کسانوں کو خالصتانی ایجنٹ اور سکھوں کو نشانہ بنانے والا جعلی اکاؤنٹس کا نیٹ ورک بے نقاب
سوشل میڈیا پر ایک ایسے نیٹ ورک کو بےنقاب کیا گیا ہے جس میں بعض لوگ سکھ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے جعلی اکاؤنٹ بنا رہے ہیں اور نفرت انگیز نظریات کو فروغ دے رہے ہیں۔
بدھ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ، جسے بی بی سی کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے، میں اس نیٹ ورک کے 80 اکاؤنٹس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ان پروفائلز کو جعلی ہونے کی بنا پر اب معطل کر دیا گیا ہے۔
اس نیٹ ورک میں ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹاگرام پر اکاؤنٹس کی مدد سے ہندو قوم پرست نظریات اور انڈین حکومت کی حمایت میں خیالات کو فروغ دیا جا رہا تھا۔
رپورٹ کے مصنف بنجمن سٹریک کا خیال ہے کہ بظاہر اس نیٹ ورک کا مقصد ’سکھوں کی آزادی، انسانی حقوق اور اقدار جیسے اہم مسائل پر رائے تبدیل کرنا تھا۔‘
اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ اس نیٹ ورک کا تعلق براہ راست انڈین حکومت سے ہے جس نے بی بی سی کی درخواست کے باوجود اب تک اس بارے میں جواب نہیں دیا ہے۔
آن لائن جعلی شناخت
یہ نیٹ ورک، جسے ’ساک پپٹ‘ کہا جاتا ہے، ان جعلی اکاؤنٹس پر مشتمل ہوتا ہے جنھیں اصل لوگ کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں اور وہ خود کو انفرادی حیثیت میں کام کرنے والے آزاد افراد ظاہر کرتے ہیں، نہ کہ خودکار ’باٹس‘۔
رپورٹ کے مطابق جعلی اکاؤنٹس میں سکھوں کے نام استعمال کیے گئے اور دعویٰ کیا گیا کہ وہ ’اصل سکھ‘ ہیں۔ وہ مختلف سیاسی نظریات کے فروغ یا انھیں ناقابل اعتماد بنانے کے لیے ’ریئل سکھ‘ اور ’فیک سکھ‘ کے ہیش ٹیگز استعمال کرتے تھے۔
سینٹر فار انفارمیشن ریزیلئنس (سی آئی آر) نامی غیر منافع بخش تنظیم کی اس رپورٹ میں نیٹ ورک کے کئی اکاؤنٹس کی نشان دہی کی گئی جو متعدد سوشل میڈیا ویب سائٹس پر پائے گئے۔ ان اکاؤنٹس پر ایک جیسے نام، تصاویر (پروفائل اور کوور فوٹوز) اور پوسٹیں شائع کی جا رہی تھیں۔
کئی اکاؤنٹس پر معروف شخصیات کی پروفائل فوٹو لگائی گئی، جیسے پنجابی فلم انڈسٹری کی اداکاراؤں کی۔
اب ایسا نہیں کہ کسی معروف شخص کی تصویر لگانے سے ان اکاؤنٹس کو جعلی قرار دیا جا رہا ہے۔ دراصل رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ مربوط پیغام رسائی، مذکورہ ہیش ٹیگز کا بے دریغ استعمال، اکاؤنٹ بائیو میں ایک جیسی معلومات اور یکساں لوگوں کو فالو کرنا، ان تمام شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اکاؤنٹ اصل نہیں۔
بی بی سی نے ان آٹھ معروف شخصیات سے دریافت کیا کہ آیا ان کی تصاویر کو ان کی مرضی کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک نے اپنی انتظامیہ کے ذریعے جواب دیا کہ انھیں اس بارے میں علم نہیں تھا کہ ان کی تصاویر اس طرح استعمال کی جا رہی ہے اور اب وہ اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔
ایک دوسرے معروف شخص کی اتظامیہ نے بتایا کہ ان کے کلائنٹ کے ساتھ ہزاروں جعلی اکاؤنٹس کو جوڑا جاتا ہے اور وہ اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔
سیاسی مقاصد
گذشتہ جمعہ کو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک سال تک کسانوں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کے بعد زرعی اصلاحات کے تین متنازع قوانین کو ختم کر دیا تھا۔
جعلی اکاؤنٹس کا نیٹ ورک سکھ کسانوں کے احتجاج اور آزادی کی دہائیوں پرانی خالصتان تحریک پر سب سے زیادہ بحث کرتا تھا۔ رپورٹ کے مطابق یہ اکاؤنٹس سکھوں کی آزادی کے کسی بھی خیال کو ’انتہا پسندی‘ قرار دیتے تھے، کسانوں کے مظاہروں کو ’غیر قانونی‘ کہتے تھے جبکہ ان کا دعویٰ تھا کہ احتجاج کرنے والے کسانوں کو ’خالصتانی دہشتگردوں نے ہائی جیک کر لیا ہے۔‘
لیکن اس سے قبل، انڈین حکومت نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ کسانوں کے احتجاج میں ’خالصتانی گھس گئے ہیں۔‘
زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کا خیال ہے کہ ان اقدامات کے پیچھے سیاسی مقاصد ہو سکتے ہیں۔
مظاہروں میں شامل 30 یونینز میں سے ایک بھارتیہ کسان یونین کے رہنما جگجیت سنگھ دلیوال کا کہنا ہے کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اکاؤنٹ حکومت کے کہنے پر بنائے گئے اور اس کا مقصد مظاہروں کے خلاف ایک نظریہ تشکیل دینا تھا۔‘
بعض اکاؤنٹس نے اپنی پوسٹوں میں دعویٰ کیا کہ برطانیہ اور کینیڈا میں مقیم سکھ برادری خالصتان تحریک کی حمایت کر رہی ہے۔
ان اکاؤنٹس کے ہزاروں فالوورز تھے اور ان کی پوسٹوں کو اصل انفلوئنسرز نے لائیک اور ری ٹویٹ کر رکھا تھا۔ یہ پوسٹیں خبروں کی ویب سائٹس تک میں شائع ہو چکی تھیں۔
اثر و رسوخ کے اکثر آپریشن جعلی اکاؤنٹس کی مدد سے اصل لوگوں سے رابطے قائم کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
مگر اس نیٹ ورک کے کیس میں پتا چلا کہ سوشل میڈیا پر کچھ معروف شخصیات کے تصدیق شدہ اکاؤنٹس نے بھی ان جعلی اکاؤنٹ کی پوسٹوں کی حمایت کی تھی۔ اور انھیں فروغ دیا تھا۔
رپورٹ میں بعض نیوز بلاگز اور تبصروں کی ویب سائٹس پر ایسے مواد کی نشان دہی کی گئی جو کہ اصل میں ان جعلی اکاؤنٹس سے منسلک تھا۔
ماہرین کے مطابق اس عمل سے جعلی اکاؤنٹ کی کسی پوسٹ کو بڑھاوا دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے سے ان اکاؤنٹس کا اثر و رسوخ بڑھ جاتا ہے۔
بی بی سی نے بعض تصدیق شدہ اکاؤنٹس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے جنھوں نے اس نیٹ ورک کے جعلی اکاؤنٹس کی پوسٹوں کو لائیک یا ری ٹویٹ کیا تھا۔
روبیل ناگی، جو ٹوئٹر پر خود کو سماجی کارکن کہتی ہیں، نے ایک جعلی اکاؤنٹ کے ٹویٹ کے جواب میں تالیاں بجانے والا ایموجی استعمال کیا تھا۔ مگر اب ان کا کہنا ہے کہ انھیں افسوس ہے وہ اکاؤنٹ جعلی تھا۔
کرنل روہت دیو، جو ٹوئٹر پر خود کو جیو پولیٹیکل ملٹری تجزیہ کار کہتے ہیں، نے جعلی اکاؤنٹ کے ایک ٹویٹ کے جواب میں ’تھمبز اپ‘ لکھا تھا۔ مگر اب ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے واقف نہیں کہ اس اکاؤنٹ کے پیچھے کون تھا۔
ٹیکنالوجی اور پالیسی کی ویب سائٹ ’میڈیا نامہ‘ سے منسلک نکھیل پاہوا کہتے ہیں کہ اثر و رسوخ کے یہ نیٹ ورک ایسے لوگوں کو ہدف بناتے ہیں جن کا مخصوص سیاسی نقطہ نظر ہو۔
ان کے مطابق ’ضروری نہیں کہ یہ 80 اکاؤنٹ کوئی ٹرینڈ بنائیں گے۔ لیکن مسلسل پوسٹنگ کے ذریعے وہ کسی نقطہ نظر کو ناقابل اعتماد بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
’یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی لگتی ہے جو کسی بڑے آپریشن کا حصہ ہے۔‘
ان اکاؤنٹس سے پوسٹ ہونے والا بہت کم مواد پنجابی زبان میں ہے جو انڈیا میں سکھوں کی سب سے بڑی زبان ہے۔ قریب تمام مواد انگریزی میں ہے۔
پاہوا کہتے ہیں کہ کسانوں کے مظاہروں پر ہر طرف سے سیاسی سرگرمیاں ہو رہی تھیں۔ کچھ لوگ ان کی حمایت کر رہے تھے جبکہ بعض انھیں ناقابل اعتماد بنانا چاہتے تھے۔ ’یہ تمام سرگرمیاں اس کھیل میں شامل ہیں جس کا مقصد سیاسی بیانیے کی جنگ جیتنا ہے۔‘
بی بی سی نے یہ رپورٹ ٹوئٹر اور میٹا (فیس بک اور انسٹاگرام کی مالک کمپنی) سے شیئر کی ہے اور ان کا جواب حاصل کیا ہے۔
ٹوئٹر نے ان اکاؤنٹس کو جعلی ہونے کی بنیاد پر معطل کر دیا ہے۔ ٹوئٹر کے مطابق ان اکاؤنٹس نے پلیٹ فارم کے ان قوانین کو توڑا جس میں غیر منصفانہ اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوششوں کو منع کیا گیا ہے۔
ٹوئٹر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت وسیع روابط، ایک فرد کی جانب سے متعدد اکاؤنٹس کا استعمال، یا اثر و رسوخ قائم کرنے کے دیگر حربوں کے شواہد نہیں ملے۔‘
میٹا نے بھی ان اکاؤنٹس کو فیس بک اور انسٹاگرام سے ہٹا دیا ہے کیونکہ انھوں نے ’مستند رویے کی پالیسی کی خلاف ورزی کی۔‘
میٹا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان جعلی اکاؤنٹس نے اپنے مواد کی اصلیت اور مقبولیت کے حوالے سے لوگوں کو گمراہ کیا۔ ’جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے لوگوں کو غیر مناسب پیغامات بھیجے گئے اور ہمارے نفاذ سے بچنے کی کوشش کی گئی۔