عاصمہ شیرازی کا کالم سلسلے توڑ گیا ’وہ‘ سبھی جاتے جاتے
غبار ہی غبار ہے، آلودہ سیاسی ماحول مزید آلودگی کا شکار ہو رہا ہے۔ یہ آخری لڑائی کتنی طویل ہے اور کیا انجام لائے گی خبر نہیں۔ معاملات جب کئی ایک کے پاس ہوں اور کمان کئی ایک ہاتھوں میں تو تیر کہاں سے آئے گا اور کس کس کو چھلنی کرے گا یہ معلوم نہیں۔
’طوائف الملوکی‘ کیا ہے؟ اس کی اصل شکل اب دیکھنے کو مل رہی ہے۔ لغت میں طوائف الملوکی کے معنی دیکھے تو نقشہ وطن عزیز کا ہی نکلا یعنی ’ایسی حالت یا زمانہ جس میں کسی خاص حکمران کا حکم نہ چلے بلکہ کئی امرا یا بادشاہ اپنا اپنا حکم چلائیں، بدنظمی، ابتری، سیاسی انتشار ہو۔‘
اب ان معانی کے معنی ڈھونڈنا تو میرے بس کا کام نہیں البتہ حالیہ دنوں میں منظر عام پر آنے والی آڈیو لیکس کہانی کُھل رہی ہے۔ عجب دن ہیں کہ انٹرنیٹ پر ہیکرز سامنے ہیں اور بے چہرہ اہم کرداروں کی جنگ میں ایندھن کے طور استعمال کوئی اور ہو رہا ہے۔
اب یہ سوال کوئی کیونکر پوچھے کہ ایک آڈیو یہاں سے تو دوسری آڈیو وہاں سے کیسے آتی ہے اور کون نکالتا ہے؟
دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ جس خط کے گرد کہانی کا پلاٹ تیار ہوا تھا وہ خط بھی کہیں منھ چھپا گیا ہے، جس سے خط گُما ہے وہ بھی الزام دے رہا ہے اور جو خط کا نشانہ ہے وہ بھی خط ڈھونڈ رہا ہے۔ ڈاکیا مگر کہیں مُنھ چھپا کر ہنس رہا ہے اور قوم خط کے پیچھے ’حقیقی آزادی‘ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک سی رہی ہے۔
دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ وہ جو چلمن سے لگے بیٹھے ہیں وہ چھپ چھپ کر ملتے بھی ہیں اور سرِعام کوسنے بھی دے رہے ہیں گویا پرانے دن اور پُرانی محبتوں کے واسطے اور ظالم محبوب قدموں میں گرانے کے لیے وار بھی جاری، چوکیدار سے شکوے بھی اور چوکیدار کو دھمکیاں بھی جبکہ محبوب کا نام بھی زبان پر نہیں اور محبوب کی اداؤں سے کام بھی نہیں۔
انقلاب چند دنوں میں پھر سڑکوں پر ہو گا اور حقیقی آزادی کا نعرہ بھی گونجے گا مگر جن سے حقیقی آزادی چاہیے اُن کے نیوٹرل ہونے اور ساتھ نہ دینے کے طعنے بھی منشور کا حصہ بن رہے ہیں۔ اب کی بار یہ خواہش فزوں تر ہے کہ نیوٹرل مداخلت کریں اور صرف امر بالمعروف کا ساتھ دیں جو بقول خان صاحب کے صرف تحریک انصاف ہی ہے۔
اب جب وقت کا پہیہ اُلٹا چل پڑا ہے اور حالات کی گاڑی کو ریورس گیئر لگ چکا ہے تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جانے والا جاتے جاتے تمام سلسلے توڑ رہا ہے۔ گو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور بار بار کے تجربوں نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے جس سے طاقت کے مراکز بھی بچ نہیں پائے۔
اب یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک دوبارہ پٹری پر لا کر گذشتہ سٹاپ پر واپس لے جایا جائے، کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک یعنی یادداشت سے وائرس لگی فائلیں ڈیلیٹ اور سسٹم ’ان ڈو‘ کیا جائے، مداخلت کے باب کو ختم کر کے آگے بڑھا جائے۔ یہ اچھی خواہش تو ہے لیکن سسٹم میں موجود مبینہ ہیکرز اس پراسس کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
سسٹم میں غیر آئینی سیاسی مداخلت کے کم و بیش 77 سال صرف ایک کلک سے ’ان ڈو‘ نہیں ہو سکتے جب تک کہ نظام کو آئین کی بنیادوں پر کھڑا نہ کیا جائے، عدالتیں صحیح معنوں میں آزاد ناں ہوں، طاقتور کے لیے قانون الگ اور کمزور کے لیے الگ نہ ہو۔ قانون و انصاف شخصیت اور حیثیت دیکھ کر عمل میں نہ آئے تو پھر سسٹم اَن ڈو ہو گا۔
اب جبکہ ادارے نے بڑی بیٹھک میں یہ فیصلہ کر لیا کہ سیاست میں اب مداخلت نہیں ہو گی اور اپنی آئینی حدود میں کام کیا جائے گا تو اس فیصلے کا عہد ادارے کے سینکڑوں افسران نے مل کر کیا جس میں آنے والے کئی چیفس بھی شامل ہیں۔ ادارے کو اپنے اس نئے عہد پر قائم بھی رہنا ہو گا اور اگر سمت یہی رہی تو چند ’وائرس‘ سسٹم کو ناکام نہیں بنا سکتے۔
کسی سیاسی رہنما کی خواہش پر آئینی حدود عبور نہ کی گئیں، ملک کا فیصلہ پارلیمان اور آئین پر چھوڑا گیا، آئین سر بلند رہا تو چند اشخاص کی طوائف الملوکی کی کوششیں بارآور نہیں ہوں گی۔