کیوں؟‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *