کیا ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے حملے کا خطرہ

کیا ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے حملے کا خطرہ

کیا ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے حملے کا خطرہ کتنا بڑھ چکا ہے؟

چند روز قبل بحیرہ احمر کے گہرے نیلے پانیوں میں اسرائیلی، اماراتی اور بحرینی بحریہ نے پہلی بار ایک امریکی جنگی جہاز کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لیا ہے۔

ان مشقوں سے قبل گذشتہ ماہ ہی اسرائیلی شہر ایلات کے شمال میں موجود ایک صحرائی ایئربیس پر اسرائیل سمیت سات ممالک کی مشترکہ فضائی وار گیمز بھی منعقد ہو چکی ہیں۔

اسرائیلی فضائی مشقوں کے اختتام پر ایک ایسے امریکی جنگی جہاز کا دو اسرائیلی جہازوں نے ملکی فضائی حدود سے نکلتے وقت تک ساتھ دیا جس کے پاس ایسا بم موجود ہوتا ہے جو زیرزمین تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

ان مشقوں کو ایران کے لیے ایک تنبیہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو حالیہ دنوں میں خود بھی بڑی سطح پر فوجی مشقیں کروا رہا ہے۔

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل میں یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ اگر ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف ممکنہ کارروائی کرنا پڑی تو کہیں وہ تنہا تو نہیں رہ جائے گا۔

واضح رہے کہ اسرائیلی حکومت ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف ممکنہ حملے کی تیاری کے لیے ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر مختص کر چکی ہے جب کہ اسرائیلی سیاسی اور عسکری حکام کی جانب سے بھی تقریباً روزانہ کی بنیاد پر تنبیہی پیغامات جاری کیے جا رہے ہیں۔

مستقبل میں کیا کچھ ہونے والا ہے؟

میں نے ایران کا جائزہ لینے والے تجزیہ کاروں کے سامنے یہ سوال رکھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔

ایک اسرائیلی سکیورٹی اہلکار نے مجھے بتایا کہ اسرائیل کو ایران سے جنگ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیکن ہم ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ ’ایران کے جوہری پروگرام کی پیش رفت کو دیکھتے ہوئے ہم عسکری آپشنز سمیت تمام ممکنات کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔‘

جارحیت کی دھمکیاں ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہیں جب ایران اور پانچ عالمی طاقتوں کے درمیان سنہ 2005 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں 29 نومبر سے مذاکرات شروع ہونے جا رہے ہیں، جن میں امریکہ بھی بالواسطہ طور پر شامل ہو گا۔

اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرتے ہوئے اپنی تمام تنصیبات کے معائنے کے مطالبے کو تسلیم کیا تھا جس کے جواب میں ایران پر عائد عالمی پابندیاں جزوی طور پر ختم کر دی گئی تھیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سنہ 2018 میں اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گئے تھے۔

ایران
ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے

دوسری طرف اس جوہری معاہدے پر از سر نو مذاکرات کی تاریخ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایران کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ 25 کلوگرام یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کیا جا چکا ہے (جو کہ جوہری ہتھیار بنانے کی سطح سے کچھ ہی کم ہے) جب کہ تقریبا 210 کلوگرام یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ کیا جا چکا ہے۔

ایران کی جانب سے مسلسل اصرار کیا جا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے لیکن ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ یورینیم کی اتنی بڑی تعداد صرف جوہری ہتھیار بنانے والے ممالک میں ہی افزودہ کی گئی۔

اسرائیلی سکیورٹی اہلکار کے مطابق ایران آج ماضی کے مقابلے میں جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار مواد بنانے کے زیادہ قریب ہے اور اسرائیل کے لیے یہ حقیقیت نہایت اہمیت رکھتی ہے۔

اسرائیل کا ماننا ہے کہ اگر ایران چاہے تو ایک ماہ میں ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے افزودہ یورینیم تیار کر سکتا ہے۔

ایرانی جوہری بحران کے چند حقائق

عالمی طاقتیں ایران پر بھروسہ نہیں کرتیں۔ چند ممالک کا ماننا ہے کہ ایران جوہری طاقت نیوکلیئر بم بنانے کے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے جب کہ ایران اس کی تردید کرتا ہے۔

اسی لیے معاہدہ کیا گیا: سنہ 2015 میں ایران اور چھ ممالک کے درمیان اہم معادہ طے پایا جس کے تحت ایران نے معاشی پابندیوں کے خاتمے کی شرط پر جوہری پروگرام کو محدود کرنے کا وعدہ کیا۔

اب کیا مسئلہ ہے؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یکطرفہ طور پر معاہدے سے دستبرداری کے بعد ایران پر معاشی پابندیاں دوبارہ عائد کر دی گئی تھیں جس کے بعد ایران کی جانب سے بھی جوہری پروگرام کو بحال کر دیا گیا تھا۔ اب جب کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن دوبارہ معاہدے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، ایران اور امریکہ چاہتے ہیں کہ پہل ان کو نہ کرنی پڑے۔

ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے ایران کو بیلیسٹک میزائل پر نصب کرنے کے لیے ایک وار ہیڈ بھی تیار کرنا ہو گا۔ ماہرین کے مطابق اس کے لیے 18 سے 24 ماہ درکار ہو سکتے ہیں۔

اسرائیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جوہری طاقت حاصل کرنے کے باوجود سرکاری سطح پر ابہام برقرار رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور جوہری طاقت سے لیس ایران کو اپنے وجود کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔ دوسری طرف ایران اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا جب کہ ایرانی حکام اکثر یہ تاثر دیتے ہیں کہ اسرائیل کی ریاست آخر کار ختم ہو جائے گی۔

اسرائیل میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق خدشات

امریکہ اور خلیجی عرب ممالک، جن کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں، بھی ایران کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے خلاف ہیں۔ یہ کہنا البتہ مشکل ہے کہ اگر اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تو یہ ممالک کس حد تک اس کا حصہ ہوں گے کیوں کہ ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔

سابق اسرائیلی مشیر برائے قومی سلامتی یاکوو امیڈرور نے سب سے پہلے سنہ 1990 میں ایران کے جوہری منصوبے سے متعلق بات کرنا شروع کی تھی۔

تازہ ترین پیش رفت کے بارے میں ان کا تجزیہ ہے کہ اسرائیل ایسی صورتحال میں نہیں رہ سکتا جہاں ایران دن بدن ایٹمی بم بنانے سے قریب تر ہو رہا ہے اس لیے جلد یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ اسے روکنے کے لیے کیا کرنا ہو گا۔

’میرے خیال میں ایران کو روکنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ ان کی جوہری تنصیبات کو تباہ کر دیا جائے کیوںکہ ایران ایک جوہری طاقت بننے سے پیچھے ہٹنے والا نہیں جس کے بعد وہ پہلے سے زیادہ جارحانہ ہو جائیں گے۔‘

واضح رہے کہ اسرائیل ماضی میں دو بار اپنے مخالفین کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر چکا ہے۔ سنہ 1981 میں عراق اور سنہ 2007 میں شام پر ان حملوں کے بعد اسرائیل کو کسی جوابی کاروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کے خلاف ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا کیوںکہ ایران کا پروگرام ناصرف کافی زیادہ جدید ہے بلکہ متعدد تنصیبات پر مشتمل ہے جن میں سے چند زیر زمین بھی ہیں۔

یاکوو امیڈرور کے مطابق اسرائیلی فیصلہ ساز جانتے ہیں کہ ایران کے خلاف حملے کے نتائج پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔

ایران اپنی جوہری تنصیبات پر کسی بھی حملے کا ’چونکا دینے والا‘ جواب دینے کا اعلان کر چکا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ممکنہ حملے کی صورت میں ایران ناصرف اپنی افواج کا استعمال کرے گا بلکہ خطے میں پھیلے اپنے مسلح ساتھیوں کے ساتھ مل کر جواب دے گا جن میں لبنان میں حزب اللہ، شام اور عراق میں موجود مسلح گروہ اور یمن کی باغی حوثی تحریک سمیت غزہ کے عسکریت پسند بھی شامل ہوں سکتے ہیں۔

ایران
’ایران اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگ پورے خطے میں پھیل سکتی ہے‘

ان تمام تر خطرات کے باوجود اسرائیل میں موجود کچھ لوگوں سمجھتے ہیں کہ اگر ایران کے جوہری پروگرام کو چند سال پیچھے بھی دھکیلا جا سکے تو حملے کا خطرہ مول لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سرکاری سطح پر اسرائیل اب بھی پر امن مذاکرات کے ذریعے ہی اس مسئلے کا حل نکالنے کو ترجیح دیتا نظر آتا ہے۔

موساد کے تحقیقی یونٹ کی سابق سربراہ سیما شین کہتی ہیں کہ انھیں امید ہے کہ سفارتکاری کا راستہ کامیاب ہو گا لیکن اس وقت وہ زیادہ پُرامید نہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ایران کو تجویز دی تھی کہ نئے مذاکرات کی بجائے پرانے معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا جائے لیکن اسرائیلی حکومت اس تجویز کی مخالفت کر رہی ہے۔

پرانے جوہری معاہدے کے تحت ایران کے جوہری پروگرام پر عائد کئی پابندیاں سنہ 2025 تک اٹھا لی جاتیں جب کہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور خطے میں عسکریت پسند گروہوں کے لیے ایران کی حمایت پر بھی کسی قسم کی قدغن نہیں لگائی گئی تھی۔

سیما شین، جو اب اسرائیلی انسٹیٹیوٹ برائے ایران پروگرام کی سربراہ ہیں، کہتی ہیں کہ ان کے تجزیے کے مطابق ایران اب پرانی پوزیشن پر نہیں جانا چاہتا۔

’ایران یہ ضرور چاہتا ہے کہ معاشی پابندیوں میں کمی ہو اور وہ جانتے ہیں کہ اس کے بدلے میں انھیں کچھ نہ کچھ دینا ہو گا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ایران کے نزدیک اُن کی معیشت اس وقت کس حالت میں ہے اور اسے کس حد تک مدد درکار ہے؟‘

سیما شین کا کہنا ہے کہ مذاکرات اور بات چیت کا راستہ اختیار کر کے ایران وقت حاصل کر رہا ہے تاکہ اس کا جوہری پروگرام ہتھیار بنانے کے قابل بن جائے۔

’ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی دھمکیوں میں وزن نہیں‘

واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے ماہر ایرانی امور الیکس وٹانکا کہتے ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام نظریاتی ہے لیکن اس وقت امریکہ اور یورپی ممالک پر عدم اعتماد کے باوجود ایران اپنی معاشی مشکلات کی وجہ سے پرانے معاہدے پر عمل درآمد کرنا چاہتا ہے۔ ان کے مطابق یہ ضرروی نہیں کہ ایران جوہری ہتھیار ہی بنانا چاہتا ہے۔

’ایران کے لیے یہ ایک آپشن ضرور ہے جسے وہ رکھنا چاہیں گے لیکن کیا وہ جوہری پرگرام کو ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کریں گے؟ یہ ضروری نہیں لیکن وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ایران جوہری طاقت بنے تاکہ امریکہ کو یہ پیغام دے سکے کہ حکومت کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔‘

ایران
’ایران کے لیے جوہری پروگرام کی نظریاتی اہمیت ہے‘

الیکس وٹانکا اسرائیل کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام پر حملے کی دھمکیوں کو زیادہ وزن نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک اسرائیل کی خفیہ کوششیں ایران کی جوہری پیش رفت روکنے میں زیادہ موثر ثابت ہو سکتی ہیں۔

’اسرائیل یہ ثابت کر چکا ہے کہ وہ خفیہ طور پر ایران میں کافی حد تک سرائیت کر چکے ہیں اور معلومات تک رسائی رکھتے ہیں۔‘

ایک دہائی قبل سٹکس نیٹ کمپیوٹر وائرس کے ذریعے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے مشترکہ امریکی اسرائیلی منصوبے کی رپورٹس منظر عام پر بھی آ چکی تھیں۔

حال ہی میں ایران نے اپنے اعلیٰ جوہری سائنس دان محسن فخری زادہ کے ڈرامائی قتل کا الزام اسرائیل پر لگایا تھا جنھیں تہران کے قریب آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے ریموت کنٹرول گن سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ایران اسرائیل پر اپنی جوہری تنصیبات کو دھماکوں کے ذریعے نقصان پہنچانے کا الزام بھی لگا چکا ہے۔

ایران
ایران 2020 میں جوہری تنصیبات پر حملے کو سازش قرار دے چکا ہے

’جنگ کے درمیان کی جنگ‘ کی پالیسی کے تحت اسرائیل ایسے کئی حملے کر چکا ہے جن کا مقصد شام میں ایران کے بڑھتے تسلط کو روکنا ہے جب کہ لبنان میں حزب اللہ تک ہتھیاروں کی منتقلی کا راستہ بھی اسرائیل روکتا رہا ہے۔

آگے کیا ہونے جا رہا ہے؟ اس سوال پر بین الاقوامی اُمور کے ماہرین میں اختلاف ہے لیکن اس بات پر اتفاق رائے موجود ہے کہ ایران کے جوہری ہتھاریوں پر ہونے والے مذاکرات انتہائی اہم وقت پر ہو رہے ہیں جن کے خطے پر نتائج دور رس ہو سکتے ہیں۔

اگر ایران جوہری ہتھیار بنا لیتا ہے تو پھر خطے کی دوسری طاقتیں بشمول سعودی عرب، ترکی اور مصر بھی یہی راستہ اپنانے کی کوشش کریں گے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ہمیشہ سے جاری جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن ایران سے متعلق وہ تمام آپشنز کا استعمال کر سکتا ہے۔

اس سارے بحران کا تضاد تجزیہ کاروں کا وہ نچوڑ ہے جس کے مطابق ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کا بہترین راستہ سنجیدہ طور پر عسکری حملے کی تیاری کے ذریعے ہی مل سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *