چین کے مقابلے میں یورپ کا 300 ارب یورو کا عالمی منصوبہ
یورپی یونین ‘گلوبل گیٹ وے’ کے نام سے سرمایہ کاری کا ایک عالمی منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کرنے والا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ چین کے ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ منصوبے کا توڑ کرنے کی ایک کوشش ہے۔
یورپی یونین کی صدر ارسلا فان ڈر لی ین نے امید ظاہر کی کہ ’گلوبل گیٹ وے‘ ایک قابل اعتماد برینڈ ہو گا۔ چین نے ریلوے، سڑکوں اور بندرگاہوں کے منصوبوں کو فنڈ کیا ہے لیکن اس پر الزام لگتا ہے کہ جن ممالک میں یہ منصوبے لگے وہ بھاری قرض میں پھنس گئے۔
یورپی یونین کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کوشش کے تحت ‘مواصلات، توانائی، ماحولیات اور ڈیجیٹل’ شعبوں میں ٹھوس منصوبے شامل کیے جائیں گے۔
اس منصوبے کے بارے میں عام خیال یہ ہی ہے کہ یہ یورپ کی طرف سے افریقہ اور دنیا کے دیگر خطوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
یورپی کمیشن کی صدر ارسلا فان ڈر لی ین اگلے ہفتے بدھ کے روز ‘گلوبل گیٹ وے’ منصوبے کی تفصیلات پیش کریں گے۔
یورپی یونین اس بات پر غور کر رہا ہے کہ وہ کسی طرح یورپی برادری کے رکن ملکوں، مالی اداروں اور نجی سرمایہ کاروں سے اس پلان کے تحت بنائے جانے والے منصبوں کے لیے اربوں یورو اکھٹا کر سکتا ہے۔
یورپین کمیشن کی صدر نے اس سال ستمبر میں اپنے سالانہ ‘سٹیٹ آف یونین’ خطاب میں کہا تھا کہ ‘ہمیں معیاری انفراسٹرکچر جس سے سفر اور مال کی ترسیل میں آسانی ہو بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔’
گلوبل گیٹ وے منصبوے کی چودہ صفاحت پر مشتمل ابتدائی دستاویز میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ چین کی حکمت عملی کا مقابلہ کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔
کمیشن نے منگل کے روز اس منصوبے کے بارے میں بار بار پوچھے جانے کے باوجود چین کا نام لینے سے دانستہ طور پر گریز کیا۔
جرمن مارشل فنڈ کے بحر اوقیانوس کے خطے کے ماہر اینڈریو سمال کا کہنا ہے کہ اس کے پس منظر سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر چین کی طرف سے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ شروع نہ کیا جاتا تو گلوبل گیٹ وے کا خیال بھی نہ آتا۔
ان کے مطابق یہ منصوبہ یورپ کی طرف سے پہلی سنجیدہ کوشش ہے کہ ایسے پیکج مرتب کیے جائیں اور سرمایہ کاری کا نظام ترتیب دیا جائے تاکہ جو ممالک چین سے قرضے حاصل کر رہے ہیں ان کو متبادل ذرائع بھی دستیاب ہوں۔
بیلٹ اینڈ روڈ چین کی خارجہ پالیسی کا اہم جز ہے۔ جس کے تحت تجارتی روابط استوار کرنے کے لیے سڑکیں، بندرگاہیں، ریلوے لائینیں اور پل بنانے کے منصوبے میں پیسہ لگایا جا رہے۔
یہ حکمت عملی مشرق بعید اور جنوبی مشرقی ایشیا سے ہوتی ہوئی افریقہ اور یورپی یونین کے بلقان کے مغربی ہمسایہ ملکوں تک پہنچ گئی ہے۔
چین کی اس حکمت عملی پر شدید تنقید کی جاتی ہے اور اسے مختلف ملکوں کو ‘پھانسنے کے قرضے’ اور ‘قرضوں کے جال کی سفارتی کاری’ کا نام دیا جاتا ہے۔
لیکن کچھ لوگوں کی رائے میں یہ اتنا سیدھا معاملہ نہیں ہے اور اس میں بہت پیچیدگیاں ہیں کیونکہ بڑے بڑے قرضوں کا حصول کبھی بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ چین نے ایک ایسی خلا پر کی ہے جو دوسرے نہیں کر سکے۔ مغرب کی چین سے بڑھتی ہوئی کشمکش کے دوران چین کا اقتصادی، سیاسی اور دفاعی اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔
اینڈریو سمال کا کہنا ہے کہ اب جب کہ یورپی یونین اپنے اثر و رسوخ اور وسائل میں اضافہ کرنے کی کوشش میں ہے یہ اس کے لیے ایک بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یورپی یونین اس عالمی سیاست میں موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔
‘یا یہ اپنے اندرونی بیوروکریٹک جھگڑوں میں اس قدر الجھا ہوا ہے کہ یہ کردار ادا کر سکے۔’ ان کا استدلال ہے کہ اگر یہ ناکام ہو گیا تو یہ ایک بڑا موقع گنواں دے گا۔
ایک سفارت کار کا کہنا ہے کہ یہ ایک اچھا شگون ہے کہ آخر کار یورپ نے اس علاقے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا شروع کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا یہ مشترکہ مفاد کا معاملہ ہے اور جس میں یورپی یونین کے بحر اوقیانوس کے اتحادی امریکہ اور برطانیہ شامل ہیں۔
سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ کے ماہر سکاٹ مورس کا کہنا ہے کہ مشترکہ مفادات سے باہمی مسابقت کی فضا بھی جنم لیتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ نے گزشتہ جون میں جی سیون کے ملکوں کے اجلاس کے موقعے پر اس طرز کے اپنے منصوبے ‘بلڈ بیک بیٹر ورلڈ’ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سکاٹ مورس نے کہا کہ بہت شور مچ رہا ہے اور مختلف برانڈ آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔ لیکن وہ گلوبل گیٹ وے منصوبے کی کامیابی کے بارے میں پر امید تھے۔
انھوں نے کہا کہ چین کے مقابلے سے زیادہ ضروری بات یہ ہے یورپ ترقی پذیر ملکوں کے لیے سرمایہ کاری حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بن جائے۔
یورہی یونین کے اس منصوبے کے کمشنروں کے اجلاس میں بدھ کو منظوری کے بعد اسے یورپی کمیشن کی صدر کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
پورپی یونین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ ایک شفاف اور اقدار پر مبنی نظام ترتیب دینا چاہتا ہے جس سے دوسرے ملکوں سے تعلقات بن سکیں نہ کہ انھیں دستِ نگر بنایا جائے۔