کراچی ایئرپورٹ پر ہراسگی 15 سالہ لڑکی کی شکایت کے بعد افسر معطل
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بین الاقوامی ایئرپورٹ کے ایک افسر کو ایک 15 سالہ لڑکی کو ہراس کرنے کے الزام میں معطل کر دیا گیا ہے۔
بحرین سے کراچی پہنچنے والی اس پندرہ سالہ مسافر نے ان پر ہراسگی کا الزام عائد کیا تھا۔
’نمبر نہیں دو گی تو میں رابطہ کیسے کروں گا؟‘
15 برس کی لڑکی کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے والوں نے اسے روکا اور پاسپورٹ سمیت سارے دستاویزات لے لیے اور ایک فارم دیا کہ اس کو بھرو۔
میں نے ابھی آدھا بھرا تھا تو افسر نے کہا کہ آدھا میں خود بھر دوں گا۔ اس میں لکھا تھا کہ مقامی (کراچی) کا نمبر دیں میں نے اپنے والد کا نمبر دے دیا۔ وہ کہنے لگا کہ بحرین کا نمبر دو میں نے اپنے والد کو فون کیا تو انھوں نے کہا کہ میرا نمبر دے دو میں نے والد کا نمبر دے دیا۔
افسر نے کہا کہ آپ کا نمبر چاہیے میں نے کہا کہ یہی نمبر ٹھیک ہے، اس نے کہا کہ نہیں اگر میں بحرین میں آپ کے ساتھ رابطہ کرنا چاہوں گا تو کیسے رابطہ کروں گا؟ لڑکی کی شکایت کے مطابق وہ سرکاری افسر اس کے بعد بھی نمبر مانگتا رہا۔
ایئرپورٹ کے باہر لڑکی کے چچا ان سے فون پر رابطے میں رہے۔ اس افسر نے لڑکی کو کہا کہ فون بند کرو۔ لڑکی کے چچا کے مطابق لڑکی نے انھیں کہا کہ اس کو ڈر لگ رہا ہے، ’ہم نے کہا کہ کوئی ایشو نہیں ہے اندر تم محفوظ ہو‘۔
لڑکی نے امیگریشن سے باہر نکل کر سارا قصہ اپنے رشتے داروں کو سنایا۔
لڑکی کے چچا نے بی بی سی کو بتایا کہ اس افسر نے لڑکی سے یہ بھی کہا کہ ’باہر سے جو بھی آتا ہے وہ ہمارے لیے مٹھائی لاتا ہے، تم مجھے کیا دو گی‘۔
انھوں نے ایئرپورٹ پر احتجاج کیا جس کے بعد شور مچ گیا۔ ’ہم نے مطالبہ کیا کہ اس افسر کو باہر نکالو جس نے یہ باتیں کی ہیں نہیں تو ہم نہیں جائیں گے، جس کے بعد اس افسر کو بلایا گیا۔‘
’میں تو مذاق کر رہا تھا‘
جب سرکاری افسر باہر آیا تو لڑکی کے رشتے داروں نے اس سے سوالات کیے اور اس کی ویڈیو بھی بنائی۔ افسر کا کہنا تھا کہ اس نے رابطہ نمبر اس لیے مانگا تھا کیونکہ وہ اس فارم کی ضرورت ہے۔ انھوں نے انکار کیا کہ رابطہ کرنے کے لیے اس نے نمبر مانگا تھا۔ اس نے یہ تسلیم کیا کہ مٹھائی مانگی تھی وہ ایسے ہی ’مذاق کیا تھا‘۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ اس لڑکی کو جانتے ہو؟ افسر نے کہا ’نہیں‘، تو ان سے کہا گیا کہ پھر ’کیوں مذاق کر رہے ہو‘۔
ایف آئی اے کا ردعمل
دوسری جانب ایف آئی اے کے ترجمان کے ایک اعلامیے کے مطابق ڈائریکٹر ایف آئی سندھ زون ون نے اس وائرل ویڈیو کا نوٹس لیا ہے اور متعلقہ افسر کو معطل کردیا گیا ہے۔ لڑکی کے چچا کا کہنا ہے کہ ان کی بھتیجی بحرین کی شہری ہے اور کراچی علاج کرانے آئی ہے۔ انھوں نے واقعے کی بحرین کے سفارتخانے میں بھی شکایت درج کرائی ہے۔
’لڑکیوں کی شخیصت اور ان کی اعتماد پر بہت منفی اثر پڑتا ہے‘
نو عمری میں جب ہراسگی کے واقعات پیش آئیں تو اس کے کیا ذہنی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
بی بی سی نے یہ سوال جب قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی پروفیسر رہائے آفتاب سے کیا تو ان کا کہنا تھا کہ جب کسی سرکاری ادارے میں اس قسم کا واقعہ ہوتا ہے تو ’ایک غیر یقینی سی ہوتی ہے کہ یہ آفیشل چیز ہے بھی یا نہیں۔ ایئرپورٹ جیسے حساس مقامات پر تو ہر چیز آفیشل ہی لگتی ہے۔‘
’ایسے واقعات سے ابتدائی طور پر پریشانی محسوس ہوتی ہے اس کے بعد عدم تحفظ کا احساس جنم لیتا ہے کہ آپ غیر محفوظ ہیں۔ اس کے طویل مدتی اثرات ہوتے ہیں، لڑکیوں کی شخیصت اور ان کی اعتماد پر بہت منفی اثر پڑتا ہے۔ کئی مرتبہ الزام لڑکیوں پر ہی عائد کر دیا جاتا ہے کہ وہ جس طرح سے دکھائی دے رہی تھیں، کس طرح سے بول رہی تھیں، جس طرح سے وہ فرینڈلی تھیں، اس وجہ سے جو ہراساں کرنے والا ہے اس کو شہہ ملتی ہے۔‘
’تمھیں خود کو بچانا ہے‘
ماہر نفسیات رہائے آفتاب کہتی ہیں کہ معاشرے میں ’خود کو بچاؤ‘ کا طریقہ رائج ہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ لڑکیاں اسی پر ہی عمل کریں۔‘
’فرض کریں اگر میرے ساتھ کوئی ناخوشگوار بات ہو اور میں گھر آکر بتاؤں تو مجھے کہا جائے گا تمھیں خود کو بچانا ہے۔ دنیا میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں آپ نے خود کو خود بچانا ہے۔ یہ ہمارا ایک قومی طریقہ کار ہے۔
وہ کہتی ہیں ’دنیا میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، جہاں لڑکیوں پر اعتماد نہیں ہوتا وہاں کہا جاتا ہے کہ تم نے ہی کچھ ایسا کیا ہوگا، تم اس قسم کے کپڑے پہن کر نکلی ہو گی۔‘
پروفیسر رہائے آفتاب کے مطابق جس طرح سے خاندان اس واقعے پر ردعمل دیتے ہیں اس پر انحصار ہوتا ہے کہ لڑکی پر مستقبل میں اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔
’اگر گھر والے خود اعتمادی کے ساتھ اس کو ہینڈل کرنا سکھائیں اور ہر چیز اس کو واضح کریں تو اس میں خود اعتمادی پیدا ہوسکتی ہے، اگر وہ لڑکی پر خفا ہوجاتے ہیں کہ تم وہاں کیا کر رہیں تھیں، وہاں کیوں کھڑی تھیں، تم نے ان کو نمبر کیوں دیا، ہم سے کیوں نہیں پوچھا، تو اس طرح سے ایک بچی پر ایک بری سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، جو اس کو بے چینی کے ساتھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور وہ اس کا منطقی اندز سے تجزیہ نہیں کر پاتی۔‘
کیا ایسے واقعات سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
رہائے آفتاب کی رائے میں ان واقعات سے بچنا دشوار ہے۔ ’اگر گھر میں بند ہوکر بیٹھ جائیں تو پھر تو اور بات ہے لیکن ایسا نہیں، گھر سے نکلنا بھی ہے اور رابطہ کاری بھی کرنی ہے۔ ہر طرح کے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں، بہت اچھے اور بہت بُرے لوگ بھی ہوتے ہیں۔
’جب اپنی بچیوں کو لے کر باہر نکلیں تو ان کی حفاظت کریں، اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ پردوں میں ڈھانپ دیں، ساتھ رہیں۔
’اگر ایسا واقعہ ہوجائے تو پہلے اس کو اعتماد دیں کہ یہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے کہ اس میں آپ نے غلط بات کی ہے یا غلط کیا ہے۔ اس کے سامنے صورتحال واضح کریں، جہاں غلطی ہے وہ بتائیں، جہاں دوسرے کی غلطی ہے وہ بتائیں۔
بچیوں کو خود اعتمادی دیں وہ خود سمجھدار ہوتی ہیں سمجھ جاتی ہیں کہ کون صحیح راستے پر ہے اور کون نہیں۔